پرو فیسر وحید الرحمن ( یاسر رضوی )ایک
ذہین اور قابل شخص تھے ،ملنساری ان کا وصف تھا،دھیما لہجہ ،شفقت او ر
ملائمت ان کی سرشت میں شامل تھی ،سونے پر سوہا گہ یہ کہ ان کی رفاقت میں
گزری گھڑیاں خواست گاران علم کیلئے انتہا ئی قیمتی تھیں ،وہ پہلے جا معہ
اردو سے منسلک رہے بعد ازاں 2013 میں مادرعلمی جا معہ کر اچی کے شعبہ ماس
کمیونیکیشن سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر منسلک ہوئے ۔زما نہ طا لب علمی سے قبل
ہماری ان سے شعبہ صحافت کی نسبت سے ملاقاتیں ہوتی رہی تھیں لیکن موضوع
گفتگوہمیشہ صحا فتی امور ہی ہوتا تھا ،اکثر و بیشتر ان سے کراچی پر یس کلب
میں ملاقاتیں ہو تی تھیں ،وہ میرے استاد 2009 میں بنے، محنتی انسان تھے ،اپنے
پیشہ سے اخلاص ان کا کمال تھا ، میری ان سے محبت اور شفقت کا رشتہ چونکہ
پرانا تھا ،اسی لیے ایک استاد اور شاگرد کے درمیان حائل خلیج زیا دہ دیر
برقرار نہیں رہ سکی،وہ استاد بھی دوستوں جیسے ثابت ہوئے، ہم جب جامعہ اردو
میں ایم اے ماس کمیو نیکشن کے ادنیٰ طالب علم تھے تو ان سے کلاس میں روزآنہ
ملاقات ہوتی تھی جبکہ کبھی کبھی ون ٹو ون ایک آدھ گھنٹے کی نشست بھی ہو جا
تی تھی ،موضوع صحافت اور تعلیم ہی ہوتا تھا ۔ ایم اے ماس کمیو نیکیشن کے
سال اول کی پہلی کلاس والے دن جب تمام طلبہ وطالبات اپنا اپنا تعارف پیش کر
رہے تھے اور میرے جب تعارف کا وقت آیا تو انہوں نے مسکراہٹ کا تبا دلہ کر
تے ہوئے خود ہی میرے بارے میں اسٹوڈننٹس کو بتایا اور کہا کہ زین صدیقی
شعبہ صحافت سے عملی طور پر وابستہ ہیں ،لہٰذامجھے امید ہے انہیں اس کلاس
میں کو ئی مشکل پیش نہیں آئے گی اور یہ دیگر طلبہ کی بھی رہنما ئی کریں گے
اوراکثر ایسا ہو تا تھا کہ وہ دوران لیکچر طلبا سے کو ئی سوال کر تے توان
کی پہلی نظر مجھ پر جاتی اور کہتے زین تم نہیں ،تمہیں اس کا جواب معلوم ہے
،میرا سوال دوسرے اسٹو ڈنٹس سے ہے ۔پھر اگر کسی کو جواب نہیں آتا تو انتہا
ئی شفقت سے سمجھا تے تھے ،کبھی ان سے ملاقات کی خواہش ہو تی تو کسی کلاس
روم میں ہوتے اور ہم ان کیلئے انتظار کرتے کہ کب کلاس ختم ہو اور کب ان سے
ملاقات ہو ،اکثر وہ پروفیسر توصیف احمد خان کے ساتھ محو گفتگو ہوتے تھے تو
ہم بے اختیار ان کے آفس میں جاکران سے مل لیا کرتے تھے کلاس میں مجھ سمیت
رضوان طا ہرمبین ،کنول فاطمہ ،سحرش پرویز،وریشہ ذوالفقار ،عبد الرحمن ،عبد
الستار جو کھیو،محمد یا سر شاہ ،عبد الغنی ،سونین حنیف اور دیگر تمام طلبہ
وطالبات ہی ان کے عقیدت مند تھے پرو فیسر ڈاکٹر وحید الرحمن کراچی پر یس
کلب کے اور کراچی یونین آف جر نلسٹس کے رکن بھی تھے ،جامعہ اردو جوائن کرنے
سے قبل وہ ایک روزنا مہ سے بطور رپورٹرمنسلک رہے اور وہاں بھی اپنی صلا
حیتوں کے جوہر دکھا ئے، 29اپریل 2015 بروز بدھ صبح کے وقت نیوز چینلز پر
نشر ہو نے والی خبر کہ جامعہ کر اچی کے استاد پروفیسر وحید الر حمن کو شہید
کر دیا گیا ہے ہم پر بجلی بن کر گری،انہیں اس وقت شہید کیا گیا جب وہ اپنے
گھر فیڈرل بی ایریا سے اپنی کار میں کراچی یو نیورسٹی جار ہے تھے اور اپنے
فرائض کی ادائیگی کیلئے نکلے تھے ۔اس خبر کے ساتھ ہی مجھ سمیت سیکڑوں طلبہ
وطالبات ایک شفیق استاد اور روحانی باپ سے محروم ہو گئے تھے ،بے اختیار
آنکھوں سے آنسو نکل آئے ،ان کے ساتھ گزرے لمحا ت آنکھوں میں گھوم گئے ،دل
کی کیفیت تھی کہ جیسے ابھی بند ہو جائے گا ۔پروفیسر صا حب کی شہادت کو آج
ایک سال کا عرصہ بیت گیا لیکن دل و دماغ آج تک اس بات کو قبول کرنے سے قاصر
ہے کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں ،ان کی شہادت نہ صر ف وابستگان علم وصحافت
بلکہ لاکھوں طلبہ پر بھی ظلم ہے،انہیں کس وجہ سے شہید کیا گیا یہ گتھی ابھی
تک سلجھ نہیں سکی ،لیکن انہیں ابدی نیند سلا نے والوں نے اہالیان کراچی سے
ایک شفیق استاد اور روحانی باپ چھین لیا ہے،وہ اصول پسند تھے ،صحیح اور غلط
کی پہچان رکھتے تھے ،ایک سال بعد بھی ان کے ملزمان کا سراغ نہیں لگا یا جا
سکا نہ ہی ان کے اہل خانہ کو انصاف ملا ،اساتذہ تنظیموں کی جانب سے پریس
کانفرنسز میں قاتلوں کی گرفتاری ،ا ن کی فیملی کی مالی معاونت کے بار ہا
مطالبات کے باوجو د تاحال اس میں پیش رفت نہیں ہو سکی ۔ہمیں امید ہے کہ
ارباب اقتدار ہم سے ہمار ا پروفیسر وحید الرحمن جیسا قیمتی اثاثہ چھینے
والوں کوایک سال بیت جانے کے بعد قانون کے کٹہرے میں لا کر انصاف کے تقاضے
ضرور پورے کریں گے اور اساتذہ کو نشانہ بنانے کے گھناؤنے عمل کا یہ باب
ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کریں گے۔ |