ندی کے پل پر نہ بھی جائیں تو بھی لالچ بُری بلا ہے
(Rasheed Ahmed Naeem, Patoki)
ایک تھا کتا۔ایک دن قصائی کی دوکان کے قریب
پہنچا تو بلی کو چھیچھڑوں کے خواب دیکھتے ہوئے پایا۔یہ اس کے پاس بیٹھ
گیااور خواب دیکھنے کی بجائے عملی تعبیر پر غور کرنے لگا۔قصائی گوشت تولنے
لگا تونظر بچا کر گوشت پر جھپٹا اور یہ جا وہ جا۔۔۔۔ ’’اس نے لالچ بُری بلا
ہے‘‘ والی کہانی سنی ہوئی تھی اس لیے ندی پر جانے کی بجائے راستے میں ہی
بیٹھ کر لنچ کا پروگرام بنایا۔کھانے ہی لگا تھا کہ ایک کتا آ گیا۔۔۔۔ یہ سچ
مچ کا کتا تھا،عکس والے کتے سے مختلف، خونخوار،قد اور جُثے میں اس سے دوگنا
بڑا تھا۔اس کو دیکھ کر اس کی سٹی گم ہو گئی ہے۔دُم دبا کر بھاگنے ہی والا
تھاکہ دوسرے کتے نے لپک کر گوشت کا ٹکڑا چھین لیااور اس کے سامنے کھانے
لگا۔یہ اس کو بے بسی سے دیکھتا رہا اور کہنے لگا ’’ اے لالچی کتے! لگتا ہے
کے تو نے آج تک اپنے زورِ بازو سے رزقِ حاصل نہیں کیا۔دوسرے کی بوٹی پر
تیری نظر ہوتی ہے ۔اس لالچ نے تیری شخصیت میں وحشیانہ پن پیدا کر دیا
ہے۔’’کیا تُو نے لالچ بُری بلا ہے‘‘والی کہانی نہیں سنی؟؟؟ میں تجھے وہ
کہانی سناتا ہوں مگرپہلے میری بوٹی مُجھے واپس کر‘‘۔ بڑا کتا غرا کر اس کی
طرف دوڑا تو یہ بھاگا اور غلطی سے اسی قصائی کی دوکان پر جا پہنچا جہاں سے
گوشت کا ٹکڑا چرایا تھا۔قصائی اس کا پہلے سے ہی منتظر تھا قصائی نے اس کتے
کی خوب مرمت کی۔کتا بے چارہ کئی دن تک اپنے زخم سہلاتا رہااور اس نتیجے پر
پہنچا کہ ’’ ندی کے پل پر نہ بھی جائیں تو بھی لالچ بُری بلا ہے‘‘- |
|