پانی کی فراہمی حکومت اور عوام دونوں کی مشترکہ ذمہ داری
(Shams Tabrez Qasmi, India)
پانی اﷲ تبارک وتعالی کی سب سے عظیم نعمت
ہے ،پانی کے بغیر نہ انسان زندہ رہ سکتاہے ،نہ چرند وپرند اپنی حیات
برقراررکھ سکتے ہیں اور نہ ہی نباتات کا وجود باقی رہ سکتاہے ،کائنات کی سب
سے اہم ضرورت پانی ہے اور یہی سب سے طاقتور شی بھی ہے ، پانی زندگی کو
بچاتی ہے تو کبھی اپنے جلال میں آکر اتنقام بھی لے لیتی ہے اور کسی کی بھی
اس کے سامنے نہیں چلتی ہے ، آگ ،ہوا ،پانی اور مٹی انسان سمیت بہت سی
مخلوقات کی خمیر کا حصہ ہیں ،ان چاروں کی اہمیت ،عظمت اور طاقت بے مثال ہیں
لیکن ان سب میں بھی پانی کو فوقیت حاصل ہے ۔پانی کی اسی اہمیت کے پیش نظر
قدرت نے اسے سہل الحصول بنایاہے ، زمین کے نیچے سے بھی پانی کی رسائی
ہوجاتی ہے تو اوپر سے بادل انسانی ضروریات کی تکمیل کیلئے برسنا شروع
ہوجاتاہے ،کہیں پہاڑوں سے پانی کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں تو کہیں سمندر ،تالاب،کنواں
اور ندیوں کے توسط پانی تک رسائی ہوتی ہے ، زمانے کی ترقی کے ساتھ اب باب
پائپ ،ٹیوب ویل،بورڈنگ اور نل کے ذرائع سے ہم پانی حاصل کرلیتے ہیں ۔
دنیا کی ایک چوتھائی صرف خشکی کا حصہ ہے بقیہ پورا حصہ پانی ہے اور اسی
پانی کے سہارے کائنات کا مکمل نظام چل رہاہے ،دنیا کے کسی ملک میں پانی کی
بہتات ہے تو کہیں شدید قلت ہے لیکن پانی کی فراہمی ہر جگہ اس کی ضرورت کے
مطابق کی جاتی ہے ،کسی بھی ملک کی اقتصادی ،صنعتی ،زراعتی اورتوانائی ترقی
میں پانی کا کردار سب سے اہم اور بنیادی درجے کا ہوتاہے ، پانی صرف پیاس کی
شدت نہیں بجھاتی ہے بلکہ زراعت اور کاشتکاری کا مکمل انحصار پانی پر ہوتاہے
،درختوں ، پودوں اور پھولوں کو ہریالی بھی اسی پانی سے ملتی ہے ،بجلی اور
توانائی کی پیدوار بھی پانی سے ہی ہوتی ہے ،الیکٹرانک اشیاء کا نظام بھی
پانی کے سہارے چلتاہے ۔
کثیر الجہات ضروریات پر مبنی پانی کی ہمارے ملک ہندوستان میں ان دنوں سخت
قلت ہے ،بیشتر علاقے خشک سالی کے شکار ہیں۔مرکزی حکومت کی رپوٹ کے مطابق
ملک کی پچیس فیصد آبادی خشک سالی سے دوچار ہے، یعنی تینتیس کروڑ آبادی کو
پینے کے پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے،ملک کے 675 میں سے 256 اضلاع خشک
سالی سے متاثر ہیں، دوسری طرف آبی وسائل کی وزارت کا کہنا ہے کہ ملک کے 91
اہم ڈیموں میں اس وقت ستتر فیصد تک پانی کم ہوگیا ہے۔
خشک سالی اور پانی کی قلت کوئی نئی بات نہیں ہے،بارش کا نہ ہونا ،ندی ،تالاب
اور کنواں کا خشک ہوجانا موقع بہ موقع ہوتا رہتاہے ، ان سب کا اثر براہ
راست فصلوں پر پڑتاہے اور زراعت وکاشتکاری اس سے بے پناہ متاثر ہوتی ہے
لیکن پینے کے پانی کا بحران ہندوستان کی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ ہوا ہے
،جس سے ملک کے اکثر علاقے متاثر ہیں اور انہیں پینے کا پانی میسر نہیں ہے
مہاراشٹر کے کچھ علاقوں میں پیاس کی شدت نے کئی لوگوں سے ان کی زندگی چھین
لی ہے جس میں بارہ سالہ یوگیتا اشوک ڈیسائی نامی پانچویں درجہ کی وہ طالبہ
بھی شامل ہے جو واٹر پمپ سے چار مرتبہ پانی اپنے گھر پہنچا چکی تھی لیکن
پانچویں مرتبہ پانی لے جاتے وقت بے ہوش ہوکر گر پڑی اور چل بسی۔
خشک سالی سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ مہاراشٹر میں لوگ بوند بوند پانی
کیلئے وہ تمام علاقے کا چکر لگارہے ہیں ،تالاب ،کنواں اور ندی تک میں انہیں
پینے کیلئے پانی نہیں مل رہاہے ،کئی ایسی ویڈیوز ٹی وی چیلنوں کے ذرائع سے
آئی ہیں جس میں یہ دیکھا جارہاہے کہ گہرے اور خطرناک کنویں میں لوگ پانی
لینے جارہے ہیں لیکن وہاں بھی اسے چلو بھر پانی نہیں مل پاتاہے اورمایوس
ہوکر لوٹ جاتے ہیں ۔
پانی کے اس شدید بحران اور قحط کیلئے ہم حکومت کو ذمہ دار تو نہیں
ٹھہراسکتے ہیں لیکن یہ ضرور کہ سکتے ہیں کہ پانی فراہم کرنا ، عوام کیلئے
اسے سہل الحصول بنانا اور بلاضرورت ضائع ہونے سے بچانا ارباب اقتدار کی
اولین ذمہ داری ہے،دنیا کے ان ملکوں میں جب ہمہ وقت پانی دستیا ب ہوتا ہے
جن کے پاس اپنا ڈیم نہیں ہے تو پھر ہندوستان کے پاس پانی کا ذخیر ہ اور
مکمل اسباب ہونے کے باوجود ایسا کیوں ہورہاہے ؟
یہ بھی کسی المیہ سے کم نہیں کہ روشن انڈیا اور ترقی پذیر ہونے کا دعوی
کرنے ولا ہندوستا ن دیگر بنیادی سہولیات کے ساتھ صاف پانی کی فراہمی میں
بھی سب سے پیچھے ہے اور یہاں ایسے افراد کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ
پائی جاتی ہے، جنہیں پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے، پانی کے زیر
زمین ذخائر انتہائی تیزی سے کم ہو رہے ہیں اور دریاؤں کا پانی آلودہ ہوتا
جا رہا ہے۔
بین الاقوامی ادارے انٹرنیشنل چیرٹی واٹر ایڈ کے اعداد و شمار کے مطابق
تقریبا76 ملین ہندوستانی باشندے یا تو پانی خرید کر پینے پر مجبور ہیں یا
پھر ایسا پانی استعمال کر رہے ہیں جو گٹروں کے گندے پانی یا زہریلے کیمیائی
مادوں سے آلودہ ہوتا ہے، دنیا بھر میں 650 ملین افراد کو پینے کا صاف پانی
میسر نہیں ہے لیکن افریقہ اور چین کے مقابلے میں ہندوستان میں اس حوالے سے
صورت حال سب سے زیادہ خراب اور تشویشناک ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے
مطابق جن ہندوستانیوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، ان میں سے ہر ایک
اوسطاروزانہ تیرہ گیلن پانی خریدنے کے لیے تقریباپچاس روپے خرچ کر رہا ہے
اور یہ رقم اس کی روزانہ آمدنی کا تقریبابیس فیصد بنتی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں پانی کے وسائل کا خراب انتظام اس مسئلے کی
سب سے بڑی وجہ ہے، صاف پانی کی کمی کی وجہ سے لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور
ہیں، جس کا براہ راست نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سالانہ بے شمار لوگ بیمار ہو
رہے ہیں، دنیا میں سالانہ تین لاکھ پندرہ ہزار بچے اس کی وجہ سے انتقال کر
جاتے ہیں جن میں سے ایک لاکھ چالیس ہزار ہلاکتیں صرف ہندوستان میں ہوتی
ہیں۔واشنگٹن میں قائم ایک ریسرچ گروپ ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ کے تحقیقی
جائزے کے مطابق ہندوستان میں 2030 تک پانی کی مطلوبہ طلب کے مقابلے میں
قومی سپلائی میں 50فیصد کی کمی کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔ان تمام رپورٹس میں
مشترکہ طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو آئندہ
پندرہ برسوں میں ہندوستان اپنی صنعتی، شہری اور زرعی ضروریات کا صرف نصف
حصہ ہی پورا کر سکے گا۔
پانی اﷲ رب العزت کی سب سے بڑی اور عظیم نعمت ہے ،کائنات کے مکمل نظام کا
اس پر انحصار ہے ،پانی کا متبادل دنیا کی کوئی بھی شی اور کوئی بھی مشروبات
نہیں بن سکتی ہے،پانی کی حفاظت ،اس کی فراہمی اور بآسانی عوام تک اس کی
رسائی عوام ،حکومت اور دنیاکے ہر فرد کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔ |
|