ننھے منے فرعون
(Nazar Hussain, Talagung)
موٹر سائیکل سوار کو رکنے کا اشارہ کیا گیا
وہ رک تو گیا لیکن موٹر سائیکل سوار کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ
روکنے والے نے اُس کو روک کر سنگین غلطی کر دی ہے۔کاغذات دیکھاؤ کے احکامات
ملے تو من ہی من میں اُبلنے والا غصہ چھلک کر باہر نکل آیا ۔اپنا علاقہ ،وڈیروں
سے رشتہ داری کا زعم،سیاسی پردھان منتریوں سے تعلقات کا نشہ ہوتا ہی ایسے
ہے ۔سو ہاتھ اُٹھ گیا۔منہ سے اول فول ایسے تواتر سے نکلے کہ سننے والے بھی
دانتوں میں انگلیاں دبانے پر مجبور ہو گئے ۔عزت نفس مجروح ہونے پر پولیس
اہلکار بھی ڈٹ گیا۔تھانہ میں لے تو گیا لیکن اس دوران سیاسی پر دھان منتری
کا فون وہاں پہنچ چکا تھا۔تھانے کا وڈیرہ (ایس ایچ او)سیاسی پریشر پرہتھیار
ڈال چکا تھا ۔ اپنے ماتحت کی بے عزتی پر چھوڑ مٹی ڈالو کا راگ الاپنے لگا ۔تھانہ
میں موٹر سائیکل سوار کے عزیز و رشتہ دار بھی پہنچ چکے تھے ۔ایک عجیب "قیامت"
کا منظر تھا۔ہمارے بیٹے کو پولیس اہلکار نے ناکے پر روکا تو روکا
کیوں۔گھبرائے ہوئے دوسرے اہلکار صفائیاں پیش کرنے لگے ۔ لیکن متاثرہ پولیس
اہلکار کشتیاں جلانے کا فیصلہ کر چکا تھا ۔معاملہ ضلع پولیس سربراہ کے پاس
پہنچ گیا ۔شایدکبھی وہ بھی عام سطح کا پولیس ملازم رہ چکا تھا ۔سو تمام تر
دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے ہتھے سے اکھڑے ہوئے موٹر سائیکل سوار ،اُس کے وہ
عزیزو رشتہ دار جنہوں نے تھانے میں اودھم مچائے رکھا کیخلاف نہ صرف مقدمہ
درج کرنے کے احکامات جاری کئے بلکہ تھانہ کے ایس ایچ او کو اپنے ماتحت کی
شنوائی نہ کرنے پر معطل کر دیا ۔یہ صرف ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے چند
روز قبل بھی تلہ گنگ میں ایسا ہی ایک اس سے ملتا جلتا واقعہ ہوا تھا۔کچھ
عرصہ قبل میرا ایک عزیز جو کوچ چلاتا تھا نے دن کو فون کیا کہ یہ ٹریفک
پولیس اہلکار سے بات کریں ۔اس سے پہلے میں پوچھتا کہ ہوا کیا ہے اُس نے
پولیس اہلکار کو فون تھما دیا ۔اب وہ اہلکار میرے اچھے دوستوں میں سے ایک
تھا ۔غصے میں کانپتی آواز میں بتایا کہ ہم نے اس کو ناکے پر روکا ۔بجائے
رکنے کے اس نے گاڑی جیسے ہم پر چڑھاتے ہوئے بھگا لی۔اس وقت ہم نے کئی دوسرے
موٹر سائیکل سواروں اور گاڑی والوں کو روکا ہوا تھا ۔سب کے سامنے ہماری بے
عزتی ہوئی ۔بہرحال شہر کے اندر ہم نے اس کو پکڑ لیا اب اس کو تھانے لے جا
رہے ہیں تو یہ آپ کا حوالہ دینے لگا ۔ٹریفک سٹاف کی ساری بات سن کر میں نے
کہا کہ بے شک اس کو نہ صرف جرمانہ کریں بلکہ گاڑی بند کرنی پڑے تو وہ بھی
کریں ۔کسی کی عزت نفس پر حملہ کسی طور قابل قبول نہیں ۔اﷲ بھلا کرے اُس
پولیس اہلکار کا میری بات سنتے ہی جیسے آگ پر پانی ڈال دیا جائے ۔کہنے لگا
بس آپ کا یہی کہنا میرے لئے بہت ہے اور اُس کو چھوڑ دیا ۔ یہ رویے ایسے
کیوں ہیں ۔ہر ایک میں یہ" میں "کیوں آگئی ۔کیوں دوسروں کو اپنے سے کمتر
سمجھا جا رہا ہے ۔معمولی سی بات کو ہتک سمجھ کر دوسروں کی ماں بہن ایک کرنے
والوں کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی کہ قبرستان بھرے پڑے ہیں جو خود کو نا
گزیر سمجھتے تھے ۔ناکہ پر روکنا کونسا اتنا بڑا جرم بن جاتا ہے کہ تھانہ پر
ہی حملہ کر دیا جائے ۔کیا یہ غرور اور تکبر نہیں ہے ؟ میرے آقاﷺ نے تو
ٹخنوں سے نیچے لٹکنے والی شلوار کو بھی تکبر کی نشانی قرار دیا جس کی
بھیانک سزا بھی بتلا دی گئی ۔اور یہ رویہ اور دوسروں کی عزت نفس پر ہاتھ
ڈالناتوپتہ نہیں کتنا بڑا "جرم"ٹھہرے۔
حضرت عمر بن شعیبؓ سے روایت ہے کہ رسول پاکﷺ نے فرمایا؛متکبر قیامت میں چیو
نٹیوں کے مثل ہو نگے۔ان کو اہل محشر روندتے ہو گے آگ ان کو چاروں طرف سے
گھیرے ہو گی۔ جہنم کے ایک خاص قید خانے میں ان کو عذاب دیا جائے گا جس کا
نام بوس ہے۔ ان پر نہایت تیز آگ جلائی جائے گی اور ان کو دو زخمیوں کے
زخموں سے نکلا ہوا لہو دیا جائے گا۔ قران پاک میں ارشاد ہے کہ ؛جب ہم نے
فرشتوں کو سجدہ کرنے کا کہا توسب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا۔
بولا بھلا میں ایسے شخص کو سجدہ کروں جس کو تونے مٹی سے پیدا کیا ہے۔
حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ ؛جب حضرت نوحؑ کشتی میں سوار ہوئے تو شیطان بھی
اس میں سوار ہوا۔ نوحؑ فرمانے لگے کہ تو کون ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں
ابلیس ہوں آپ ؑنے دریافت کیا کہ کیا چاہتے ہو۔ ابلیس کہنے لگا اپنے رب سے
میرے حق میں توبہ مانگئے۔ اﷲ پاک نے حضرت نوح ؑکے پاس وحی بھیجی کہ ہاں
توبہ ایک شرط پر قبول ہے کہ اگر یہ آدم کی قبر کو سجدہ کرے۔ جب ابلیس سے
ایسا کرنے کو کہا تو لعین کہنے لگا کہ میں نے آدم کی زندگی میں اسے سجدہ
نہیں کیا تھا۔ بھلا اب میں مرنے پر سجدہ کیسے کر سکتا ہوں ۔
میں میں کرنے والے یہ چھوٹے چھوٹے متکبرین اور ننھے منے فرعون دنیا میں ہی
تو سزا بھگت لیتے ہیں لیکن آخرت میں اِن کا کیا ہو گا ۔اِن کا حشر کن کے
ساتھ ہو گا ۔سوچتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔اﷲ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں
عاجزی اور انکساری اور ہر ایک کو خود سے اچھا سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
امین
|
|