اے عورت تو چاہتی کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔ایک جائزہ

اﷲ تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ سلام کو تخلیق کیا اور جنت میں بھیجا, گو کہ وہاں ہر نعمت موجود تھی, ہر ذائقہ, ہر رنگ, ہر وہ شے جو ہمارے جنت کے تصور میں موجود ہ ہے,وہاں موجود تھی ۔ لیکن پھر بھی حضرت آدم علیہ سلام وہاں تنہائی محسوس کرتے تھے۔یہاں تک کے انہوں نے اﷲ سے دعا کی کہ انہیں ایسا کوئی ساتھی عطا کرے جس کے ساتھ وہ اپنی تنہائی با نٹ سکیں۔ جو ان کا ہم جنس ہو جس سے وہ دل کی باتیں کر سکیں۔چنا چہ اﷲ رب العزت نے آ دم علیہ السلام کی پسلی سے حضرت حوا کو تخلیق کیا۔یعنی اﷲ نے حضرت آدم کا نصف بہتر تخلیق کیا, ان کے دکھ سکھ کا ساتھی, ان کی تنہائی بانٹنے والا بنایا یا یوں کہیں کہ اﷲ نے دنیا کی خاتون اول کو بنایا۔

اس دن عورت بنا دی گئی لیکن یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ عورت ہے کیا۔۔۔آخر عورت ہے کیا اور چاہتی کیا ہے؟ دانا لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عورت کو سمجھنا مشکل ہی نہیں نہ ممکن ہے اور کم سمجھ لوگ عورت کو سمجھنے کی کتابیں لکھتے ہیں۔لیکن اب تک کوئی ایسا دعوے دار نہیں ملا جو یہ کہہ سکے کہ میں سمجھ گیا ہوں عورت کو۔

عورت اپنے آپ میں ایک پیچیدہ مسلۂ ہے, ایک نازک مر حلہ ہے, ایک نیا رنگ ہے, ایک سگین غلطی ہے ,ایک خوبصورت لمہ ہے, ایک معمولی بیوقوفی ہے یا پھر ایک مثالی سمجھداری ہے۔عورت ایک وجود میں بہترین تضاد کا نام ہے۔عورت مختلف جذبوں کے مرکب کا نام ہے۔ عورت کا ہر روپ انیک ہے۔وہ ماں ہے تو اولاد کی جنت ہے ,بہن ہے تو بھائیوں کی عزت ہے ۔وہ بیٹی ہے تو باپ کے لئے راحت ہے بیوی ہے تو اطاعت و فرمابرداری کا سرچشمہ ہے۔عورت کے یہی روپ نہیں ہیں بلکہ اگر یہ صنف نازک اپنے ہی جیسی کسی نازک ہستی کے مدمقابل آ جائے تو تمام تر نازکیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میدان کو اکھاڑے میں بدل سکتی ہے۔یہی صنف نازک ظالم ساس کا روپ دھار لیتی ہے یا پھر چالاک بہو بن جاتی ہے۔ اگر حالات سگین ہوں تو ایک عورت خوبصورت چڑیل یعنی سوکن بھی بن سکتی ہے۔

ان سب باتوں سے بالاتر بد قسمتی سے ہم اس دنیا کے با شندے ہیں جہاں عورت کو عورت تو کیا انسان بھی نہیں سمجھا جاتا۔اسے گلیوں میں گھسیٹا جاتا ہے۔ بازاروں میں رسوا کیا جا تاہے۔تیزاب سے اس کے چہرے کو جھلسا دیا جاتاہے اور ذرا ذرا سی بات پر اس کو لہو لہان کر دیا جاتا ہے۔اگر یہ نہ ہو تو کبھی کم صورتی پر,کبھی بے اولادی پر,کبھی جنسی بنیاد پر امتیازی سلوک کی وجہ سے تو کبھی دقیا نوسی منحوسیت کا ٹیگ لگا کر اس کی شخصیت کو تار تار کر دیا جاتاہے۔

ایسا نہیں ہے کہ عورتوں کے حقوق کے لئے کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ہمارے جیسے معاشروں میں بہتیری این جی اوز حقوق نسواں پر کام کر تی ہیں۔لمبے لمبے سمینارز منعقد کروائے جاتے ہیں۔دھواں دھار تقریریں کی جا تی ہیں۔ان کی انتھک محنت کے بعد مظلوم خواتین کو انصاف ملے یا نہ ملے لیکن این جی او زکی اچھی خاصی تشہیر ضرور ہو جا تی ہے-

ایک عورت جس کے حوصلے بہت بلند ہیں اس کے ارادے پکے ہیں اس کے خواب اونچے ہیں۔وہ کسی سے کم تر نہیں, کسی سے پیچھے نہیں۔وہ اوسطاـــ ایک مرد سے زیادہ محنتی, جفاکش اور وفا شعار ہے,وہ آپ کے معاشرے کی اکثریت ہے ۔عورت جہاں بھی ہو,جیسی بھی ہو وہ عزت چاہتی ہے وہ محبت چاہتی ہے۔ عورت کوئی معمہ نہیں کوئی پہیلی نہیں۔ ایک انسان ہے۔ آپ نہ سمجھئے اسے عورت, اسے مرد بھی نہ سمجھئے بس اسے انسان ہی سمجھ لیجئے۔ اسے انسانی بنیادوں پر پرکھیں۔اسے انسانوں جتنی برابری ہی دے دیں۔بس اتنا ہی چاہتی ہے ایک عورت۔۔۔۔
Sobia Khan
About the Author: Sobia Khan Read More Articles by Sobia Khan: 5 Articles with 4076 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.