رنگ محفل چاہتا ہے اک مکمل انقلاب
چند شمعوں سے پھڑکنے سے سحر ہوتی نہیں
ہمارے معاشرے میں آئے دنوں انقلاب کی باتیں ہوتی ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ
انقلاب آئے گا تو ہی ہمارے ملک کے حالات ٹھیک ہو سکتے ہیں اسی لئے آئے دنوں
انقلاب کی تحریکیں اٹھتی ہیں ۔مگر یہ انقلاب فساد تک آ کے رک جاتا ہے۔ اور
جب بھی کوئی غیر معمولی واقعہ ہوتا ہے تواپوزیشن کہتی ہے کہ پاکستان تاریخ
کے اہم موڑ پر کھڑا ہے جبکہ حکومت کہتی ہے کہ پاکستان ایک نازک موڑ پر کھڑا
ہے اور سیاست دانوں کی ایک کثیر تعداد اور ٹی اینکرز دن رات مباحث میں
پھڑکتے نظر آتے ہیں بلکہ یہی مباحث کی پھڑکن ہمیں صبح سے شام تک ہمارے
معاشرے کے ہر گلی ہر ہر موڑ پر ہوتی ہے اور یہ تنقید اور تعریف کی باتیں
نئی نہیں ہیں بلکہ ہمارے اس مزاج کے بارے میں زمانہ قدیم کے مورخین نے بھی
بیان کیا ہے جیسا کہ ایک سیاح لطف اﷲ نے جو انیسویں صدی میں برطانیوی فتح
سندھ سے پہلے سند میں آیا تھا اس نے سندھیوں کے مباحث کے بارے میں لکھا ہے
کہ’’ میں نے سندھی ملاحوں کو دیکھا کہ سارا سارا دن میرے خیمہ کے آگے بیٹھے
آپس میں بحث و مباحثہ کرتے رہتے تھے۔ ان کی گفتگو کا محور حکومت کے معاملات
ہوا کر تھا ان میں سے ایک جماعت کا خیال تھا کہ ان کا ملک ختم ہو گیا ہے
اور جلد ہی اس پر انگریز قبضہ کرنے والے ہیں۔ وہ کہتے کہ ٹالپر اس کے ذمہ
دار ہیں انہوں نے ان منحو س انگریزوں سے اس قدر تعلقات کیوں بڑھائے وہ پورے
ہندوستان پر قبضہ کر چکے ہیں اب وہ ہمارا ملک لے لیں گے‘‘-
لطف اﷲ نے جس بات کا بیان سندھیوں کے حوالہ سے کیا ہے اس کا آج بھی
پاکستانی معاشرہ میں اس تنقید و تعریف کا دور دورہ ہے- جب بھی ہمارے معاشرے
کے یعنی ترقی پذیر معاشرہ کے دانشو ر یا عام لوگ اکٹھے ہوتے ہیں تو ان میں
ملکی حالات و واقعات کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور تجزیہ کاآغاز اپنے تجربہ کی
بنیاد پر ہونے والی معاشرے کی بدعنوانیوں سے ہوتا ہے اور پھر کہا جاتا ہے
کہ رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا ہے۔ حتیٰ کہ بڑے بڑے افسر بھی اس پر
مجبور ہوتے ہیں کہ رشوت کے زریعہ اپنے کام کروائیں اس کے بعد سفارش کا سوال
آتا ہے، ہر شخص اس پر بحث کرتا ہے کہ سفارش کی وجہ سے لائق اور ذہین لوگ
آگے نہیں آتے ہیں اور نا اہل ہر جگہ نظر آتے ہیں۔
جب شکایتوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو محفل میں شریک ہر فرد اس میں حصہ لینے
کے لئے بے چین نظر آتا ہے، اور ٹریفک کی مشکلات سے لیکر ملازمین کی بے
ایمانی کی داستانیں بڑے جوش اور ولولہ سے سنائی جاتی ہیں، اورسیاست کے
میدان سے لیکر کرکٹ کا گیم پلان بھی دیا جاتا ہے جب یہ بحث جاری ہوتی ہے تو
ہر شخص کو اندرونی طور پر بڑی مسرت ہوتی ہے بلکہ اگر کسی کا انداز بیان
خوبصورت ہو اور وہ معاشرے کا پوسٹ مارٹم اچھی طرح کرنے کی قابلیت رکھتا ہو
تو لوگ واہ واہ اور سبحان اﷲ بھی کہتے ہیں۔
اکثر یہ ہوتا ہے کہ ان طویل بحثوں اور تجربوں کے بعد جب محفل برخواست ہوتی
ہے تو یہ حضرات بڑے اطمنان سے جا کر سو جاتے ہیں اور جب دوسرے دن اٹھتے ہیں
تو معاشرے کی انہیں برائیوں سے سمجھوتہ کر کے رشوت دے کر سفارش کا سہارا لے
کر کام چلاتے ہیں۔ اور جس معاشرے کا کرپٹ کہتے ہیں اسی کا حصہ بن کر جیتے
ہیں کار مارکس نے کہا تھا کہ فلسفیوں نے معاشرے کو تعبیر اور تاویل اور
حقیقت تو دے دی ہے اب وقت ہے کہ معاشرے کو بدلہ جائے۔
ہمارے معاشرے کا یہی المیہ ہے کہ ہمارے پاس نقاد تو بہت ہیں مگر مفکر کوئی
نہیں ہے ہم لوگ اپنے ملک کے نظام پر تنفید تو بہت کرتے ہیں مگر ہمارے
حکمرانوں اور دانشوروں کے پاس کوئی متبادل نظام نہیں ہے یورپ نے جب ترقی کی
تو اس وقت ان کی منزل طے کرنے میں وہا ں کے دانش وروں نے ایک متبادل نظام
لانے میں اپنے ملک کے لوگوں کی مدد کی مگر ہمارا سفر تنقید سے شروع ہوتا ہے
اور پھر تنقید پر ہی ختم ہو جاتا ہے جب تک ہمارا معاشرہ مکمل طور پر اپنے
اندر تبدیلی پیدا نہیں کرتا ہے اس وقت تک یہ انقلاب کی تحریکیں اور تبدیلی
کے نعرے محض نعرے ہی بنے رہیں گے ۔ ارو ہماری اور ہمارے دانشوروں کی تنقید
اس محفل میں انقلاب پیدا نہیں کر سکے گی بلکہ چند شمعوں کی پھڑکن ہوگی جو
ایک رات تک پھڑکتی ہیں اور پھر خاموش ہو جاتی ہیں ۔ اور ہماری تنقید کا
سفرتعمیر پر نہیں بلکہ تنقید سے شروع ہو کر تنقید پر ہی ختم ہو تا رہے گا۔ |