ٹن ٹن ٹن ........
گھڑیال کی آواز ہتھوڑے کی طرح سماعتوں سے ٹکرائی تو فاطمہ نے کسمساتے ہوئے
کروٹ بدل لی اور دوبارہ نیند کی مہربان آغوش میں سمانے کی سعئ لا حاصل کرنے
لگی ۔
مگر " بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی " کے مصداق نرم گرم بستر چھوڑنا ہی
پڑا کیونکہ ننھا، سیماب صفت محمد بیڈ سے اترنے کی کوشش میں دھڑام سے فرش پر
گر کر چوٹ۔ لگوا چکا تھا ۔ اس افتاد پر نہ صرف اس کے ہاتھ پاؤں ہی
پھولےبلکہ پل بھر میں سارے گھر والے بھی اس کے کمرے میں اکٹھے ہوگئے ۔
بھائی، دادی ،پھپھو غرضیکہ ہر ایک نے گود میں لینے کی کوشش کی مگر اس کی
ایک ہی رٹ تھی " ماما ، ماما ..... "
آخر کار فاطمہ نے آگے بڑھ کر پیار سے ساتھ لگایا تو مامتا کی گرمی محسوس
کرتے ہی ننھی جان کو قرار آگیا۔
بظاہر واقعہ تو معمولی سا تھا مگر عقل کے زنداں میں قید ذہن کا برسوں سے
بند دریچہ وا کر گیا کہ کیا بعینہ یہی تعلق میرا اور میرے مالک و پروردگار
کا نہیں ہے ؟ ؟ ؟
لاکھ دوسرے رشتے سہی مگر مصیبت کے وقت جو قربت و اپنائیت بندے اور خالق کے
بیچ ہوتی ہے اسکی نظیر ملنا محال ہے!
جو چین ، قرار اور سکون اس انمول رشتے کا خاصہ ہے کوئ دوسرا اس کا عشر عشیر
بھی نہیں ہوسکتا !
ستر ماؤں سے بھی بڑھ کر شفیق ہونے کا عقدہ ایک ادنی سے واقعے نے یوں حل
کردیا کہ جس کے لیئے دلائل کے انبار بھی ناکافی تھے |