سیری نالا بان سے لیا گیا اقتباس یاداں

گندم کا موسم ہو تو یہ کهیت کشمیری پرچم کی عکاسی کرتے ہیں.

میری سیری پورے کشمیر کی نمائندگی کرتی ہے. ★
سیری سے ہی تو مساوات کا درس ملتا ہے.

پیر تهپلہ اور کٹیا کی طرف سے آنے والے کو یہی گلی اهلا" سهلا" کہتی ہے.

بابا جی کو وادی بناہ کا معمر شخص کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا.

وہ تقریباً دنیا کے پہلے بیوپاری ہونگے جو مقروض کی استطاعت کو مدنظر رکھتے تھے.

مستری جی کہتے کڑمنجهی دیکھ لی ہے نا پهر آ کر وہ بهی دیکھ لینا.

☆ سیری کی مٹی کی خوشبو یوں یادوں کے جهروکوں میں رچی بسی ہے کہ سانس بهی لی جائے تو نادانستہ طور پر ربط سیری سے جڑ جاتا ہے. نالا بان سے لے کر سیری بازار بلکہ پیر تهپلہ تک کے کهیت یوں دیکهتے ہیں جیسے کسی محل یا قلعہ کی سیڑھیاں بنائی گئی ہوں. یہ زمینی خدوخال قدرتی طور پر ایسے ہیں کہ عقل انسانی دهنگ رہ جاتی ہے. گندم کا موسم ہو تو یہ کهیت بلکل کشمیری پرچم کی عکاسی کرتے ہیں بہت ساری ہریالی میں سرسوں کے پیلے رنگ کے پھول اور ابیض رنگ لائینوں کے لیے بان کا پانی مل کر مکمل ایک پرچم بنا دیتے ہیں.
☆ میری سیری کو پورے کشمیر کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہے. اسی لیے تو اس کے کهیت ہی اٹھا کر کسی دانا نے پرچم پہ سجا دیے ہیں . میں سیری کے چپے چپے پہ قربان کیوں نہ ہو جاوں جس کے چار حروف ہی اس سرائے کی مانند ہیں جو ماں کی طرح سب کو اپنی گود میں سمو لیتی ہے .
☆ سیری کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ یہ دوسرے دیہات کی طرح کسی ایک خاندان یا کمبے قبیلے سے منسوب نہیں بلکہ سب خاندانوں کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے ایک " سیری " بنتی ہے،اور مساوات کا درس اسی سیری سے ہی ملتا ہے.
☆ کٹیا یا پیر تهپلہ کی طرف سے سیری محلہ میں آنے والے کو پہلے مستریوں کی گلی اهلا" سهلا" کہتی ہے . لیکن اس گلی میں جانے سے پہلے کٹیا اور پیر تهپلہ کے بارے میں جان لینا بهی ضروری ہے. سیری بان سے جو کھیتوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے وہ بلترتیب بڑهتا بڑهتا تهپلہ آ کر ختم ہو جاتا ہے اسی طرح چوکی کہوٹہ والی کسی جسے پرلی کسی(بلکہ آج کل اسے صوفی مہندی ہوراں نی کسی) بهی کہا جاتا ہے وہاں سے کھیتوں کا ایک سلسلہ بلکل اسی ترتیب سے بڑهتا ہوا تهپلہ آ کر ختم ہو جاتا ہے اسی طرح مشرق سے پی آر او فضل کریم یا باوے سیدی کی کسی سے آتے ہوئے بهی کهیتوں کا یہی سلسلہ قائم و دائم ریتا ہے اب اگر کهڈوڑے یا گیائیں والوں کی کسی سے دیکها جائے تو ہو بہو وہی نقشہ دیکھنے کو ملتا ہے اور یوں چار چوفیرے سے ساری سیری سے اونچی اس ٹیکری کو تهپلہ کہا جاتا ہے. اگر سیری کی سطح سمندر سے بلندی 2570 فٹ ہے تو تهپلہ 2575 یا 2580 فٹ بلند ہو گا .
☆ اب یہ اونچی ٹیکری کے اوپر کچھ میدانی جگہ مقامی یا سادہ زبان میں تهپلہ ہو گئی لیکن پیر کیسے ہوئی اس کے اس پہلو پر نظر ڈالتے ہوئے نظروں کا سلسلہ ایک درویش بابا سے جا ملتا ہے جن کا نام اہل علاقہ نے پیر سخی سرور بادشاہ فرض کیا ہوا ہے . ان کی مرقد اسی ٹیکری پر واقع ہے اس لیے مقامی باشندوں نے دونوں کی نسبت ملاتے ہوئے پیر تهپلہ کہنا شروع کر دیا.
☆ پیر تهپلہ کی ایک کہانی چوہدری محمد حسین آف مانکشاہ یوں بیان کرتے ہیں کہ انیس سو سنتالیس سے پہلے( جہاں یہ پرانی ڈسپنسری ہوتی تهی ) یہاں ایک تهانہ تها، تهانے کا تھانیدار بڑا نیک آدمی تها تهانیداری کے ساتھ ساتھ نماز روزے کا بڑا پابند تها . ایک رات وہ تهانے سے ملحقہ رہائشی کمرے میں سویا ہوا تها اور سوتے میں اس کے پاوں اس ٹیکری کی طرف تهے. وہ خواب میں دیکھتا ہے کہ ایک بزرگ آتے ہیں اور اس کو ایسا کرنے سے منع کرتے ہیں وہ گبهرا کر اٹهتا ہے اور دائیں بائیں دیکهتا ہے لیکن کچھ نظر نہیں آتا البتہ اسے بازگشت سنائی دیتی ہے تو وہ خواب کا سارا متعن سمجھ جاتا ہے. فوراً اٹهتا ہے چارپائی کو دوسری سمت بچها کر سونے کی کوشش کرتا ہے لیکن ناکام رہتا ہے بس اب کروٹیں تهیں اور اس کی منتشر سوچیں، سوچتے سوچتے اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہاں کسی بزرگ ہستی کے وجود کا ہونا لازم ہے. صبح کی نماز کے بعد اس نے دقیق نظروں سے جگہ کا معائنہ کیا اور ایک قبر کو پایا بالآخر اس نے قبر کو مذید نمایاں کیا. اب اہل قبر کو پیر کہا جانے لگا اور تهپلہ کو انہی بزرگوں کی نسبت سے پیر تهپلہ کہنا شروع کر دیا .
☆ اسی تھانیدار کے متعلق ہی وہ یہ بتاتے ہیں کہ سیری کی موجودہ جامع مسجد کے ساتھ پہلی بار اسی نے لفظ جامع کا اضافہ کیا اور باقاعدہ نماز جمعہ کا اہتمام کیا. بابا چوہدری محمد حسین ماہ و سال کا تعین کرنے سے قاصر ہیں البتہ وہ غدر سے دو سال پہلے یا بعد اور مہاراجہ کے دور کا حوالہ دیتے ہوئے بتاتے ہیں. یہ پهر بهی اچهے ہیں کہ کسی مشہور حالات و واقعات کا حوالہ تو دے دیتے ہیں میرا ایک ایسے بزرگ سے بھی واسطہ پڑا تها جو فصلوں کا حوالہ دیتے تھے مثلاً میں نے پوچها کہ آپ کی شادی کس سن میں ہوئی تھی، کہنے لگے سن شن تو یاد نہیں البتہ اتنا یاد ہے کہ اس وقت مکهئ کا موسم تها اور تازہ تازہ کهوماں (چھلیاں) لغیاں سن. بہت کہا بابا کوئی اور حوالہ کہنے لگے پهواڑے مہاڑا خیال اے اڑی چکے سن.
بابا محمد حسین تو ماشاءاللہ ایک مصدقہ حوالہ دیتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ تاریخ نہیں بتا سکتے لیکن جو بھی ریفرنس دیتے ہیں سنتالیس ہی کی مناسبت سے یہ کہتے ہوئے دیتے ہیں کہ غدر سے دو تین سال پہلے یا اتنے ہی سال بعد یہ ہوا تها.
بابا جی محمد حسین ماشاءاللہ وادی بناہ بالخصوص سیری کے سب سے معمر شخص ہیں اور اس پر کمال یہ کہ آپ ابهی تک بےمثال حافظہ کے مالک ہیں. باتوں کے دوران ہونٹوں پہ تبسم اور چہرے پر شفقت بزرگی کو مزید رونق بخشتی ہے . سانولے سی رنگت کے صاف ستھرے بابا آنکھوں سے بهلا کچھ کم ہی دیکھتا ہے لیکن پهر بهی سرمہ ہر وقت لگائے رہتے ہیں، داڑھی مبارک رنگ حنا سے ہمہ وقت رنگی ہوئی اور اصلی گہانی کے تیل سے چپڑی ہوئی چٹے برف کپڑے تہبند اور کڑتے کی شکل میں لباس، سر پر ٹهیک چودھریوں والی پگ، مہرون کلر کهوسہ جس کی نوک ہلکی سی مڑی ہوئی قد و قامت کو متوازن رکهنے کے لیے ہاتھ میں عصا پکڑے رہنا، گفتگو کے لیے ماشاءاللہ نہایت ہی عمدگی سے لبوں اور لفظوں کا واہ کرنا ہاتھ کے اشارے سے آغاز کلام کرنا کهانسی کهانسنے کے لیے مخاطب سے رخ بدلنا اور کهانسنے کے بعد رومال سے داڑھی مونچھوں کی صفائی کا یقینی بنانا بابا جی کی شخصیت کو چار چاند لگاتا ہے. بابا جی کی انہی دانا پہلو کے پیشِ نظر مصنف نے پیر تهپلہ کی کہانی کو مصدقہ جانا اور قارئینِ سیری نالا بان کی نظر کیا.★
پیر تهپلہ کی شمالاً سمت تقریباً 800 گز دور جگہ کو کٹیا کہا جاتا ہے. " آج اگر ہم کٹیا سنتے ہیں تو ایک عجیب سا احساس ہوتا ہے اس کا مطلب جاننے کے لیے ڈکشنری کا سہارا لینا پڑتا ہے لیکن کیا کہنے ان سادہ سے لوگوں کے جهنوں نے زبان اور ہونٹوں کا ایک ساتھ لاحقہ بناتے ہوئے کٹیا کہہ دیا . اس دور کے سادهے اور کم تعلیم یافتہ لوگوں کا یہ عالم تھا جن کے کہے ہوئے ایک ایک شبد کے لیے ہمیں آج کبهی تو ریختہ کا سہارا لینا پڑتا ہے اور کبهی پورا پورا دن انسائیکلوپیڈیا کی ورق گردانی میں گزرنا پڑ جاتا ہے" کٹیا یوں تو اس دور سے بهی پہلے کی ہے جب ہندو اپنے گھوڑے یہاں باندھا کرتے تهے اور یہاں سے ہی وہ گهوڑوں پر بیٹھ کر علاقے کی گشت کرتے تھے. سنتالیس کے غدر کے بعد ممکن تها کہ یہ نام کہیں غائب ہو جاتا لیکن اس کو نئے سرے سے اجاگر کرنے کا سہرا یہاں کے ملک برادران کے سر سجتا ہے. یہاں ملک برادران کے تین چار گهر تهے جو بس ایک ایک کمرے پر مشتمل تهے، ان گهروں کی کچی دیواریں ہوتی تھی جن کو خواتین اہل خانہ نے چٹی مٹی سے لپائی کی ہوئی تهی. دیواروں میں بنے طاق جن میں اکثر دودھ دہی کا ڈیبا ہوتا تھا اگر یہ نہیں تو دو تین کنڈولے( میٹهے پیٹهے) ضرور ہوتے تھے. اور کبھی کبھار انوں بھی انہی میں رکهے ملتے تهے. مکان کچے سہی لیکن صاف ستھرے ہونے کے باعث رہگیروں کی توجہ کا محور بنتے تھے لیکن طول و عرض سے کمی کے باعث انہی مکانوں کو کٹیا کہا جانے لگا اور مکینوں کو کٹیا والے ملک. یہ ملک بردران انیس سو سینتالیس کے غدر کے بعد یہاں آئے اور اپنا روزگار کپڑے کی پهیری سے شروع کیا . یہ افغانیوں کی طرح بڑی بڑی کپڑے کی گانٹھیں اٹھا کر نگری نگری گهومتے اور لوگوں کو رنگ رنگ کا کپڑا مہیا کرتے. اگر ان سے کوئی پوچھتا کہ آپ کہاں سے آتے ہیں تو جواب میں یہ کٹیا ہی بولتے یوں کٹیا ان کی پهیری اور بولائی سے لوگوں کے کانوں تک کی رسائی حاصل کرتی رہی، لیکن کٹیا کو مذید شہرت تب ہوئی جب 1977ء میں جمروز نامی چودھری یہاں آ کر سکونت پذیر ہوئے . ان کی وجہ شہرت بیوپار تها یعنی بهنیسوں کی خرید و فروخت ان کا ذریعہ معاش تھا، بیوپاری تو ملک بردران بهی تهے لیکن یہ لوگوں کے گھروں تک جا کر فروخت کرتے تھے اور لوگوں کو ان کے ٹهے ٹهکانے کا پتہ نہ تها اور چوہدری جمروز کا آنا جانا منڈیوں اور شہروں تک تها اگر کسی کو بهنیس لینی ہوتی تو وہ بھی ان سے منڈی میں یا پھر گهر کهونڈے پر آ کر لیتا تھا . اور کچھ بیوپاری ایک دوسرے سے پوچھتے پوچهتے کٹیا بھی پہنچ آتے تھے، یوں ان بیوپاری لوگوں کی وجہ سے کٹیا زبان زد عام ہوتی گئی .
چودھری جمروز چونکہ اپنے شفاف کاروبار کی وجہ سے کافی شہرت حاصل کر چکے تهے اس لیے چمبر کینیڈ بہملا اور چوکی سماہنی سے لوگ آتے اور آپ سے خرید و فروخت کرتے . آپ نے جو مکان بنایا وہ تو ایک دو کمروں کا ہی تها لیکن بانڈ جو بنوائی تو پورے پندرہ بیس گز کی اس لیے بعض اوقات چوہدری صدیق اور منگا ملنگ بهی اپنے ڈنگر یہی باندھ دیتے تھے . چوہدری جمروز بھی چمبر کی طرف سے آ کر سیری کٹیا مقیم ہوئے تهے لیکن سیری والے چودھریوں سے شناسائی اور بهنیس گالہ والے چودھری محمد لال کی دوستی ان کو راتوں رات پرانے مکینوں کی طرح ہر کسی سے علیک سلیک کرا بیهٹی تهی. پهر ان کا اپنا طرز بیوپار بهی شناسائی اور شہرت کا سبب بنا . یہ شاید دنیا کے پہلے بیوپاری تهے جو کسی کو دهوکہ اور گال نہیں دیتے تهے . شاطر لوگ ان سے ایک ایک بهنیس لے کر پانچ کے مالک بن جاتے لیکن ان سے کیے ہوئے وعدے پر ان کو رقم نہ لٹاتے تو پهر بهی یہ صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چهوڑتے آگر ان کا کوئی ساتھی انہیں کہتا بهی کہ وہ یہاں ہی(اسی منڈی میں) ہے تو کہتے یرا شاید مجبور ہووئے . بس آپ ایسے بیوپاری تهے جو ادهار دے کر بهی اس بات کا خیال رکهتے تهے کہ مقروض لٹانے کی کتنی استطاعت رکهتا ہے. آپ کا یہی اسلوب آپ کی وجہ شہرت بنتا رہا اور لوگ دور دور سے آ کر آپ سے لین دین کرتے رہے. آپ اپنے وقت کے کامیاب ترین بیوپاریوں میں سے تهے اور اس طرح آپ سیری کٹیا کے مشہور اور معروف بیوپاری ٹهہرے. آپ درمیانے قد و قامت کے مالک اور نہایت ہی انکساری طبع رکهنے والے شخص تهے عفو و درگزر کا پہلو آپ میں اعلیٰ درجے کا پایا جاتا تها.ریاکاری سے بچنے کے لیے کبهی دوستوں کی محفل میں یوں نہ کہتے کہ مجهے نماز پڑهنی ہے بس کسی کام کا عذر پیش کرتے ہوئے کہتے میں ابهی آتا ہوں . مسجد میں بهی آخری کونے یا صف کے ایک سرے کا انتخاب کرتے . کبهی بهی کوئی ایسی بات نہ کرتے جس سے اختلاف پیدا ہو بلکہ بہت سے اختلافات کو اپنے اخلاقیات سے ختم کرنے کی کوشش کرتے، فی سبیل اللہ بہت کچھ کرتے لیکن اس حدیث مبارکہ کے مصداق کے ایک ہاتھ کی دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو. شب و روز کے مشاہدے سے ثابت ہوتا ہے کہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو مسجد میں ایک ٹوپی رکھ کر اتراتے رہتے ہیں لیکن آپ مکمل مسجد بنوا کر بهی گوشہ نشین رہتے کہ کہیں میرا نام نہ آئے. آپ انتہائی منکسرالمزاج انسان تھے محفل کے آداب کو یوں ملحوظ خاطر رکھتے کے بڑے بڑے عالم بهی نہیں رکھ پاتے آپ نے کبهی کسی چهوٹے با بڑے کو محفل میں ٹوکا نہیں کسی کے جهوٹ کو بهی ایسے سن لیتے کے اس کو خبر بهی نہ ہونے دیتے کہ میں تمہارے جهوٹ کو سمجھتا ہوں . اگر خود کوئی بات کرنا چاہتے تو ضرب المثل سے کرتے اس کی ایک مثال یوں ہے کہ مصنف نے ان سے ایک بار پوچها کہ جہاں چوہدری فاضل کی کوٹھی ہے اس جگہ کو کیا کہتے ہیں؟ آپ نے آنکھوں کی بهنووں (جو بہت دراز تهیں) کو انگوٹھے اور کلمے والی انگلی سے سیدهے کرتے ہوئے غور سے دیکھتے ہوئے کہا، ہم جب پرانے گهر (مراد وہ گهر جو انڈین کشمیر میں رہ گیا تھا) میں ہوا کرتے تھے تو ہمارے پڑوس سے ایک لڑکی کی شادی اس کشمیر میں ہوئی جہاں آج ہم بستے ہیں، مکلوائے(شادی کے بعد کا دلہن کا پہلی بار والدین کے گهر آنا) کے لیے میکہ آئی جب واپس جانے لگی تو اس کا باپ اور محلے کے ایک دو لوگ بهی الوداع کہنے کے لیے ساتھ آئے رستے میں چڑاٹهی پڑی ہوئی تهی لڑکی نے چڑاٹهی دیکهی تو یوں خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اٹهائی بلکل اس بچی کی طرح جس نے پہلی بار کوئی کهلونا دیکها ہو، اس نے چڑاٹهی کو گهما گهما کر دیکهتے ہوئے باپ سے پوچھا پہاپا اے کہہ آ، اتنا کہہ کر وہ چپ ہو گے. مصنف نے پهر پوچها اس کے باپ نے کیا کہا؟ کہنے لگے پهر اس نے یہی کہا تھا یہ چڑاٹهی ہے جو تم نہیں جانتی کیوں کہ تیرے جانے کے بعد یہ درخت اگے ہیں پھر یہ چڑاٹهیاں لگی ہیں . (انہوں نے اپنے اس جواب سے مصنف کو سمجها دیا کہ تو پیدا کوئی اوکاڑہ چهاونی میں نہیں ہوا جو جگہ کا نام پوچهتا ہے، ہاں کوٹھی والے کا نام پوچهتا تو کچھ ہرج نہ تهی). اتنا کہہ کر ہلکی سی مسکراہٹ لی اور دوبارہ حقے کا کش لینے لگے. ( اعلیٰ ظرفی سمجھ لیں کہ وہ مثال دینے کے بعد بھی یہ نہیں کہتے تهے کے یہ تمہارے لیے ہے).
آپ اپنی سادگی ہی کی طرح سادہ سی پگڑی باندهتے جس سے کبھی تکبر کا گماں نہ ہوتا بڑی متوازی چال سے چلتے درمیانے قد ہونے کے باوجود بھی گردن میں خم رکهتے اور نگاہ ہمیشہ نیچی رکهتے . کبھی زیادہ ہی سوچوں میں محو ہوتے تو دونوں ہاتھوں کو یوں پیچھے باندهتے کے دونوں کے درمیان قمیض کا پیچهلا دامن لپیٹ لیتے نگاہ اور جهکا لیتے، لوگ آپ کو اس انداز میں دیکھ کر سمجھ جاتے تھے کہ آج موصوف گہری سوچ میں ہیں . آپ کے یہی منفرد انداز آپ کو دوسروں پر برتری بخشتا رہا اور آپ نے بہت کم وقت میں وہ شہرت حاصل کر لی جو برسوں کے مکینوں کو حاصل نہ ہوئی.
کٹیا بہت عرصہ اپنے اس نام سے اور چوہدری جمروز کٹیا سے مشہور رہے لیکن یہ بات معدوم تب ہوئی جب مغلائی خاندان کے مہاجروں نے یہاں کی سکونت اختیار کر لی. کٹیا ان کی آمد کی وجہ سے پہلے مہاجر محلہ اور پهر مہاجر کالونی بن گئی . اب سرکاری دستاویزات میں بھی کٹیا کو مہاجر کالونی ہی لکھا جانے لگا تو نئی پوچ یہ تجسس بهرا نام نہ سن پائی. یوں وہ کٹیا جو ملک برادران اور چوہدری جمروز کی سکونت سے معروف ہوئی تھی رفتہ رفتہ مہاجر کالونی میں ضم ہوتی گئی.

مستریوں کی گلی میں داخل ہونے سے پہلے ایک کچی اور چھوٹی سی دکان ہوتی تهی اس دکان میں مستری نذر محمد اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لایا کرتے تھے. آپ لکڑی کی مصنوعات بنانے کے ماہر تهے . اسی لئے اکثر اوقات لوگوں کا ایک ہجوم سا لگا رہتا تھا . آپ کو نہ صرف لکڑی پر فن آزمانا آتا تھا بلکہ عوام الناس کو گرویدہ بنانا بهی آتا تها . آپ کے دور میں جو آلات استمال کیے جاتے تھے وہ آج کے دور سے بہت مختلف تهے کیوں کہ اس وقت بجلی نہ ہونے کے باعث ہر چیز کو کاریگر اپنی خود ساختہ مشینری سے چلاتا تها . آپ نے لکڑی کے دو چھوٹے چھوٹے پول زمین میں گاڑهے ہوئے تھے جن کے درمیان کهاٹ کے پائے جکڑ کر ان میں ڈیزائنگ کرتے تھے یہ کام کرنے کے لیے آپ ہاتھ اور پاؤں کو برابر استعمال میں لاتے. بلکہ کئی بار دیکھا کہ پائے کو گهمانے کے لیے دهاگہ کا ایک سرا دانتوں سے پکڑتے اور کبهی رنگ بهرنے کے لیے بهی ایسا ہی عمل کرتے . آپ لکڑی کی مدهانی جب بناتے تو چکا نما گهوپروں کے اوپر یوں ہاتھ پهیرتے جیسے عورتیں مدهانی سے مکهن اتارتی ہیں. کڑهگا دو قسم کا بناتے ایک تو تقریباً یو (u) قسم کا ہوتا اور دوسرا او (o) شکل کا، او شکل والے کے کچھ نرخ زیادہ بهی ہوتے وہ اس لیے کہ اس پر دو تین رنگوں کی لائینیں بهی لگی ہوتی تهی. ایک دن آپ ایک مربع شکل چوکهاٹ سی بنا کر اس کے داہنے کونے پر لکڑی کا پول لگا کر اس پر آئینہ نصب کر رہے تھے کہ کسی نے پوچها آج کیا بنانے کے ارادے ہیں کہنے لگے کڑمنجهی بنا رہا ہوں وہ بھی کوئی نکتہ چین تها کہنے لگا اگر اتنی بڑی کڑمنجهی ہے تو کڑمنجها کیا ہو گا آپ بهی بزلہ سنجی میں ماہر تهے کہنے لگے یہ آج دیکھ لی ہے نا پھر کبھی آنا وہ بهی دکها دونگا . آپ جس طرح لکڑ سازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے اسی طرح قصہ یوسف زلیخا پڑھنے میں بھی لاثانی تهے .
☆ یہ ان وقتوں کی بات ہے جب لوگوں میں اخوت پائی جاتی تھی ایک دوسرے کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھا جاتا تھا کسی کی مشکل گھڑی کو گزارنا باعثِ ثواب سمجھا جاتا تھا . انہی دنوں میں جہاں کہیں بھی ماتم ہوتی اور میت کو رات بهر رکهنا پڑتا تو مستری نذر محمد قصہ یوسف زلیخا اٹهاتے اور وہی پہنچ جاتے . میت کے پاس بیٹھ کر پہلے زور زور سے کلمہ پڑهتے اور نصف رات میں جا کر کتاب پڑهتے . اللہ تعالیٰ نے آپ کو آواز بهی سریلی دی ہوئی تهی اور رات کے سمے میں آپ کی آواز کو اور ارتعاش ملتا . آپ قصہ یوسف زلیخا (جسے مقامی زبان میں کتاب کہتے) صلوٰۃ تہجد تک پڑهتے رہتے یوں رات جو غم و الم کا پہاڑ بنی ہوئی تھی وہ بھی کٹ جاتی اور سامعین کو یوسف علیہ السلام کے حالات و واقعات کا علم بهی ہو جاتا.
آپ انتہائی ہنس مکھ مزاج آدمی تهے ایک تو دکان ہی سہہ رستے پر تهی محلے اور بیرون محلہ کے لوگوں کا اکثر آنا جانا لگا رہتا ہر کسی سے سلام دعا آپ کا خاصا تها اسی رستے سے محلے داروں کا ڈسپنسری جانا بھی ہوتا تها، اس طرح آپ کو تقریباً ہر گهر کی خیر خبر کا پتہ چلتا رہتا تها .
آپ پیشے کے لحاظ سے ایسے کام سے وابستہ تهے کے دور سے دیکهنے والا گرد آلود ہو جاتا لیکن آپ لباس کے معاملے میں اتنے ہی نفیس تهے جتنے عادت کے کیا مجال جو کپڑوں پر لکڑی کے تراشے بهی لگنے دیتے . وویل کا کڑتا اور لٹهے کا تہبند سر پر ہلکی سی پگڑی ، مکانوں کے پچھواڑے میں ہونے کی وجہ سے دکان کا درجہ حرارت اکثر ایک سا رہتا یہی وجہ تھی کہ لباس میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آتی تھی لیکن پهر بھی ایک کوٹ دیوار کے ساتھ لگی ہک کے ساتھ لٹکا رہتا تها . اگر عصر کے بعد کہیں جانا ہوتا تو پهر کوٹ پہن لیتے . آپ کا موضوع سخن ہر عمر کے لوگوں کے لئے الگ الگ ہوتا اسی لئے اکثر سکول کے بچے بھی آپ کی محفل کرتے . آپ ان سے چهوٹی چهوٹی یعنی ان ہی کی عمر کے مطابق باتیں کرتے کبهی پوچهتے آج مرغا کون کون بنا ہے لیکن بننے والا کب بتاتا پهر اس کا کوئی ساتھی بتا دیتا . آپ ہنستے ہوئے کہتے یرا اسنے وچ شرمانے آلی کیڑی گل اے . کبھی آپ اپنی طالب علمی کے زمانے کی باتیں سناتے پهر کہتے سردی ہو یا گرمی پٹکار ٹهنڈا ہی لغنا اے . بچے پوچهتے وہ کیسے ، پهر آپ پوری ایکٹنگ کر بتاتے کہ جب ماسٹر مارتے ہیں تو ہم یوں کر کے ہاتھ دونوں ٹانگوں میں چهپاتے ہیں . پهر بات ادھوری چھوڑ کر پوچھتے پتہ ہے کیوں؟ بچوں کی طرف سے جواب نہ پا کر خود بتاتے وہ اس لیے کہ ہاتھ گرم ہو جائیں کیونکہ جو پٹکار لگا تها اس نے کافی ٹهنڈا کر دیا تها . آپ کی یہ بات سن کر سکولیے پهر کب چپ ہوتے بلکہ گهر تک ان گهڑاکے بند نہ ہوتے.
☆ آپ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے سردی ہو یا گرمی آپ کا لوٹا کهڑکنے کی صدا آتی رہتی تهی .
کچی گلیوں اور کچے آنگنوں کے درمیان بس اک آدهی سی دیوار ہی تو ہوتی تھی بس ساون میں تھوڑی سی اونچی ہو جاتی تھی کیونکہ ڈور ڈنگر کا چهوڑا ہوا گهاس جو ان کے اوپر رکها جاتا تھا. لیکن گلی سے گذرنے والے کو صحن میں کیا اندر پڑی چیزیں بهی نظر آتی تھیں.اس لیے اکثر راہگذر آسانی سے دیکھ لیتے تهے کے مستری جی کیا کر رہے ہیں. مستری جی کا صحن دو حصوں پر مشتمل تها اس میں وقفے وقفے سے پتهر لگا کر گلی سے اندر جانے تک کا رستہ بنایا ہوا تها . انہی پتهروں میں سے کسی دو کا آپ وضو کے لیے چناو کرتے ایک پر لوٹا تو دوسرے پر خود بیٹهتے . سلور کے لوٹے کو جب پانی ڈالنے کے بعد چهوڑتے تو ٹهک سے لوٹا واپس پتهر سے ٹکراتا تو آس پاس کے گهروں کو پتہ چل جاتا مستری جی وضو فرما رہے ہیں جو فرق لوٹے کی ٹهک سے رہ جاتا اسے آپ ناک سنیکنے یا کنهگہار کنکهارنے سے پورا کر دیتے .
گلیاں پکی ہونے کی سکیم آئی تو آغاز اسی گلی سے ہوا اور یہ گلی سب سے پہلے پکی ہو گئی . ماحول بهی بدل رہا تها اس لیے وہ دیواریں جو صرف اس نشانی کے طور پر تهی کہ اس کے دائیں بائیں فلاں فلاں کا گهر ہے وہ قد آوروں ہونے لگی اور یوں صحن اور صحن والے اوجل ہوتے گے .اب کوئی زور سے بولتا تو تب پتہ چلتا کہ فلاں بول رہا ہے یا پهر ڈیوڑھی کا دروازہ کھلا رہنے سے مستری جی کی کوئی جهلک نصیب ہو جاتی.
درختوں کے پتے زردی مائل ہو رہے تھے شاید خزاں آنے کو تهی جس کا پتہ پتوں کا یہ رنگ دے رہا تها کبهی کبهی جهکڑ بهی آ جاتا تها جس سے اکثر گیٹ نما دروازے کهل جاتے تهے . مستری جی کا گیٹ آج عصر سے کهلا تها لوگوں کی آمد و رفت بتا رہی تهی کہ یہ باب بے وجہ ہی واہ نہیں ہوا. بوڑهیاں ایک دوسری سے سر گوشی میں پوچھ رہی تهیں مڑے کوئی پتہ نیواں لغا ہووئے ، ایک نے کہا مڑے پیشی توں بعد تے کسے خیر خبر دتی نئیں اللہ خیر کرے ساہ تے کہروں ہی چکے وے لغنے سن . وقت سرخاب کے پر لگائے اڑتا جا رہا تھا مغرب ہوئی عشاء ہو گئی وقت سے پہلے ہی وضو کر کے تیار بیٹھنے والے آج نہ تو آذان کے کلمات سنتے ہوئے انگوٹھے چوم رہے تهے نہ لوٹا اٹهائے کهنکار رہے تھے بس سینے سے اوپر نیچے ہوتی داڑھی اور قمیض سانسوں کی رفتار کا پتہ دے رہی تھیں پهر بهی ڈاکٹر اسٹتهو سکوپ سینے پر پهیر کر گهڑی کے سیکنڈوں سے موازنہ کر رہے تھے.
اللہ جانے بڈھیاں کہاں سے وائی فائی کا پاسورڈ حاصل کیے بغیر گوگل سرچ کر لیتی ہیں کہ جو خبر مردوں کو ابهی نہ ملی تھی وہ بوڑهیاں ایک دوسری کی کانا پوسی سے آدهے محلے میں پہنچا چکی تهی . رات ساڑھے گیارہ یا بارہ کا ٹائم تها جب ڈاکٹر ایک دوسرے کو دیکهتے ہوئے اسٹتهو سکوپ کٹ رول کرتے ہوئے بکس میں ڈال چکے تھے نرسنگ ایک دوسرے کو کهٹ نیڑے کرنے کا کہہ رہے تھے لیگل ذرائع ابلاغ سے جب خبر گهر پہنچی تو اہل خانہ نے رونا پیٹنا شروع کیا تو چارپائی پر دو ہم عمروں کے ساتھ بیٹھے بےجی شیخنی کہہ رہے تھے اویں مارنے ہن ڈاکٹر ادهی رات بهاوئ شوڑی نے دم تے کفتاں ویلے نا نکلے آ سی.
رات بارہ بجے سے لے کر دن گیارے بجے تک کا وقت مستری جی نے عزیز و اقارب کے درمیان گزارا ، آج رات یوں ہی کٹی جا رہی تهی کوئی کتاب خواں نہیں تها کوئی مشتاق کو غم یعقوب سنانے والا تھا نہ ہی زلیخا کے امیر مصر سے منت ترلے کی کوئی وجہ بتا رہا تھا ......... بس رونے والوں کے علاوہ کوئی دو تین بوڑهیاں اس تهم (ستون) کا سہارا لیے بیٹهی تهیں جس کی ایک طرف مستری جی کا بعد عصر پہننے والا کوٹ اور پتلا سا صافحہ لٹک رہا تها .......!

اسی گلی میں مستری نواب دین اور مستری ستر دین دونوں بھائی بهی رہتے تھے لیکن ان میں سے کوئی بهی لکڑ سازی کا کام نہیں کرتا تها پتہ چلتا تها تینوں کا کوئی معاہدہ ججوٹ کندو تها جس کے تحت یہ سارا نظام چل رہا تها مستری نواب دین تعمیراتی کاموں میں مشغول تھے تو مستری ستردین لوہے کے اوزار بنانے میں مصروف تهے پہلے پہل جب میاں عبدل جی کا مکان بن رہا تھا تو اس وقت یہ دونوں بهائی مکان بنا رہے تهے لیکن وہ مکان ابھی زیر تعمیر ہی تها کے مستری ستردین( ان کو اکثر مستری سترو کہا جاتا تھا) ویٹو کر گے اور اپنا الگ کام شروع کر دیا . وہ کہتے تھے بٹے تے ہر کوئی لائی کینا اے مزا تاں اے جے مہارے مقابلے وچ کوئی دراٹی بنائی شوڑے. واقعی وہ اپنے کام کے ماسٹر تهے درانتی پهال ہو یا کلہاڑی اور تیشہ وغیرہ ان کے بنائے ہوئے نہ صرف سیری تک شہرت رکھتے تهے بلکہ میلہ بیساکھی میں لوگ بڑی شوق سے خریدتے تھے.ان کے ہاتھ پل بهر لوہے کو ایسی مہارت سے موڑ مراڑ کر کچھ نہ کچھ بنا دیتے تهے. راہ چلتے لوگ بهی کچھ دیر کے لیے ہتھوڑے کے ساتھ اے ایں کی گونجتی آواز سننے کے لئے کچھ دیر کے لیے رک جاتے تھے. پل بهر میں آپ ایک سیدهے سے لوہے کو چار دن کے چاند کی طرح خم دے کر درانتی بنا دیتے تھے آپ کی شتابی حرکات دیکھ کر دیکھنے والے دهنگ رہ جاتے . کوئلوں کی آنچ تیز کرنے کے لیے ایلومینیم کا راڈ استعمال کرتے تھے جو بیچ سے خالی ہوتا تھا آپ اسے مونہہ میں رکھ کر پھونکتے تهے . ایک دن ایک لڑکے نے پوچها آپ اسے کیا کہتے ہیں، بولے کسے ! جس سے آپ پهونک لگاتے کہنے لگے تمہارے خیال میں اس کا نام کیا ہونا چاہیے؟ وہ کہنے لگا پهونکنا . کہنے لگے شاوا ایس بلکل ایہا ناں اے. آپ جس میں تیشہ یا کلہاڑا گرم کر کے دهار بناتے تهے اس کی آنچ تیز کرنے کے لیے خود ساختہ سی ایک مشین لگائی ہوئی تهی یہ مشین کچھ اس ساخت کی تهی کہ اس کے ایک سرے پر سائیکل کا پہیہ لگا ہوا تها اور اس کا پیڈل ایک ڈنڈے سے بنایا ہوا تھا جسے ہتهی کہتے تھے دوسری طرف بھی ایک پہیہ تها لیکن اس کی بانسبت بہت چھوٹا تها دونوں کے درمیان ایک پٹہ سا لگا تها اور بهٹی کے ایک سوراخ میں پهونکنی سی لگی تهی یہ دونوں پہیے گهمانے سے تیز رفتار ہوا پهونکنی سے نکلتی تھی . ایک دن باوئے گل محمد کے پوترے ٹہلو نے اسے یوں ہی گما دیا مستری جی نے ایک بار غصے سے دیکها اور پھر کہا میغی لوک آخنے ہن مستری سترو تے میں کڈی شوڑنا آں بندے کی سوتروں.
آپ واقعی ذرا تلخی والے تهے شاید آتش کو مہمیز کرنے والی پهونکنی کا اثر تها. آپ کسی طرح سے بهی نہیں پہچانے جاتے تھے کہ آپ مستری نواب دین جی کے بهائی ہیں کیونکہ دونوں کی عادات مزاج میں کوسوں کا فرق تها آپ جتنے جلد باز تھے آپ کے بهائی اتنے ہی ٹهنڈے مزاج کے تهے وہ دو پالیاں دیوار کی لگاتے ہوئے کہیں ایک بار بات کرتے تهے. دونوں کے رنگ روپ ، نین نقش اور جسامت میں بہت فرق تها . تاہم ہم آپ کو کهرے مزاج کے آمریت پسند اور مستری نواب دین جی کو جمہوری نظم و ضبط کے تحت مصلحت پسند کہہ سکتے ہیں.
دونوں بهائی نیک صالح اور مہمان نواز بندے تهے . دنیا کے ہزاروں رنگ دیکهے اور آخر سب کچھ بے رنگ پا کر اللہ حوالے ہو گے لیکن آپنی یادیں باقی چھوڑ گے.
اب مستریوں کی گلی تو ویسی ہی ہے لیکن نہ تو کڑمنجهیاں بنتی ہیں نہ ہی پهونکنے کی پهوں پهوں ہوتی ہے نہ ہی مستری نواب دین جی کی خلوص بهری آواز میں اب کوئی کہنے والا ہے..... بہنے نو ( بیٹهتے نہیں).

سیری کی یہ گلی دو تین حصوں میں بٹ جاتی ہے لیکن یادیں تو پهر یادیں ہیں نا،،،، یہ تو گهوم پهر کر بان کے بهنور کی طرح پهر کسی گلی میں لا کر چھوڑ دیتی ہیں.☆☆☆☆
Gulzaib Anjum
About the Author: Gulzaib Anjum Read More Articles by Gulzaib Anjum: 61 Articles with 56005 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.