انسانی حقوق - ذلتوں کے مارے لوگ

انسانی حقوق کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ انتہائی تاریک اور شرمناک ہے۔ بلا لخصوص عورتوں بچوں اور بے سہار ا لوگوں کے حوالے سے یہ ہمارے مجموعی رویے کی منہ بولتی تصویر ہے۔مزید براں ان کے مسائل کے حل کے لئے یونین کونسل سے لے کر ضلعی سطح تک جو حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے وہ انتہائی جانبدارانہ ظالمانہ اور قابل مذمت ہے۔ یہ حقیقت روز رو شن کی طرح عیاں ہے کہ ظلعی حکومتیں جن کے پاس اربوں روپے کے فنڈز موجود ہیں اور ظلعی نظام کو چلانے کے لیے ان کے قبضہ قدرت میں ایک وسعی و عریض فوج بھی موجود ہے نے کبھی بھی عورتوں بچوں اور کمزور لوگوں کے مفادات یا ان کی قانونی و اخلاقی امداد کے لیے کوئی چارہ جوئی نہیں کی۔حالانکہ یہ حکومتیں انہی لوگون کے ٓاینی و قانونی مفاادات کے تحفظ کے لیے معرض وجود میں لائی گئی ہیں اور یہ انہی کی آعینی وقانونی ذمہ داری بھی ہے ۔

اگر مختاراں مائی ،انصر،اور سونیا ناز اور ماسٹر اوویس اور نتاشا کو ظلعی سطح پر انصاف مل گیا ہوتا تو یقینآ پاکستان کی یوں جگ ہنسائی نہ ہوتی اور امریکا و یورپ کے اخبارات میں پاکستان کے خلاف انسانی حقوق کی برملا پامالیوں کے سکینڈلز نہ چھپتے ۔

سچ کیا ہے

انسانی حقوق کے حوالے سے پچھلی ایک دہائی پر ھم اگر ایک نطر ڈالیں تو شاید ھمارا شعور ساتھ دینے سے انکار کر دے اور ھماری دماغی حالت بھی قدرے درست نہ رہے لہذا چند ایک شرمناک واقعات کا ذکر ہی کافی ھے جو ھماری اجتماعی بے حسی اور سرکاری سطح پر قانون کی حکمرانی کی بے بسی کی منہ بولتی تصویر ہے۔

ان محروم لوگوں کے ساتھ کیا کیا مظالم ہوے ان کی تفصیل میں جانے کے لیے تو اخبارات کے وولیمزز درکار ہوں گے تاھم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اخبارات اور دوسرے میڈیا نے اپنی تمام ممکنہ کوششیں کیں کہ ان مظلوم لوگون کو انصاف مسیر آ سکے۔ لیکن چونکہ انصاف کی فراہمی میڈیا کی ذمہ داری نہیں بنتی لہذا دیکھنا یہ ھے کہ ریاستی مشینری نے ان مظلوم لوگوں کو کس قدر جلد از جلد اور سستا انساف فراہم کیا۔

کراچی کی (ن) کو ریپ کرنے کے بعد جلا دیا گیا جو بعد ازان زخمون کی تاب نہ لاتے ہوے ہسپتال میں دم توڑ گہیٔ۔ حرا اور سسی کی لاشیں تھانہ گڈاپ کے باھر پائی گیٔن پولیس نے ان کے ماں باپ ھی کو مورد الزام ٹھرایا۔سکندر قاید اعظم کے پرنواسے کو جمشید کواٹرز پولیس نے اغوا کیا اور تشدد کر کے ھلاک کر دیا ۔ ۴ا سالہ ماسٹر اویس کو پولیس نے اغوا کیا بعد ازاں ریپ کیا ، اوویس نے بعد ازں خود کشی کر لی ۔ ۱۴ سالہ زبیر کو گجرات سے اغوا کیا گیا اور دبئی اوونٹ ریس کے لیے سمگل کیا گیا ، مختاراں مای کو خود ساختہ پنچائیت نے بے آ برو کیا،اٹک کے نواز نامی شخص کو تھانہ ایف ۸ میں تشدد کر کے قتل کر دیا گیا ، داکٹر شازیہ کو ریپ کیا گیا اور بعد ازاں کاری کا الزم دے کر ملک بدر کر دیا گیا ،سیالکوٹ کی نازیش اسغر کو گینگ ریپ کیا گیا ،بعد ازاں پولیس نے اسے اپنی تٹحویل میں ریپ کیا، (ش ) کو ملتان میں پولیس نے بے آبرو کیا ۔ یہ وہ واقیعات ہیں جو اخبارات میں رپورٹ ہوے ہیں تاہم ان کی اصل تعداد ہزاروں میں ہے۔

ماہرین کا کہنا ھے کہ اگر ان گھناوئنے جرائم کو حکومتوں اور عہدیداروں کی اشیرواد حاصل نہ ہو اور ضلعی حکومتیں ان گھناونے جراؑئم کے خاتمے میں اپنا قانونی کردار ادا کریں تو ان جراؑئم پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری ضلعی حکومتیں کس مرض کی دوا ہیں اور ان پر کراڑوں روپے ماہانہ اور اربوں روپے سالانہ کس خوشی میں خرچ کیے جا رہے ہیں؟

خیال رہے کہ ہر ایک ضلعے میں نظام حکومت چلانے کے لئے کم از کم ۱۶ کے قریب محکمے موجود ہوتے ہیں اور ان سب محکموں میں EDO موجود ہوتے ہیں جن کا کام اپنے اپنے محکموں کی خدمات کو سر انجام دینا اور ان کی کار کردگی کو بہتر بنانا ہوتا ہے۔جیسا کہ راولپنڈی میں ۱۶ کے قریب محکمے موجود ہیں اور ان سب کے EDO بھی موجود ہیں اور ان تمام محکموں کے پاس ایک وسیع عریض فوج بھی موجود ہے جس کا کام لوگوں کے مسائل حل کرنا اور ان کی ذندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنا ہے تاکہ لوگوں کو احساس محرومی نہ ہو کہ وہ اپنے ہی ملک میں اپنے ہی عہدیداروں کے ہاتھوں ذلیل و رسوا کئے جا رہے ہیں ۔

لیکن پچھلی کئی دہائیوں کے تجربات و مشاہدات اس امر کے نا قابل تردید گواہ ہیں کہ ہماری ضلعی حکومتیں یعنی DMG GROUP یا ڈسٹرکٹ مینیجمنٹ ضلعی معاملات کو عوامی توقعات کے مطابق چلانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں اور یہ تمام ادارے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اب ایک ناسور کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور در حقیقت عوام کے مسائل کے حل میں یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

اس کی ایک بڑی مثال راولپنڈی میں پھیلنے والی بے لگام ہاوسنگ سوسائیٹیاں ہیں جن کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق دو سو سے ذائد ہے جبکہ ان میں سے اسی فیصد کے پاس RDA کے موذوں اور قابل قبولNOC موجود نہیں اور یہ سب کے سب کھلے بندوں لوگوں کو سر عام لوٹ رہے ہیں۔ان جعلی ہاوسنگ سوسائیٹیوں کے خلاف موئژ کاروائی نہ کرنے والوں میں پنجاب کے وزیر اعلی،کمشنر راولپنڈی اور CDA,D.G.RDA بھی شامل ہیں جو آج تک ان کا بال بینکا نہیں کر سکے۔ان ہاوسنگ سوسائٹیوں کا سب سے بڑا شکار غیر ملکی پاکستانی اور کم آمدنی والے لوکل شہری ہوتے ہیں۔جو انتہائی آسانی کے ساتھ لوٹے جاتے ہیں۔

RDA ہی کے ایک اعلی عہدیدار کے مطابق ان ہاوسنگ سوسائیٹیوں کے قبصہ قدرت میں راولپنڈی کے گردونواح کے تیس کلومیٹر کے تمام علاقوں پر اب ان کا قبضہ ہے جہاں نام نہاد ہاوسنگ سوسائیٹیاں بن رہی ہیں اور بے گھر لوگوں کو کوڑیوں کے بھاؤ لی جانے والی جگہیں لاکھوں اور کروڑوں میں فروخت کی جا رہی ہیں۔اس طرح یہ غیر قانونی کاروبار پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا مالیاتی سکینڈل ہے۔

اخبارات کے سروے اور اعدادو شمار کے مطابق یہ علاقے بیس سال قبل راولپنڈی کے لوگوں کے لئے چارہ،پھل،سزیاں،گوشت اور اجناس کی فصلیں پیدا کئے جانے کے لئے استعمال میں لائے جاتے تھے ۔ اب یہ لہلہاتے کھیت کھلیان بے گھر لوگوں کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کر رہے ہیں۔اس طرح چار دہائیوں پر پھیلا ہوا یہ غیر قانونی کاروبار پاکستان کی تاریخ کاسب سے بڑا مالیاتی سکینڈل ہے جس پر تمام ذمہ دار خاموش تماشائی ہیں یا پھر اندر خانے مال بنا رہے ہیں۔

ماہرین ماحولیات کے مطابق ان ذرخیز علاقوں کی پامالی مستقبل کی نسلوں کے لئے ناقابل بیان مسائل کا محور و مرکز ہو گی۔تاہم ضلعی انتظامیہ اس انجام سے یکسر بے خبر اپنے دندھوں میں مسلسل و متواتر مشغول ہے۔ان علاقوں میں تعمیر ہونے والے مکانات آنے والے کل کے لئے شلٹر نہیں سلمز ثابت ہو ں گے جہاں انسانی حقوق کی پامالیوں،حظان صحت کے اصولوں ،ماحولیاتی اصولوں کی دھجیاں اڑائی جائیں گی۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ ضلیعی انتاظامیہ جس پر ماہانہ اربوں روپے خرچ کئے جا رہے ہیں اور ان کے پاس تمام وسائل اور افرادی قوت بھی موجود ہے ان مسائل سے کیوں کر بے خبر ہیں۔اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ یا تو یہ سب کے سب نااہل ہیں یا پھراپنی آئینی و قانونی ذمہ داریوں س سے منحرف ہو چکے ہیں اور ان کے خلاف سخت ترین قانونی چارہ جوئی کی اشدضرورت ہے۔

لیکن یہ کاروائی کون کرے گا۔کیا پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی DCO,DEPUTY COMMISSIONER OR EDOکو اس طرح کے معاملات کی چھان بین کے لئے سمن کیا گیا ہے اور آیا کسی کو کوئی سزا یا باز پرس ہوئی ہے۔

ہم میں سے بہت کم لوگوں کو اس حقیقت کا علم ہے کہ یہی لوگ در حقیقت اس ملک کے مالک و حاکم ہیں اور سیاسی قائدین تو ان کے سامنے طفل مکتب ہیں۔انہی کی اشیرواد سے آینی و قانونی حکومتوں کے تختے الٹائے جاتے ہیں،پھانسیاں دی جاتی ہیں،ملک بدر کئے جاتے ہیں اور یہ سب تماشہ دیکھتے ہیں۔

ماہرین سماجیات کے مطابق ان مسائل کا اب ایک ہی قابل قبول حل رہ گیاہے کہ ان تمام محکموں کے ذمہ دار افسروں کا سخت ترین محاسبہ کیا جائے اور جس محکمے کے خلاف شکایات ہوں اس کے اعلی افسروں کے خلا ف قا نونی چارہ جوئی کی جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے جو دوسروں کے لئے باعث عبرت ہو۔
Anwar Baig
About the Author: Anwar Baig Read More Articles by Anwar Baig: 22 Articles with 14157 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.