پسند کی شادی
(Zulfiqar Ali Bukhari, Rawalpindi)
پسند کی شادی ہمارے معاشرے میں ایک ایسا
جرم بن چکا ہے جو بھی کرتا ہے اُس میں سے چند کا انجام المناک موت کے سوا
اور کچھ نہیں ہوتا ہے۔ آج کی ہی اخبار میں دل دہلادینے والی خبر نے ہلا کر
رکھ دیا ہے کہ ایک شقی القلب باپ نے اپنی بیٹی کو جس نے اپنی پسند کی شادی
کر لی تھی جب اُس کے من پسند شوہر نے کچھ عرصہ بعد اُسے چھوڑ دیا تو وہ
واپس اپنے والد کے گھر آئی جہاں پر سفاک باپ نے اپنی ہی بیٹی کا گلا گھونٹ
دیا اور پھر اسکی لاش کو بھی جلا دیا۔
اگرچہ اس واقعے کے ملوث مجر م نے اپنے گناہ کو تسلیم کر لیا ہے مگر سوچنے
کی بات یہ ہے کہ ہمارا دین اس حوالے سے واضح احکامات بیان کرتا ہے مگر
بیشتر والدین اس کو بُرا فعل سمجھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اُنکی اولاد
اِس عمل سے دور ہی رہے اور وہ اپنے مرضی سے اپنے بچوں کے جیون ساتھی منتخب
کر یں۔بہت سے والدین ابھی بچے چھوٹے ہی ہوتے ہیں اُنکے رشتے طے کر دیتے ہیں
اور جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں تو وہ اس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور پھر جو
ہوتا ہے وہ نت نئی کہانیوں کو جنم دیتا ہے۔
پاکستان میں بھی دیگر ممالک کی مانند پسند کی شادی کے لئے نوجوان نسل کورٹ
میرج کرتی ہے مگر یہاں چونکہ والدین کی مرضی پر چلنے کا ایک رواج قائم ہے
تو بہت کم واقعات ایسے سامنے آتے ہیں کہ کوئی اپنی پسند کے لئے والدین کے
سامنے کھڑا ہو کر اپنی پسند کو بطور شریک حیات بنا سکے ۔اکثر دیکھنے میں
آیا ہے کہ پسند کی شادی کرنے والوں کو خاندان بھر کے افراد کی مخالفت کا
سامنا کرنا پڑتا ہے اور چند واقعات میں ایسی شادیاں بھی جلدی ختم ہو جاتی
ہیں کہ والدین یا خاندان کے لوگ اس کو توڑنے کی جہدوجہد میں پہلے دن سے
مصروف عمل ہوتے ہیں۔دوسری طرف کچھ جو جلد بازی کے فیصلے کا نتیجہ ہوتی ہیں
انکا انجام بھی جلد لوگوں کو دیکھنے کو ملتا ہے کہ پسند کی شادی کرنے والوں
کی ایکد وسرے میں دل چسپی کم ہو جاتی ہے اور نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے
جیسا کہ اُوپر بیان کردہ واقعہ میں ہوا ہے۔
اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے انصاف نہ کر سکو گے
تو ان کے سوا جو عورتیں پسند ہوں،دو دو یا تین تین یا چارچار ان سے نکاح کر
لو۔اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ( سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کر سکو گے
تو ایک عور ت(کافی ہے) یا لونڈی جس کے تم مالک ہو۔اس سے تم بے انصافی سے بچ
جاؤ گے۔( سورۃ النسا ۔آیت 3)
مندرجہ بالاقرآنی آیت پسند کی شادی کا واضح حکم دے رہی ہے کہ جو عورتیں
پسند ہوں اُن سے نکاح کیا جا سکتا ہے۔مگر یہاں انصاف کے تقاضے کو پورا کرنے
کے لئے یہ بھی ہدایت ساتھ میں دی گئی ہے کہ اگر ایک جیسا برتاؤ کرنا ممکن
نہ ہو تو پھر ایک ہی عورت سے نکاح کافی ہوگا اسطرح سے دوسری یا تیسری عورت
سے ناانصافی بھی نہیں ہوگی ۔یوں بھی ہر عورت کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس پر
کوئی سوتن مسلط نہ ہو اور وہ آزادی کے ساتھ اپنے خاوند کے ساتھ زندگی گذار
سکے۔اگر یہ آیت ہی ہم لوگ ٹھیک طور سے سمجھ سکیں تو بہت معاشرتی مسائل حل
ہو سکتے ہیں ۔مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہم اسلام کے بس وہی احکامات ہی
تسلیم کرنے کو تیار ہوتے ہیں جو ہماری سوچ کے مطابق ہمارے لئے فائدہ مند
ثابت ہوں یا جن کی وجہ سے ہم دوسروں کو اپنی سوچ کے تابع کر کے اپنی من
مرضی کے لحاظ سے عمل کے لئے مجبور کر سکیں۔جب اﷲ نے آزادی دے دی ہے کہ ہم
اپنی مرضی کی عورت سے شادی کر سکیں تو پھر اس حوالے سے ہمارے والدین یہ
کیوں سوچتے ہیں کہ ’’ لوگ کیا کہیں گے کہ اپنی بیٹی کی مرضی کے مطابق بیاہ
دیا۔‘‘
ہم اﷲ تعالیٰ کے احکامات پر معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ لوگوں کی باتوں کی
وجہ سے اورمعاشرے میں عزت و ساکھ رکھنے کے چکر میں اپنی ہی لاڈ سے پلی
اولاد کی زندگی سے کھیلتے ہیں ،وہی اولاد جس کی پرورش کے لئے ہم کتنی مشقت
جھیلتے ہیں اور اﷲ کے حکم کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں۔مندرجہ بالاآیت پسند
کی شادی کے حوالے سے واضح حکم ہے مگر ہمارے والدین پسند کی شادی کا سن کر
اپنی ہی اولاد کے ساتھ کچھ ایسا سلوک کردیتی ہے کہ وہ ساری زندگی ہی اس کا
خمیازہ بھگتنے میں لگے رہتے ہیں اور اپنی اولاد کو بھی ایسا کرنے سے روکتے
ہیں۔بہت سے لوگ اپنے مسلک سے ہٹ کر کسی اور کے ساتھ شادی کرنے کو اچھا نہیں
سمجھتے ہیں اور جہاں پسند کی شادی کوئی کرنا چاہ رہا ہو تو پھر ایسے افراد
کو یا تو چپ کر کے کہیں اور شادی کرنی پڑتی ہے یا پھر وہ بغاوت کر کے ایک
دوسرے کے ساتھ کورٹ میرج کر لیتے ہیں مگر ایسے واقعات میں اکثر قتل غارت
دیکھنے میں ملتی ہے حالانکہ نکاح میں بند ھ جانا ایک نیک عمل ہے مگر بہت سے
ناعاقب اندیش پھر بھی انکو قتل کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں اگرچہ بعدازں
اُنکو اپنے کئے کی سزا بھی بھگتنی پڑتی ہے۔
ابھی یہی دیکھ لیں کہ اﷲ تعالیٰ قرآن کی سورہ البقر میں یوں فرماتے ہیں
ــ’’ اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور انکی عدت پوری ہو جائے توانکو
دوسرے شوہروں کے ساتھ جب وہ آپس میں جائز طور پر راضی ہو جائیں ،نکاح کرنے
سے مت روکو۔‘‘مگر بہت سی خواتین جو طلاق حاصل کر تی ہیں یا کسی بھی ان بن
کی بناء پر انکا رشتہ ختم ہو جاتا ہے تو پھر وہ اپنی فطری تقاضوں کے تحت
دوبارہ سے کسی اور سے نکاح کا سوچتی ہیں تو اس بابت بھی بہت سی باتیں بنائی
جاتی ہیں اور خاتون کے کردار پر بھی شکوک کئے جاتے ہیں۔ بالخصوص اگر کوئی
نوجوان ایسی عورت سے اپنی پسند سے شادی کرنا چاہ رہا ہو تو کہاجاتا ہے کہ’’
تمہیں اب ایسی ہی عورت سے شادی کرنا تھی کیا تمہارے لئے یہی رہ گئی تھی‘‘۔
ہمارے معاشرے میں بگاڑ کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم اپنے دین کی تعلیمات پر
درست طور سے عمل کرنا ہی نہیں چاہتے ہیں ۔اگر ہم اپنی نوجوان نسل کی جلدی
شادی کی فکر کریں تو شاید یہ پسند کی شادی کا رجحان کم ہو سکے مگر یہاں
لڑکیوں کے بالوں میں سفیدی آجاتی ہے مگر ہم بناجہیز کے اور خوب صورتی کے
کسی کو اپنی بہو بنانے کو تیار ہی نہیں ہوتے ہیں۔کہیں اگر بدقسمتی سے کوئی
ایسا کرنے کا سوچ بھی لے تو لڑکی کے والدین کی طرف سے یہ جانتے بوجھتے کہ
لڑکی کی پسند بھی شامل ہے اور جہیز بھی نہیں دینا پڑے گا وہ محض اس وجہ سے
کہ لڑکی کا والد یا والدہ لڑکی کی شادی اپنے ہی بھائی یا بہن کے ہاں کرنا
چاہ رہے ہیں تو لڑکے کی شرافت اور غریبی کے ساتھ اپنی ہی بیٹی کو پسند کی
شادی کی سزا انکار کی صورت میں دیتے ہیں ۔بہت کم ایسا ہوتا ہے جہاں والدین
اپنی ہی بیٹی یا بیٹے کی پسند کی خاطر جھک کر اپنے بچوں کی خوشی کو دیکھتے
ہیں۔بہت سے والدین تو اگر کوئی پسند کی شادی کے حوالے سے اُنکے گھر تک پہنچ
جائے تو اُنکی ’’خاطر تواضع‘‘ ایسی کرتے ہیں کہ وہ پھر وہاں جانے سے ہی
انکاری ہو جاتے ہیں اور کچھ ایسا اس لئے بھی کرتے ہیں تاکہ پھر سے
’’مہمان‘‘اس حوالے سے وہاں آتے ہوئے ہزار بار سوچیں یا اِیسے سلوک کے بعد
ازخود ہی رشتہ لینے سے انکاری ہوجائیں۔
سورہ نور کی آیت 32میں یوں بیان ہو اہیـ’’ـ اور نکاح کرا دیا کرو تم لوگ ان
کے جو تم میں سے بے نکاح ہوں۔‘‘
دین اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے زندگی کے ہر معاملے کے لئے واضح ہدایات
دی ہوئی ہیں مگر اکثر مسلمان اس حوالے سے اپنی من مانی کرنے کو ترجیح دیتے
ہیں۔ اس لئے ہمارے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے ۔اگر ہمارے والدین
مذکورہ بالا آیت کے حکم پر من وعن عمل کرنا شروع کر دیں تو اُنکو دوسروں کے
سامنے شرمسار نہ ہونا پڑے ۔خاص کر جب وہ اپنے بچوں کے بروقت نکاح نہ کرنے
کی وجہ جب وہ کسی غیر اخلاقی سرگرمی میں ملوث ہونے پر تنقید کا نشانہ بنتے
ہیں۔ابھی یہی دیکھ لیں کہ ہماری یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے لڑکے لڑکیاں
کھلے عام پارکوں میں ملتے ہیں اور بہت سے واقعات میں ایسا بھی دیکھنے میں
آیا ہے کہ ایک فریق دوسرے کو قتل کر دیتا ہے محض اس وجہ سے کہ دوسرا فریق
بہت سا ساتھ وقت گذارنے کے بعد بھی شادی کرنے پر آمادہ نہیں ہو رہا ہوتا ہے
یا وہ اس ڈر سے کہ والدین کیا کہیں گے وہ یونیورسٹی میں ایسے ’’قابل مذمت
تعلق‘‘ رکھے ہوئے ہیں ۔جبکہ وہ تو اُن تعلیم حاصل کرنے کے لئے وہاں
بھیجواتے ہیں۔اگر والدین اپنے بچوں کے بروقت نکاح کر ا دیں تو وہ بے شمار
مسائل سے بچ سکتے ہیں مگر یہاں ہمارے معاشرے میں رواج ہو چکا ہے کہ لڑکیوں
کو گھر بیٹھا کرکچھ تعلیم دے کر پھرمناسب رشتے کا انتظار کرتے ہیں اگر اس
دوران کوئی رشتہ آ بھی جائے تو اُس میں اتنی خامیاں تلاش کر لی جاتی ہیں کہ
بات بنتی ہی نہیں ہے اور اُنکی کبھی بے جاضد اور انا کی وجہ سے بھی اچھے
رشتے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔جب کوئی لڑکی بالخصوص گھر بیٹھا کر رشتے کا
انتظار کر کے پھر تعلیم حاصل کرنے کے لئے تعلیمی ادارے کا رخ کرتی ہے تو
کچھ اپنی پسند کی شادی کے لئے والدین کے سامنے بغاوت کر لیتی ہیں کہ وہ
جانتی ہیں کہ گھر والے یوں ہی اپنے معیار کی خاطر رشتے رد کرتے رہیں گے۔
کچھ لڑکیاں تعلیمی اداروں میں نا چاہتے ہوئے بھی گھروالوں کی سختی کی وجہ
سے بھی لڑکے سے تعلق قائم کرلیتی ہیں مگر اکثر واقعات میں انکی وجہ سے
والدین کی سبکی ہوتی ہے کہ وہ کسی غیر محرم سے تعلق رکھے ہوئے تھیں۔یہاں
والدین اپنی نااہلی کی بجائے انکی آوارگی کو زیادہ نشانہ بناتے ہیں حالانکہ
اسلام کی تعلیمات کی رو سے اگر وہ اپنی لڑکی کی شادی یا نکاح کم عمری میں
مناسب رشتہ گھرآنے پر کر دیں تو انکی عزت قائم رہے مگر یہاں بھی اکثر
والدین ضرورت سے زیادہ چھان بین کی وجہ سے اچھے رشتہ کو ہاتھ سے دھو بیٹھتے
ہیں اور پھر ساری زندگی کے لئے وہ اپنی اولاد کے سامنے اور بچے انکے سامنے
ناقابل اعتبار اور وہ سنگدل تصور ہو تے ہیں۔ اگرچہ جوڑے آسمانوں پر بنتے
ہیں مگر کچھ ہم انسانوں کے بھی ہاتھ میں ہوتا ہے کہ ہم اپنی سعی کر لیں۔اگر
بچے اپنی پسند کا اظہار کر دیں یا والدین تک پسندیدگی آجائے تو مذکورہ آیت
کے حکم کے لحاظ سے انکا نکاح کر دینا چاہیے کہ ہمارے دین میں پسند کی اجازت
ہے اس سلسلے میں والدین کو بالخصوص کھلے ذہن کے ساتھ تسلیم کرنا چاہیے ،یوں
بھی نکاح کے لئے پسندیدگی اتنا برا عمل نہیں ہے ،جتنا بغیر نکاح کے پارکوں
میں ملنا اور گھنٹوں موبائل کالز پر وقت کا گذارنا ہے جس کی بابت جب بات
والدین تک پہنچتی ہے تو پھر انکو لوگوں سے منہ تک چھپانا پڑتا ہے کہ اُنکی
اولاد ایسے غیر اخلاقی فعل میں ملوث ہے اور پھر کچھ نا عاقبت اندیش والدین
میں سے کوئی ایک(والد/والدہ) اپنے بچوں کی حرکات کی پردہ پوشی کر کے مزید
شہ دیتے ہیں جس سے وہ مزید برائی کی دلدل میں بھی پھنستے چلے جاتے ہیں اور
جب ایسے معاملات سامنے آتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ اُنکی تربیت میں ایسی کمی
کیوں رہ گئی ہے۔
نکاح کے حوالے سے بے شمار احادیت بھی ہمیں ملتی ہیں جو کہ اس کی اہمیت کو
مزید تقویت بخشتا ہے اورپسند کی شادی کرنے والوں کے لئے بھی اجر وثواب ہے
کہ وہ ایک ایسا عمل کرنے جا رہے ہوتے ہیں جو کہ قرآن وحدیث کی رو سے بھی
اچھا عمل تصور ہوتا ہے کیونکہ اس سے مرد و عورت بے شمار گناہوں سے بچ سکتے
ہیں۔مگر ہمارے معاشرے میں اچھے اور نیک عمل کرنے والوں کی راہ میں بہت
زیادہ رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں مگر بُرائی کرنے والوں کے لئے خاطرخواہ سزا
نہیں ہوتی ہے اگر ہو بھی تو بھی اُس کا دیا جانا دوسروں کے لئے مثال نہیں
بن پاتا ہے جس کی وجہ سے برائی روز بروز عام ہوتی جا رہی ہے اور اچھائی کا
فقدان ہوتا جا رہا ہے۔
’’جو کوئی نکاح کی طاقت رکھتا ہو وہ نکاح کرلے کیوں کہ نکاح پرائی عورت کو
دیکھنے سے نگاہ کو نیچا کر دیتا ہے اور حرام کاری سے بچاتا ہے، البتہ جس
میں قوت نہ ہو تو وہ روزہ رکھے کیوں کہ روزہ رکھنے سے شہوت کم ہو جاتی
ہے۔(بخاری کتاب النکاح)
اورزنا کے قریب نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی ہے اور بری راہ ہے۔)سورہ اسراء
:آیت 32 (
علامہ حصکفی کے مطابق’’ کوئی عبادت ایسی نہیں جو حضرت آدم علیہ السلام کے
زمانے سے لے کر آج تک مشروع ہو اور جنت میں بھی باقی رہے سوائے نکاح
اورایمان کے‘‘ (درمختارکتاب النکاح)
حضرت خنساء بنت خدام انصاریہ کے حوالے سے ایک واقعہ بخاری کتاب النکاح میں
ملتا ہے ۔وہ فرماتی ہیں کہ میرے والد نے ایک جگہ نکاح کر دیا اورمیں ثیبہ
تھی اور مجھے وہ نکاح منظور نہ تھا تو میں رسول ﷺ سے اس کا ذکر کیا، تو آپﷺ
نے میرا نکاح فسخ کردیا۔پسند کی شادی کے حوالے سے یہ واقعہ بہت اہمیت کا
حامل ہے اور ہماری نوجوان نسل کے لئے بھی اس میں ایک پیغام پوشیدہ ہے کہ
اگروہ سمجھتے ہیں کہ اُنکا شریک حیات اس قابل نہیں ہے کہ وہ زندگی اُس کے
ساتھ رہ کر مزید پریشانی کا شکار رہیں تو وہ اس رشتہ سے چھٹکارہ حاصل کر
سکتی ہیں اور اپنی من پسند شخص سے شادی کر سکتی ہے ۔ اس حوالے سے ہمارے
علماء کرام نے آج تک کوئی خاص ہدایات اپنے پیرو کاروں تک نہیں دی ہیں جس کی
وجہ سے آج کی نوجوان نسل تذبذب کا شکار ہے کہ وہ کہاں جائیں ۔ایک طرف اُنکے
اپنے والدین ہیں جن کی بدولت انکا جنم ہوا ہے تو دوسری طرف انکی اپنی پسند
ہے۔ہمارے دین نے زندگی کے ہر معاملے کا حل بیان کیا ہوا ہے مگر ہم لوگ بس
دوسروں کی طنزیہ باتوں کی وجہ سے یا اپنی انا کی وجہ سے اسلام کی حقیقی
تعلیمات پر عمل کرنے سے گریزاں ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے: رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ ثیبہ عورت
کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور نہ باکرہ کا بغیر اس کی اجازت
کے، صحابہ رضی اﷲ عنہم نے پوچھا یا رسول اﷲ!باکرہ کی اجازت کس طرح معلوم ہو
سکتی ہے،فرمایا کہ اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت ہے۔
اور مردوں کو عورتوں پر فضلیت ہے۔(سورہ بقرہ:228)
بہت سے مرد حضرات قرآن کی مذکورہ بالا آیت کی بنا پر سمجھتے ہیں کہ وہ عورت
پر حکمر انی کر سکتے ہیں اور انکی من مانی خواتین پر چل سکتی ہے اور شادی
بیاہ کے معاملات ہوں یا زمین جائیداد کے لوگ اکثر اسی وجہ سے انکا حق دینے
سے انکاری ہو جاتے ہیں۔اگرچہ مذکورہ آیت کی رو سے لڑکی کا والد سرپرست ہونے
کی وجہ سے یہ حق رکھتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اس کا نکاح کر سکے مگر یہاں
یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ وہ اس معاملے میں کہیں زیادتی نہ کرلیں اور
روز محشر پھر انکو اپنے عمل کا جوابدہ ہونا پڑے۔اگرچہ والدین سوچ سمجھ کر
اور دیکھ بھال کر جیون ساتھی منتخب کرتے ہیں مگر بسااوقات اُن سے بھی
اندازے کی غلطی ہو ہی جاتی ہے جس کا خمیازہ اولاد کو تاحیات بھگتنا پڑتا
ہے۔یہاں یہ بات میں وضاحت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ پسند کی شادی میں
والدین کی رضامندی شامل ہونی چاہیے اور بالخصوص والدجو کہ بیٹیوں سے بے پنا
ہ پیار رکھتے ہیں اس معاملے میں اُنکی خوشی کا احترام کریں ۔اگرچہ مذکورہ
آیت والدین بالخصوص والد جو کہ مرد ہونے کے ناطے زمانہ شناس ہوتا ہے اپنی
بیٹی کے احساسات و جذبات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرے۔کیونکہ اس حوالے سے بھی
روزمحشر ہوگی کہ اُس نے اپنے اہل وعیال کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا تھا ۔اس
لئے اگرباپ تک بیٹی یا بیٹے کی پسند پہنچ جائے تو اُنکی حوصلہ شکنی کی
بجائے اسلام کے قوانین کے مطابق عمل درآمد کا سوچنا چاہیے۔
وٹے سٹے کی شادی، ونی اور کاری کی جانے والی اکثریت لڑکیوں کی ترجیح پسند
کی شادی ہی ہوتی ہے اور پاکستان میں پسند کی شادی کا رجحان وقت کے ساتھ روز
بروز بڑھتاجا رہا ہے جو کہ ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کے معاملات میں بے
جا ضد ،انا،خاندان،دولت ، اوردین اسلام کی حقیقی تعلیمات سے دوری ظاہر کرتا
ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل پسند کی شادی کے لئے عدالت سے رجوع کرتے ہیں جس
کی وجہ اُنکے والدین کو معاشرے میں سرجھکا کر رہنا پڑتا ہے ۔بہت سے لوگ
پسند کی شادی کو آوارگی کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں ۔جبکہ دوسری طرف والدین
آج بھی یہی سوچتے ہیں کہ اُن سے زیادہ بہتر فیصلے کوئی اور نہیں کر سکتا ہے
۔اکثریت والدین کی یہی سوچ ہی بسااوقات اُنکی اپنی اولاد کی خوشیوں کوان سے
دور کر دیتی ہے اور انکے غلط فیصلوں کی وجہ سے بچے ساری زندگی پریشانی کا
شکار رہتے ہیں ۔بہت حد تک والدین اپنے بچوں کا بہتر ہی سوچتے ہیں مگر یہاں
والدین کو اس بات کا بھی احساس کرنا چاہیے کہ اگر بچے اپنے مانی کرنا چاہ
رہے ہیں تو وہ انکی خوشی میں شامل ہوں اور انکے مستقبل کے لئے دعا گورہیں
تووالدین کے ساتھ اولاد بھی اپنی زندگی اچھے انداز سے بسر کر سکتی ہے اور
پسند کی شادی کے لئے عدالت سے رجوع کرنے جیسے واقعات میں کمی آسکتی ہے
ابن جوزی نے کتاب النساء میں کہا اُس آدمی کے لئے مستحب ہے جو اپنی بیٹی کی
شادی کا ارادہ کرے کہ وہ اس کے لئے اچھی شکل و صورت والا نوجوان دیکھے اور
اسکی شادی بدصورت آدمی سے نہ کرائے۔یہاں لڑکی کے لئے عمدہ شریک حیات کے لئے
بات کی گئی ہے کہ وہ ہر لحاظ سے اچھا ہو۔تاکہ وہ ہنسی خوشی اپنی عائلی
زندگی کو گذار سکے۔
اب یہاں بات والدین پر آتی ہے کہ وہ کس بنیاد پر اس کے لئے ہم سفر کی تلاش
کرتے ہیں اور کیسے شخص کو جیون ساتھی کے طور پر منتخب کرتے ہیں۔یہاں اسلام
کی تعلیمات کے مطابق لڑکی کی منشاء کو بھی دیکھنا چاہیے اگر وہ کسی بھی عمل
سے یہ والدین پر ظاہر کر دیتی ہے کہ وہ کسی خاص شخص کے ساتھ رہنے کے لئے
ذہنی طور پر آمادہ ہو چکی ہے تو پھر والدین کو بھی اسکی خواہش کا احترام
کرنا چاہیے اور من پسند شخص سے شادی کرا دینی چاہیے۔اس میں برا مان لینے یا
اپنی بیٹی کی پسند کو گناہ کبیر ہ نہیں گرداننا چاہیے کہ اُس نے ایسا سوچ
ہی کیسے لیا کہ وہ اپنے والدین کی مرضی کے خلاف پسندیدہ شخص کے ساتھ نکاح
کی خواہشمند ہے۔
اکثر ایسے ہی حالات و واقعات کی وجہ سے ہی نوجوان نسل کورٹ میرج کی طرف
مائل ہو رہی ہے کہ لڑکے یا لڑکی کے جانب کے والدین میں سے کوئی ایک یا
دونوں ہی پسند کی شادی کے مخالف ہو جاتے ہیں۔پھر بات قتل وغارت تک پہنچ
جاتی ہے کہ کوئی ہمارے بیٹی کے ساتھ شادی کا سوچ ہی کیوں رہا ہے۔اکثر
واقعات میں ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ والدین جان بوجھ کر اپنے بیٹی کے
لئے آنے والے رشتے کو اگر رد نہیں کر سکتے ہیں تو پھر کچھ ایسا طرزعمل لڑکے
والوں کے ساتھ اختیارکرلیتے ہیں کہ وہ پھر دوبارہ سے رشتے کی بات کرنے لڑکی
کے ہاں جانے سے ہی انکاری ہوجاتے ہیں کہ وہاں خوب بے عزت کر دیاجاتا ہے یا
کھری کھری سنا دی جاتی ہیں اور پھر دیکھنے میں آیاہے کہ ایسے میں لڑکا اور
لڑکی کورٹ میرج کر لیتے ہیں اور والدین کہتے نظر آتے ہیں کہ’’ ناک کٹ گئی
ہے بڑی ہی ناخلف اولاد ہے جس نے والدین کی عزت کی لاج نہیں رکھی ہے۔‘‘
دوسری طرف کورٹ میرج کرنے والوں کو بھی اکثر خاندان کے چند افراد کے
اُکسانے پر یا غیرت کے نام پر والدین یا بھائی وغیرہ قتل کر دیتے ہیں اور
پھر وہ اپنی ساری زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گذارتے ہیں۔جبکہ نکاح کرنا
تو گناہ نہیں ہے مگر ہم لوگ اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے دوسروں پر
اُنگلی اُٹھانے کو فخر سمجھتے ہیں ۔بات پسند کی شادی ہویا نہ ہو ہمیں اپنے
تمام تر اعمال کو اسلام کے قوانین کے مطابق سر انجام دینے کی کوشش کرنی
چاہیے اور اپنی اولاد کو بھی اس حوالے سے سمجھانا چاہیے اور رعائیت بھی
دینی چاہیے تاکہ کل کلاں کو وہ اور ہم اﷲ کے سامنے سرخرو ہو سکیں۔ |
|