خط کا جواب دینے کا فرض ہونا

 حدیث : خط کا جواب سلام کے جواب کی طرح واجب ہے (کنزالعمال نمبر 29293)

تجزیہ؛۔ اس حدیث سے بہت سے اصول اور نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔

ایک؛۔ حضور اکرم ﷺ نے سلام اور خط کے جواب کو واجب قرار دے کر یہ اصول بتایا ہے کہ تعلقات میں reciprocation کا اصول ضروری ہے۔اس طرح ہر قسم کیcommunication میں جواب دینا واجب ہے۔

اس لئے سلام ہو یا خط، یا ٹیلیفون،یا موبائل یا ایس ایم ایس یا زبانی پیغام، اس کا جواب دینا لاز م ہے۔
مغربی ممالک ان ہدایات پر عمل کرتے ہیں مگر ہم نہیں۔

مغربی ممالک اور پاکستانی رویوں کا موزنہ نیچے دیا گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ صنعتی سوسائیٹی اور زرعی سوسائٹی کی سوچوں کی وجہ سے ہے۔

ہندوستان میں انگریز حکمرانوں کے رویے؛۔ انگریزوں کی حکمرانی کی یہ عادت تھی کہ کسی بھی انگریز افسرکے سامنے کوئی بات آگئی تو اگر وہ اس کے محکمے کی بات نہ بھی ہو تی تو وہ اس کومتعلقہ محکمہ کے افسر کو اطلاع دیناضرور سمجھتا تھا اوردے بھی دیتا تھا تا کہ عوام کی مشکل کو دور کیا جا سکے۔ یہ کبھی ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ کسی انگریز کو کوئی خط لکھے اور اس پر عمل نہ ہو۔ اور اس کا جواب نہ آئے۔ بلکہ پنجاب کے دیہات میں یہ بات مشہو ر تھی کہ چٹے کوکالا کرو۔ یعنی سفید کاغذ پر کالی سیاہی سے سے لکھ کر انگریز کو بھیج دو تو تمہارا کام ضرور ہو جائے گا۔ کوئی ریٹائرڈ آفیسر یا سولجر بھی خط لکھ دے تو اس کا نہ صرف جواب دینا ہوتا تھا بلکہ اگر کام ہو تو کام بھی کر دینا ہوتا تھا۔ کیونکہ حکومت کے تمام افسران کا کام ہی لوگوں کی شکایات دور کرنا تھا۔

انگریزوں کے زمانے کی یہ رسم پاکستان بننے کے بعد بھی کافی سالوں تک چلتی رہی ۔ پھر ہر کام میں سیاسی مداخلت شروع ہو گئی۔ جس کی بنیاد یہ پینڈو سوچ تھی کہ ہر سیاسی لیڈر حکمران ہوتا ہے اور اس کی ہر بات مانی جانی چاہئے۔کیونکہ چوہدراہٹ کا تصور دراصل عقل کل اور فرعون کی شخصیت ہونا ہوتا ہے اور چونکہ اس کا ہر لفظ ہی قانوں ہوتا ہے اس لئے ی ہر ملکی، مذہبی، معاشرتی ہقانون سے بالاتر ہے ۔ ۔جب ہر کام میں سیاسی مداخلت ہونی شروع ہوئی جو کہ سرکاری افسروں کے ذریعے ہی پایہ تکمیل تک پہنچ سکتی تھی تو ان لوگوں نے اپنے غلط کام نکلوانے کے لئے ہر افسر کے دل میں بھی غیرت دلا کر یہ سوچ ڈالی کہ اتنے بڑے افسر ہو کر آپ یہ بھی نہیں کر سکتے اور وہ غیرت میں آکر غلط کام کرنے لگا۔ بدقسمتی سے اس میں یہ ہمت نہ آ سکی تھی کہ یہ کہہ دیتا کہ یہ میری اتھارٹی میں نہیں ہے۔ جبکہ ہر انگریز افسر یہ کہنے میں عار نہیں سمجھتا تھا کہ سوری یہ میری اتھارٹی نہیں ہے۔ یہیں سے عوام کے حقوق کی حق تلفی شروع ہوئی جو اب رواج اور حق بن گیا ہے۔جس میں عوام کی کسی شکایت کے خط کا جواب نہ دینا بھی شامل ہو گیا ہے۔ آپ آج بھی کسی غیر ملکی صدر یا وزیر اعظم کو خط لکھ کر دیکھ لیں کہ جواب آتا ہے یا نہیں۔ضرور جواب آئے گا ۔اب میں چند مثالوں سے بات سمجھاؤں گا۔

پاکستانی مثال؛۔۔ایک واقعہ؛۔ آرمڈ فورسز میں انگریزوں کے زمانے سے یہ رسم بھی چلی آرہی تھی کہ کوئی ریٹائرڈ آفیسر یا سولجر کسی حاضر سروس اٖفسر کو خط لکھ دے تو اس کا نہ صرف جواب دینا ہوتا تھا بلکہ اگراس کا کوئی جائز کام ہو تو کام بھی کر دینا ہوتاتھا۔ کیونکہ حکومت کے تمام افسران کا کام ہی لوگوں کر کے تکلیف یا شکایت دور کرنی ہوتی تھی۔ ویسے بھی چونکہ ان سب نے اکٹھے ہی جنگ لڑنی ہوتی تھی اس لئے ان میں بے مثال spirit de corps یا ایک دوسرے کے لئے قربانی دینے کا جذبہ ہوتا تھا جو مرنے تک قائم رہتا تھا۔ الحمد ﷲ کہ یہ جزبہ کسی حد تک اب بھی قائم ہے۔مگر کم ہو گیا ہے۔اس پر ہمارے موجودہ سیاسی کلچر نے برا اثر دلا ہے اور خود غرضی اور احسان فراموشی بڑھ رہی ہے۔اس مختصر تمہید کے بعد یہ واقعہ بیان کرتا ہوں۔ 1993میں ، میں نے ایک تجویز دینے کیلئے کور کمانڈر، لیفٹیننٹ جنرل، غلام حسین ملک صاحب کو خط لکھا مگر انہوں نے جواب نہ دیا ۔

اتفاقاً ایک ہفتے کے بعد اخبار میں ایک لیٹر آیا جس میں کسی نے کور کمانڈر سے پانی کی کمی کو دور کرنے کی درخواست کی تھی اور اس میں لکھا تھا کہ چونکہ وہ ایک Practicing Muslimہیں( اور جس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ جب وہ انگلینڈ سینڈ ھرسٹ اکیڈمی میں بطور کیڈٹ گئے تھے تو تب بھی نماز پڑھتے رہے تھے) اس لئے یہ ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ لوگوں کی پانی کی کی تکلیف کو دور کریں۔ میں نے اخبار کا ٹی اور اس پر صرف یہ لکھ دیا
a practicing muslim, you owe me a reply ."" Sir if you are , ."".اور ان کو بھیج دیا۔ دوپہر کے قریب ان کے ADCکا فون آیا کہ جنرل صاحب کہہ رہے ہیں کہ آپ کب ان کے ساتھ چائے پی سکتے ہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ جنرل صاحب بڑے آدمی ہیں ان کی بہت زیادہ مصروفیات ہوتی ہیں،اس لئے ان کے پاس میرے لئے جب بھی فارغ وقت ہو تو مجھے بلا لیں، میں وقت نکال لوں گا اور آجاؤں گا۔

دودن کے بعد صبح سویرے کال آئی کہ دس بجے چائے پینے آئیں۔ چائے پر گفتگو ہوئی تو میں نے انہیں جھنڈا چیچی کے تنگ پل کے بارے بتایا کہ وہ چوڑا کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کے نیچے کے Pillarsمیں کم از کم 3,3فٹ دونوں اطراف میں پل کو چوڑا کرنے کی جگہ کی ڈیزائن میں گنجائش رکھی گئی تھی جو نظر آرہی ہے اور جس کو ہم اب استعمال کر سکتے ہیں۔ انہوں نے فورا ایک انجینئر لیفٹننٹ کرنل کو میرے ساتھ بھیجا اور تصدیق چاہی۔ ہم دونوں گئے اور وپس آکر کرنل ساحب نے میری بات کی تصدیق کر دی۔ وہیں پر اس میٹنگ کو سرکاری بنا کر minutesلکھے گئے جو کہ جنرل عبدالو حید کا کڑصاحب، جو اس وقت آرمی چیف تھے کو بجھوائے دئے گئے۔ تین ماہ بعد پل بننا شروع ہو گیا۔ الحمد اﷲ کہ ایک خط کا جواب نہ دینے پر،اور میرے یاد دلانے پر کہ ایک مسلمان کے لئے دوسرے مسلمان کے خط کا جواب دینا واجب بنتا ہے نے جنرل صاحب نے فوری طور پر اسلامی اور فوجی رد عمل ظاہر کیا اور مجھے بلایا اور یوں یہ کام کروادیا۔ اﷲ کے کام واقعی نرالے ہوتے ہیں اور کیسے ہو جاتے ہیں اس کی یہ عمدہ مثال ہے۔ جنرل ملک غلام حسین صاحب کی یہ عظمت کردار کا ثبوت بھی تھا۔اﷲ تعالی ان کو خوش رکھے ۔ میراان کی سوچوں کی بڑائی کا اعتراف کرنا بھی مجھ پر قرض تھا جو میں نے ادا کر دیا ہے۔

دوسرا تجربہ؛۔ میں نے اڈیالہ روڈ پر ایک میڈیکل سٹور سے دوائی خریدی تو اس کے ڈبے پر قیمت کاٹ کر نئی قیمت لکھی ہوئی تھی۔ میں نے ڈبے کو کاٹ کر اس پر امریکہ کی ایک کمپنی کا نام اوراس کے لکھے پتہ پرکراچی میں ان کے آفس بھیج دیا اور صرف یہ لکھا کہ پاکستان آکر آپ بھی بے ایمانی پر اتر آئے ہیں۔تو تیسرے دن کورئیر کے ذریعے جواب آگیا۔ ساتھ ہی حکومت پاکستان کی نئی قیمت بھی لکھی تھی اور یہ تفصیل بھی لکھی تھی کہ ہمارے پاس دو چوائس تھیں کہ تمام دوایاں مارکیٹ سے واپس لے کر نئے ڈبوں میں نئی قیمت لکھ کر پھر سپلائی کریں یا کیمسٹ کو نئی قیمت لکھنے کی اجازت دیں، تو ہم نے لوگوں کی بھلائی کے لئے دوسری چوائس استعمال کی ہے۔غلط تاثر دینے کے لئے معذرت خواہ ہیں۔ دستخط ایک امریکی جنرل مینیجر کے تھے۔

اس کے برعکس میں نے ایک مشہور کمنی کی واشنگ مشین خریدی اور دو ماہ بعد اس میں نقص نکل آیا تو میں نے کمپنی کو لکھا تو کوئی جواب نہ آیا۔کال کیا تو وعدہ کر کے کوئی نہ آیا تو مجھے اس ڈیلر سے شکایت کرنی پڑی جس سے یہ مشین خریدی تھی۔اس نے چند دن بعد کمپنی کا آدمی بھیجا۔اس کمپنی کا جنرل مینیجر پاکستانی تھا۔ یہ دو مثالیں وضح کرتی ہیں کہ ہمیں گوروں کے تجارتی اخلاق کی نقل کرنی ہوگی اگر ہم نے دنیا میں تجارت کرنی ہے۔ہمیں اپنی تکلیف اور پیسے بچانے کی عادت چھوڑنی پڑے گی اور خریداروں کا وقت،پیسے اور تکلیف بچانی ہوگی، تبھی خریداروں پر اعتبار قائم ہو گا جو کہ بزنس کی روح اور جان ہے۔

ٹیلیفون کے استعمال کی اخلاقیات بھی خط یا پیغام سے مختلف نہیں۔ پاکستان بننے کے پہلے بیس سال میں دفتروں میں کال بیک کی پریکٹس تھی اگر سیکریٹری کو بتایا جائے کہ کال بیک کرا دینا۔ ہمیشہ افسر کے واپس آتے سیکریٹری سب سے پہلے کالز کا بتاتا تھا ۔ آج کل پی اے بتائے بھی تو صرف اپنی پسند یا واقفیت کے افسر کو کال بیک کی جاتی ہے ورنہ عمومی رویہ یہ ہے کہ زیادہ کام یا تکلیف ہوئی تو خود ہی کال کر لے گا۔ یہ رویے بھی تکلیف سے بچنے اور کال کی قیمت بچانے کے لئے ہوتے ہیں کیونکہ افسر اور ماتحت زیادہ کالز تو ذاتی ہوتی ہیں ۔اپنے ساری دوستیاں ،رشتہ داریاں، تو سرکاری ٹیلیفون پر ہی نبھائے جاتے ہیں اسی طرح ذاتی کام بھی کئے جاتے ہیں۔ بلکہ بعض ڈھیٹ اور کمینے ریٹائرڈ لوگ بھی ٹرنک کال کے لئے ملنے کے بہانے دفتر سے آکر کر لیتے ہیں۔ اسی طرح سی ایل آئی کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ فون اٹھانا ہے یا نہیں۔
Imtiaz Ali
About the Author: Imtiaz Ali Read More Articles by Imtiaz Ali: 37 Articles with 39319 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.