تعلیم کی اہمیت سے کوئی انکاری نہیں ، بدقسمتی سے
پاکستان میں جہاں ایک طرف تو اس اہم شعبے کیلئے بجٹ بہت کم رکھاجاتاہے،
دوسرے جعلی ڈگریوں اور تعلیم اداروں میں میرٹ کے خلاف بھرتیوں اور سیاسی
مداخلت نے تعلیمی معیار کو تباہ کرنے میں مرکزی کردار ادا کیاہے۔ یہی کچھ
صوبہ KPKمیں گذشتہ ایم ایم اے، اے این پی دور میں خاص طورپریونیورسٹیوں کی
سطح پر ہوا۔ جسکے باعث کئی یونیورسٹیاں جن میں گومل یونیورسٹی ڈی آئی خان،
اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور، وویمن یونیورسٹی صوابی، ٹیکنیکل یونیورسٹی
نوشہرہ، وومن یونیورسٹی مردان، یونیورسٹی آف کوہاٹ، ہزارہ یونیورسٹی،
یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ایبٹ آباد، یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ
ٹیکنالوجی پشاور قابل ذکر ہیں میں بھی تعلیمی، مالی و انتظامی بحران پیدا
ہوا۔
مذکورہ تعلیمی اداروں کے علاوہ بھی KPKکی کئی دیگر یونیورسٹیز میں بھی
صورتحال بہتر نہیں ہے۔ گورنر آرڈی ننس 2016ء کے تحت اکثر یونیورسٹیز میں
Pro VC کی اسامیاں خالی ہیں جبکہ کئی اہم انتظامی عہدوں کو جن میں رجسٹرار،
کنٹرولر، ڈائریکٹر فنانس قابل ذکر ہیں، کو ٹیچرز کو اضافی چارج دیکر
چلاجارہاہے۔ حالانکہ قانون کے مطابق 3ماہ سے زیادہ کسی ٹیچر کو اضافی چارج
نہیں دیاجاسکتا۔ مذکورہ عہدوں پر مستقل تعیناتی کی صورت میں VCکے فیصلے کو
بھی افسر چیلنج کرسکتاہے لیکن ان اہم اسامیوں کے افسران کو اپنے زیر سایہ
یا دباؤ میں رکھنے کیلئے اور من مانے فیصلے اور من پسند تقررریاں اور
ترقیوں اور ہاں میں ہاں ملانے والے افسران کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس قباحت اور
کرپشن کے باعث تعلیمی ادارے بدانتظامی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔ گومل
یونیورسٹی میں حال ہی میں آر ڈیننس 2016ء کو نہایت بھونڈے انداز میں اپنی
ضرورت کے تحت نافذکرنے کی کوشش کی گئی ، مذکورہ ایکٹ کے مطابق جس کی پہلی
شق میں ہے کہ سیکورٹی آفیسر آرمی کا ریٹائرڈ آفیسر ہوگا کو مدنظر نہ رکھا
گیا اور رحیم داد کی جعلی ڈگری میں ملوث شخص ہی کو رہنے دیاگیا جبکہ جعلی
ڈگری میں ہی ملوث ایک کنٹرولر کو ہٹاکر ایڈیشنل کنٹرولر بنادیا گیا۔ اسی
طرح رجسٹرار کی پوسٹ پر حال ہی میں تعینات افسر نے صرف اس بناء پر استعفی
دیدیا کیوں کہ وہ غلط کام نہیں کرنا چاہتا تھا۔ HEDنے تمام یونیورسٹیز
کیلئے ایک جیسا Model Institute بنانے کا اعلان کیا تھا جو تاحال نہ بننے
کے باعث ہر دارہ اپنا الگ قبلہ بنائے ہوئے ہے۔ اگر اس سلسلے میں فوری کام
کیا جائے تو کافی بہتری آسکتی ہے۔ اس طرح صوبہ KPKکی کسی بھی یونیورسٹی میں
سپریم کورٹ کے فیصلے جس میں انہوں نے اردو کو سرکاری زبان قرار دیکر اسے
نافذ کرنے کا فیصلہ کیا تھا کوئی بھی عمل درآمد نہیں کیا جارہا۔ کوئی ایک
بھی خط کوئی یونیورسٹی شاید پورے پاکستان میں نہیں دکھا سکتی جو قومی زبان
میں تحریر کیا گیا ہو۔ سیاسی بنیادوں پر صوبہ میں یونیورسٹیاں تو دھڑادھڑ
مالی وسائل کے بغیر تعمیر کردی گئیں لیکن ان کی طرف توجہ سابقہ حکومتوں نے
نہ دیں، الٹا انہیں اپنے سیاسی فیصلوں اور بجٹ فراہم نہ کرنے کے باعث زبوں
حالی کا شکا رکردیا گیا۔ موجودہ PTIحکومت نے بھی اس سلسلے میں کافی دیر
کردی۔ یونیورسٹیوں میں مالی، انتظامی، تعلیمی خرابیوں کے ساتھ ساتھ جو سب
سے بڑی خرابی پیدا ہوگئی ہے وہ ہے طلباء اور اساتذہ کا قومیت، علاقائیت اور
تعصبیت کی ۔ گومل یونیورسٹی کا خسارہ 50کروڑ سے تجاور کرچکاہے۔ خؤشحال خان
خٹک یونیورسٹی جو 2012ء میں قائم ہوئی کو 2013ء میں HECنے NOCدیا تاحال
اپنی مستقل عمارت سے محروم ہے۔ سیاسی لوگ اپنی من مانی پسند جگہ پر عمارت
بنوانا چاہتے ہیں جسکے باعث کام ٹھپ ہے۔ اسطرح بنوں یونیورسٹی میں اے این
پی دو رکا VCتاحال تعینات ہے جسے کسی بھی اہم پوسٹ پر تعیناتی کیلئے غیر
موزوں قرار دیا گیا تھا ۔ کوہاٹ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں
عرصہ سے Acting Vc کے ذریعے کام چلایاجارہاہے۔ KPKکی 9یونیورسٹیوں جن کا
ذکر میں نے شروع میں کیا مستقل VCکی تعیناتی کیلئے عمران خان کی حکومت نے
سیا سی وابستگیوں سے ہٹ کر میرٹ پر اہل VCمقرر کرنے کیلئے چار ممبران پر
مشتمل اکیڈمک سرچ کمیٹی بنائی جسکا سربراہ سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عطاء
الرحمن کو بنایا گیا جبکہ ممبران میں سابق گورنر سٹیٹ بنک آف پاکستان ڈاکٹر
عشر ت العباد، مایہ ناز ماہر تعلیم ڈاکٹر سہیل نقوی، Lums VC یونیورسٹی
لاہور اور ڈاکٹر رفاہ یونیورسٹی جو کہ VCگومل یونیورسٹی بھی رہ چکے ہیں
ڈاکٹر غلام عباس میانہ شامل ہیں۔ مذکورہ کمیٹی نے مذکورہ 9یونیورسٹیوں
کیلئے درخواستیں طلب کیں۔ 230درخواستوں کی جانچ پڑتال کے بعد33امیدواروں کا
گذشتہ ہفتے خیبرپختونخواہ ہاؤس اسلام آباد میں انٹرویو کیا گیا جسکے بعد ان
میں سے VC 9تعینات کئے جائیں گے۔ امید کی جارہی ہے کہ اہل اور قابل ترین
لوگ مذکورہ اداروں کا چارج سنبھلا کر انہیں مالی، تعلیمی اور انتظامی بحران
سے نکال کر ترقی و کامرانی کی راہ پر گامزن کریں گے۔ اس سلسلے میں صوبہ
KPKکے وزیر اعلی کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و تعلقات عامہ اور اعلی
تعلیم مشتاق احمد غنی کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ ماضی میں کی جانیوالی
غلطیوں کو ہم نہیں دہرانا چاہتے اور ہم ایسے قابل اور میرٹ پر VCتعینات
کرنا چاہتے ہیں جو تمام تر سیاسی دباؤ سے ہٹ کر تعلیمی بحران کو ختم کرنے
اور یونیورسٹیوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے ایمانداری سے کام کریں۔
انکا یہ کہنا بجا ہے کہ گذشتہ حکومتوں کی غلط پالیسیوں کے باعث کئی
یونیورسٹیاں صرف ڈگری چھاپنے والی درسگاہیں بن کر رہ گئی تھیں۔ تحریک انصاف
کی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی جہاں صوبہ بھی میں بھوت سکولوں کے خاتمہ پر
توجہ دی وہاں انہوں نے تعلیم پر ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے اسے ایک چیلنج کے
طورپر قبول کیا۔
یونیورسٹیوں کو ان کے اصل کام تحقیق پر لگایا۔ PTIکی صوبائی حکومت کی نیت
پر ہم شک نہیں کرتے اور ان کے VCsکی تعیناتی کیلئے بنائی گئی کمیٹی او ران
کے فیصلوں کوخؤش آئند قرار دیتے ہوئے امید کرتے ہیں کہ جب فائنل نام
وزیراعلی اور گورنر کو ارسال ہونگے تو وہاں پر بھی ڈنڈی مارنے کی بجائے
کمیٹی کے فیصلوں کی تائید کی جائیگی۔ |