مسلمانوں کیخلاف بے اعتمادی کیوں؟
(Falah Uddin Falahi, India)
مسلمان جب سرزمین عرب سے باہر نکلے اور روم
و ایران کی حدود میں داخل ہوئے تو وہ صرف اور صرف رسول پاک ؐ کے اسوہ کو لے
کر، نوع انسانی کی خیر خواہی اور ہمدردی کے غیر معمولی جذبات اپنے سینوں کے
اندر رکھے ہوئیتھے۔ ان کاصرف ایک ہی مقصد تھا کہ ’’ہم یہاں اس لئے آئے ہیں
کہ اﷲ تعالیٰ کے بندوں کو تاریکی، گمرہی اور بندوں کی بندگی سے نکال کر اﷲ
تعالیٰ کی بندگی میں داخل کریں، دنیا کی تنگی سے نجات دے کر وسعت و آسائش
کی راہ دکھائیں، تمام انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں جن کے درمیان
برادرانہ محبت قائم ہونی چاہئے، ہماری نظروں میں انسانوں کے درمیان تقسیم
درست نہیں ہے، ہم انسانوں کی خود ساختہ اونچ نیچ کے قائل نہیں ہیں اور ہم
انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے آئیہیں۔‘‘
ملکوں کو فتح کرنا، ریاستوں پر حکمرانی کر نا، دوسروں پر برتری قائم کرنا ،
مال و دولت کے انبار لگانا اور عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنا ان کا مقصد نہ
تھا، مسلمانوں کا مقصد یہ تھا کہ ظلم و ستم کے مارے ہوئے انسانوں کو امن و
سکون اور راحت نصیب ہو بادشاہ وقت کی چوکھٹوں پر جھکی ہوئی جبینوں کو اٹھا
کر وہ اﷲ رب العزت کے سامنے سربسجود کروانا چاہتے تھے، وہ روکھا سوکھا کھا
کر اورپھٹاپرانا پہنکر انسانوں کی خدمت کیا کرتے تھے، دنیا میں انسانیت کا
دارو مداراس پر ہے کہ ہر آدمی دوسرے آدمی کی جان کا پاس و لحاظ رکھے اور ہر
شخص دوسرے شخص کی حفاظت کا جذبہ و خیال رکھے۔ اﷲ تعالی کے ہاں اسی قانون و
نظام کے تحت کسی انسان کاناحق قتل بہت بڑا گناہ ہے اور ایک شخص کا بلاوجہ
قتل پوری انسانیت کا قتل بتایا گیا ہے اور ایک جان کی حفاظت کو پوری
انسانیت کی حفاظت بتایا گیا ہے۔ (سورۃ المائدہ ۔ آیت نمبر ۳۲) خاتم
النبینحضرت محمدؐ کی شفقت اورمحبت و رواداری دوست، دشمن، کافر و مشرک، اور
یہود و نصاری سب کے لئے عام تھی۔ یوں تو شفقت و محبت کی مثالیں بہت ملتی
ہیں مگر دشمنوں پر طاقت و غلبہ کے باوجود رحم و شفقت اور معافی حضرت محمدؐ
کے سوا اور کہیں نہیں ملتی۔ تاریخ کے بہت سے مشہور واقعات میں سے ایک یہ
بھی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ جن کے متعلق حضورؐ نے فرمایا کہ عمر جس
راستے سے گزرتے ہیں اس راستے کو شیطان چھوڑ دیتا ہے، میرے بعداگر کوئی نبی
ہوتا تووہ عمر ہوتے تقریر کر رہے تھے فرمایا لوگوں! میری سنو اور مانو، اسے
سنتے ہی ایک شخص فوراً کھڑا ہوا اور کہنے لگا’’ہم آپ کی بات کیسے مانیں، جو
چادر تقسیم ہوئی تھیں وہ چھوٹی تھیں اس میں کسی طرح آپ کا اتنا لمبا کرتا
نہ تیار ہو سکتا تھا پھر بھی میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ آپ کے جسم پر اسی چادر
کا بنا ہوا کرتا ہے آخر اتنا زیادہ کپڑا کہاں سے آیا؟ جب تک مجھے اس سوال
کا جواب نہ ملے گا میں آپ کی بات نہ سنوں گا اور نہ ہی کہنا مانوں گا حضرت
عمرؓ نے اپنے بیٹے عبداﷲ کی طرف اشارہ کیا وہ اٹھے اور اس شخص کی طرف مخاطب
ہوکر فرمایا تم صحیح کہہ رہے ہو وہ چادر واقعی اس لائق نہ تھی کہ اس میں
اتنا بڑا کرتا بن سکے لیکن میں نے اپنے حصے کی چادر بھی امیر المومنین کو
دے دی تھی جسے ملا کر کے ان کا یہ کرتا تیار ہوا ہے یہ سن کر وہ شخص مطمئن
ہو گیا اور پھر کہا کہ فرمائیے اب آپ جو کہیں گے اسے سنوں گا اور مانوں گا
بھی۔ ایک موقع پرجنگی حالات نے یہ صورت پیدا کر دی کہ مسلمانو ں کو اپنی
پوری طاقت سمیٹ کر محاذ پر لے جانے کی نوبت آگئی، حمص میں حفاظتی محصول
وصولا جا چکا تھا جب حالات ایسے ہو گئے کہ امیر مسلم حمص سے اپنے تمام
سپاہیوں و لشکر کو لے جانے لگا تو اس نے شہر کے باشندوں کو جو کہ عیسائی
مذہب کو ماننے والے تھے بلا کر کہا ہم نے تم سے کچھ رقم اس لئے وصول کی تھی
کہ تمہاری حفاظت کا انتظام کریں لیکن اب ایسے حالات درپیش ہیں کہ ہمارے لئے
تمہاری حفاظت دشوار ہے اس لئے ساری وصول شدہ رقم تمہیں واپس کر رہے ہیں،
حمص کے عیسائی باشندوں کو امیر کے اس جملے اور اقدام نے اتنا متاثر کیا کہ
ان کی زبان سے بے اختیار نکل پڑا کہ خدا وہ دن جلد لائے کہ آپ لوگ پھر
ہمارے شہر میں تشریف لائیں۔ اس قسم کے واقعات تاریخ میں بکثرت موجود ہیں۔
خلفاء راشد ین اور دور اولین کے مسلمانوں کا یہی وہ نقطۂ نظر اور طرز عمل
تھا جس کے باعث وہ جہاں بھی گئے وہاں فرشتہ رحمت سمجھے گئے، ان کی آمد ایک
رحمت سمجھی گئی نہ کہ زحمت، اور ہر مذہب و ملت کے لوگوں نے ان کو ہاتھوں
ہاتھ لے کر ان کا دل کھول کر استقبال کیا۔ اس کے برعکس بادشاہاں ہند اور
امراء کے طرز عمل میں وہ خلوص ،جذبہ اور ایثار و قربانی ویسی نہ تھی جو ایک
خالص داعی الی اﷲ میں ہونی چاہئے تھی ورنہ سات آٹھ صدی تو بہت ہوتی ہے اتنی
مدت میں تو اسلام کی ایسی لازوال عمارت قائم ہو جاتی جو کہ بہ آسانی متزلزل
نہ ہوتی۔اتنی لمبی مدت تک اقتدار اپنے ہاتھ میں رہنے کے باوجود بھی مسلم
دور کا خاتمہ ہوگیا جو کہ صرف اب کچھ عمارتوں کی شکل اور تاریخ کے ابواب
میں درج ہے، اسے دیکھنے اور پڑھنے کے بعد یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ
اس محرومی کا سبب ہماری غفلت، نا اہلی اور بد عملی کے سوا کچھ نہ تھا۔
۱۸۵۷ ء میں پورے طور پر انگریز ہمارے حاکم اور ہم ان کے محکوم بن گئے۔ اب
کیا تھا مسلمانوں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے جانے لگے۔
مسلمان اگر حقیقی طور پر مذہب اسلام کے پیروکار ہوتے، ان کے قول وفعل میں
بھی اسلام کی جھلک اور تصویر ہوتی تو ان کے خلاف ناگواری میں کمی ہوتی اور
جب غیر مسلمین کو ان کے عمل و اقدار سے یہ پتہ چل جاتا کہ مسلمانوں کا وجود
ان کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ ان کے لئے مفید ہی ہے تو پھر ان کی
مخالفت ختم ہو جاتی اور ان کو وہ گلے سے لگانے کو تیار ہو جاتے لیکن ہمارے
معاملات نے ہم کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا، دنیا کے کسی بھی خطے میں ہمارا
کیا مقام ہوگیا ہے یہ کوئی بھی بہ آسانی مشاہدہ کر سکتا ہے۔ اس وقت
ہندوستانی مسلمانوں نام نہا د اقلیت کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جس سے
ہندوستان کی اکثریت کے ایک بہت بڑے طبقے کو اس سے شکایت و ناگواری ہے اور
بہت حد تک مسلمانوں پر اعتماد بھی نہیں ہے۔ خودموجودہ مسلمانوں میں
ناپائیداری افسردگی اور بے چینی کی کیفیت پائی جا رہی ہے، مسلمانوں کے خلاف
جو شکایت، ناگواری اور بے اعتمادی پائی جارہی ہے وہ صرف انھیں تک محدود
نہیں ہے بلکہ اس مذہب سے بھی ان کو اب نفرت ہونے لگی ہے جس کے وہ پیروکار
تو پوری طرح نہیں کہہ سکتے ہاں نام لیوا ضرور کہہ سکتے ہیں۔ نفرت کی ایک
وجہ یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ آج پوری دنیا میں جو ایک خونی اور خوفناک
چہرہ دکھائی دے رہا ہے ان کی شکل اور زبان کو چند شاطروں اور ظالموں نے بہت
ہی شاطرانہ اور عیارانہ طریقے سے داڑھی اور کلمہ سے جوڑ دیا ہے اور اس میں
فی الحال بظاہر وہ کامیاب بھی نظر آرہے ہیں۔
ہندوستانی مسلمانوں کے لئے غنیمت یہ ہے کہ دستور ہند میں کوئی بات مسلمانوں
کے خلاف نہیں ہے اور نہ کوئی قانون مسلمانوں کی راہ میں حائل ہے ہاں یہ بات
قابل توجہ ہے کہ عہدحاضر میں حکومت کے حمایتین یا دیگر تنظیموں کی طرف سے
موجود قانون میں تبدیلی کی بات اکثر و بیشتر چھیڑدی جاتی ہے جس پر نظر
بنائے رکھنا عہد حاضر کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ موجودہ دور میں ان نامناسب
حالات اور باد مخالف سے نمٹنے کے لئے مسلمانوں کو ہمت و استقلال اور بہت ہی
دانشمندی و صبر سے کام لینا پڑے گا۔ تدریجی انحطاط جو ان کا بہت تیزی سے
پیچھا کر رہا ہے کا بہت ہی گہرائی و سچائی سے مطالعہ کرنا پڑے گا اور جوش
سے نہیں بلکہ ہوش سے کام لینا پڑے گا۔
اس سلسلے میں سب سے پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ ان بدلے ہوئے اور نامناسب
حالات میں مسلمانوں کو ایسے رہنماؤں کو تلاش اور تسلیم کرنا چاہئے جو کہ
حالات و نزاکت کو بخوبی سمجھ سکیں، جو تنگ ذہن نہ ہوں، سیرت و اخلاق میں
مضبوط اور بے داغ ہوں، نقطۂ نظر فرقہ وارانہ نہ ہو، اسلام کے مطابق ان کی
زندگی بسر ہو، ساتھ ہی ساتھ تمام مسلمانوں کو اپنے اندر اسلام کی سچی روح
پیدا کرنے کی بھی تڑپ رکھتے ہوں تاکہ وہ ۳۱۳ کی حقیقت کو سمجھ سکیں اور
انسانیت کی خدمت کر سکیں ، ایک بہترین پڑوسی نہ تلاش کر کے بلکہ ایک مخلص
پڑوسی بننے کے خود عادی بنیں، اپنے اخلاق سے غیرمسلمین کے دلوں کو جیتنے کی
کوشش کریں اور ان کو یہ باور کرانے کی بھرپور کوشش کریں کہ اسلام جان لیتا
نہیں بلکہ انسانیت کی فروغ دیتا ہے اور یوں وہ اسلام کے عملا داعی ہوں گے۔
ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ اسلام کی صحیح تعلیمات سے لوگوں کو واقف و
روشناس کرنے کے لئے بیداری کی ایک مہم چلائی جائے تاکہ سب کو اسلام کی سچی
تعلیم و تصویر معلوم ہو سکے، اپنے آپ کو تحمل اور رواد ار بنائیں تاکہ اپنی
بات کہنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی بات سننے و سمجھنے میں آسانی ہو، کسی
کی دل آزاری اور ناگوار تنقیدوں سے سخت پرہیز کیا جائے،کسی کو بھی حقیر و
کمتر نہ سمجھا جائے۔ اس طرح جہد مسلسل سے امید ہے کہ مستقبل میں وہ دن
ضرورآئے گا جب ایک ہی کنویں پر بھڑیا اور بکری دونوں ساتھ پانی پیا کریں
گے، ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اگر قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزاری جائے
تو سب کچھ ممکن ہے۔ انشاء اﷲ |
|