اشتہارات نفس پرسوار

قدیم زمانے میں اپنی اشتہاری مہم کی طرف متوجہ کرنے کیلئے فرد ایک چاندی کی تھالی سر پر باندھ لیتے تھے اور ایک پیٹ پر اوردونوں ہاتھوں میں بھی اُس ہی طرح کی تھالیاں پکڑ کر بازار میں بندھی ہوئی تھالیوں پر کچھ اس فن سے مارتے تھے کہ اُن سے نکلنے والی آواز سے۔۔۔۔۔ خاص طور پر ہمارے ملک کے کرکٹ کے شوقین جنکے مطابق کسی بھی خاص شارٹ،آؤٹ،کیچ کے اگلے ہی لمحے اُسکا ایکشن رِپلے دیکھنے سے پہلے اُنھیں اشتہارات دیکھنے پڑتے ہیں اور سارا ہی مزہ خراب ہو جا تا ہے۔

سوشل میڈیا جسکو بھی بخشا نہیں جا رہا

کوئی بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ صدیوں پہلے بھی اشیاء بیچنے کیلئے کوئی نہ کوئی فنکارانہ طریقہ ضرور اختیار کیا جاتا رہا ہے جسکی وجہ سے کاروباری طبقہ مقابلے کی فضا پیدا کر کے اپنی اشیاء کی طرف گاہگ کو راغب کر لیتا ہو۔

قدیم زمانے میں اپنی اشتہاری مہم کی طرف متوجہ کرنے کیلئے فرد ایک چاندی کی تھالی سر پر باندھ لیتے تھے اور ایک پیٹ پر اوردونوں ہاتھوں میں بھی اُس ہی طرح کی تھالیاں پکڑ کر بازار میں بندھی ہوئی تھالیوں پر کچھ اس فن سے مارتے تھے کہ اُن سے نکلنے والی آواز سے راستے پر چلنے والے اُنکی طرف متوجہ ضرورہوتے تھے۔

آوازیں لگا کر دوسرے سے سستا مال بیچنا بھی ایک ایسا اشتہار بازی طریقہ ہے جو صدیوں سے لیکر آج تک جاری ہے۔بڑے تختوں پر معیاری مال کا لکھ کر یا تعارفی قیمت آویزاں کر کے گاہگ کو اپنی طرف متوجہ کرنا اشتہار بازی کی پہلی سیڑھی رہی ہے۔ پھر جب لاؤڈاسپیکر ایجاد ہوا تواُس کا استعمال جدید دُنیا میں اشتہار بازی کا پہلا قدم ثا بت ہوا۔

گزشتہ دو صدیوں سے دُنیا بھر میں آبادی کے اضافے و صنعتی انقلاب نے اشتہار بازی کیلئے اتنے ذرائع مہیا کر دیئے ہیں کہ اخبارات ورسائل سے اگلا قدم ریڈیو ،پھر سینما سکرین،بِل بورڈ اور پھر ٹیلی ویژن سے ہوتے ہوئے آج سوشل میڈیا بھی انکے لیئے کم پڑ رہا ہے۔

بہرحال اس سے کوئی انکار نہیں کرتا کہ اس شعبے نے جدید دُنیا میں جسطرح ترقی کی ہے اُسکی وجہ سے فروخت کا ر و خریدار کے درمیان ایک رابطہ قائم ہوا ہے اور عوام تک تیز ترین خبر پہنچانے کیلئے جو اشتہاری ایجنسیاں و ادارے کام کر رہے ہیں اُنکی ایک بڑی آمدنی کا ذریعہ وہ اشتہارات ہی ہیں جو شائع اور نشر کرنے پر حاصل ہو تی ہے۔جس سے کوئی اختلاف نہیں۔

لہذا اشتہارات دینے والے، اشتہاری ایجنسیاں اور شائع و نشر کرنے والے اداروں کی اہمیت کو انتہائی ادب سے ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے یہ اہم سوال سوچنے کے لائق ہے کہ اشتہارات کو کتنی جگہ ملنی چاہیئے ؟ کیو نکہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ اخبارات کے اندر کے صفحات کے ساتھ صفحہِ اول پر بھی چھٹی والے دِن اتنا بڑا اشتہار ہو تا ہے کہ اخبار پڑھنے والے خبر ڈھونڈتے ہوئے کہتے ہیں کہ مقصد کیا تھا اخبار کا اور کیا معلومات حاصل ہو رہی ہیں۔بلکہ بعض دفعہ تو قارئین کے پسندیدہ صفحے پر بھی کسی ادارے کا اتنا بڑا اشتہار شائع کر دیا جاتا ہے کہ قارئین دل برداشتہ ہو کر کہتے ہیں کہ آج تو اخبار پر پیسے ہی ضائع کیئے ہیں۔
ٹی وی ناظرین کی تفریح کا وہ ذریعہ ہے جس لطف اندوز ہو نے کیلئے وہ اپنے مخصوص پسندیدہ پروگرام کیلئے ہر صورت وقت نکال کر دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔خصوصی طور پر فلمیں،ڈرامے اور کھیل مثلاً کرکٹ، فُٹ بال،ہاکی و ریسلنگ وغیرہ۔لیکن اُن پروگراموں کے دوران بھی اشتہارات کی کچھ ایسی بھر مار ہو تی ہے کہ یہی سمجھ نہیں آتا کہ اشتہار میں پروگرام ہے یا پروگرام میں اشتہار۔

اب لیجئے سوشل میڈیا جسکو بھی بخشا نہیں جا رہا ہے۔ بلکہ مناسب کے ساتھ نامناسب اشتہارات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ساتھ میں لکھا ہوا ہو تا ہے اگر یہ متعلقہ نہیں تو بند کرکروا لیں۔بلکہ بعض ویب سائٹ پر تو اتنے اشتہارات ڈال دیئے جاتے ہیں کہ وہ سائٹ کھلنے میں اچھا بھلا وقت لیتی ہیں اور استعمال کرنے والا کسی دوسری سائٹ پر چلا جاتا ہے۔

اِ ن حالات میں اب تو قارئین و ناظرین بمعہ سوشل میڈیا کے متوالے یہ کہے بغیر نہیں رہ رہے ہیں کہ ہمیں اشتہارات پر کوئی اعتراض نہیں لیکن اُنکی پسند میں انکا کتنا حصہ ہو نا چاہیئے اس کا خیال ضرور رکھنا چاہیئے ۔ورنہ اَدب کے ساتھ یہ تنقیدی پہلو ضرور سامنے آتا ہے کہ اشتہارات کو اُن کے نفس پر سوار کر دیا گیا ہے جو اپنی پسند و خواہش کے دوران اشتہارات کو بھی برداشت کرتے ہیں۔ خاص طور پر ہمارے ملک کے کرکٹ کے شوقین جنکے مطابق کسی بھی خاص شارٹ،آؤٹ،کیچ کے اگلے ہی لمحے اُسکا ایکشن رِپلے دیکھنے سے پہلے اُنھیں اشتہارات دیکھنے پڑتے ہیں اور سارا ہی مزہ خراب ہو جا تا ہے۔
Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 205 Articles with 341615 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More