معاشرے کا المیہ اور حقیقت

چاندنی جوکہ خواجہ سراء کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہے۔جب وہ پیدا ہوئی تواس کے ما ں باپ ا سے رات کے اندھیرے میں خواجہ سراؤ ں کے پاس پرورش پانے کیلئے چھوڑ آئے۔صرف اس لئے کہ لوگوں کو یہ پتاچل جاتا کہ ان کہ گھر ایک خواجہ سراء کی پیدائش ہوئی ہے تو وہ لوگوں کی طعنہ زنی کا شکار ہو جاتے ۔اس طرح چاندنی کی زندگی دکھوں سے بھر گئی ۔وہ اپنے ماں باپ کے پیا ر سے محروم ہو گئی اور معاشرے کی طعنہ زنی اور نظروں کا شکار ہوتی گئی ۔لیکن چاندنی اپنی زندگی کے دکھوں سے نہیں ہا ری اور اس نے ہر طعنہ زنی کو برداشت کرتے ہوئے تعلیم حاصل کی تاکہ وہ رزقِ حلال کما کر عزتِ نفس سے بھر پور زندگی بسر کر سکے۔

ہماری عدالتوں نے ایک خاص کوٹہ خواجہ سراؤں کیلئے مختص کر رکھا ہے مگر افسوس یہ کہ اس پرکبھی کسی نے عمل ہو تا ہوا نہ دیکھا ۔چاندنی نے بہت جگہ ملازمت تلاش کرنے کی کوشش کی مگر وہ جہا ں جاتی اسے انکا ر کا سامناہی کرناپڑتا کیونکہ ایسا کوئی نہیں جو ایک خواجہ سراء کو ملازمت دے یا ان کے ساتھ ملنا جلنا پسند کرے۔چاندنی نے تو امید ہا ر کر گانا بجانا کرکے اپنا روزگار بنا لیا۔

مگر سوال یہ ہے کہ ٓاخر کب تک لوگ محض معاشرے میں بے عزتی کے ڈر سے اپنی اولاد کو بے یارومددگار چھوڑ دیں گے؟

آخر کب ہمارے حکمران اِن خواجہ سراؤں کی مشکالات کو کم کرنے کے بارے میں سوچیں گے؟

آخر کب تک ہر خواجہ سراء کو ناامید ہوکربھیک مانگنا ہو گی؟

پاکستان میں اقلیتوں کو عام طور پرویسے بھی بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور خاص طور پر تب جب وہ اقلیت خواجہ سراؤں کی ہو ۔

خواجہ سراء وہ اقلیت ہیں جنہیں ہمارے معاشرے میں نچلے درجے پررکھا جاتا ہے اورانھیں بری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔یہ ہم لوگ ہیں جوان کے ساتھ نارواسلوک کرتے ہیں۔جو ہمارے حکمران ہیں وہ ان کی فلاح کے لئے کچھ بھی نہیں کرتے اور اگر کربھی لیں تو اس پر عمل درآمد نہیں کرتے۔

مغل بادشاہ رنگیلاکے دور میں خواجہ سراؤں کو بہت حقوق حاصل تھے۔انھیں اچھے عہدوں پر فائز کیا جاتا تھاپر اب اس دور میں ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملتا۔یہاں تو مشکل سے ہی خواجہ سراء کو کسی ملازمت پر فائز کیا جاتاہے۔کچھ سال پہلے عدالت نے ایک قانون پاس کیا تھاجس میں خواجہ سراؤں کو شہری ہونے کا حق دیا گیا تھااور ان کے شناختی کارڈ بنوائے تھے۔جس کی بناپر ان کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل تھا۔مگر جب اس پرقانون پر عمل کی بات آئی تو ایسا کچھ نظر نہ آیا۔پاکستان بھرمیں خواجہ سراؤں کی ایک بہت بڑی تعداد رہائش پذیر ہے۔خواجہ سراؤں کے بارے میں ہمارا معاشرہ مختلف رائے رکھتاہے۔کچھ لوگ خواجہ سراؤں کو بدکردار نظر سے دیکھتے ہیں۔خاص کرتب جب وہ خواجہ سراؤں کو تھیڑیا شادیوں میں رقص کرتے دیکھتے ہیں۔لیکن لوگ کیا جانے خواجہ سراء ایسا کیوں کرتے نظر آتے ہیں۔
میرے لفظوں سے نہ کرمیرے کردار کا فیصلہ
تیراوجود مٹ جائے گا میری حقیقت ڈھونڈتے

خواجہ سراء اگر شادیوں میں رقص کریں، گانا گائیں،موسیقی کے آلات بجائیں تو یہ ضروری نہیں کہ وہ بدکردارہیں۔ہم لوگوں کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ ہم کسی کے کردار پر انگلی اٹھا سکیں۔خواجہ سراؤں کے بارے میں کافی فرضی کہانیاں زباں زدوخاص وعام ہیں۔ایک عام خیا ل یہ ہے کہ خواجہ سراؤں کی نماز جنازہ نہیں ہوتی۔رات کے اندھیرے میں کچھ خواجہ سراء مرنے والے کو قبرستان میں دفن کرآتے ہیں اور ان کے کفن دفن کا انتظام نہیں ہوتا۔اور یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر خواجہ سراء اپنے آخری ایام میں شدید علالت میں ہوتواس کے رشتہ داروں کو آگاہ کر دیا جاتا ہے جو اس کے مرنے جانے کی صورت میں خاموشی سے لاش لے جا کر اپنے علاقے میں دفن کردیتے ہیں۔

مگر تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ خواجہ سراؤں کی نمازِجنازہ اور تدفین مروجہ طریقے سے ہوتی ہے۔اِن لوگوں کے اپنے محلے داروں سے قریبی تعلقات ہوتے ہیں اور ان کے اہل محلہ ہی ان کی تدفین کے امور سر انجام دیتے ہیں۔خواجہ سراؤں کے بارے میں ایسے بہت سے خیا لات کیے جا تے ہیں جنہیں عام فہم لوگ حقیقت مان کر اِسے اپنی آنے والی نسلوں تک پہنچا دیتے ہیں۔مگر حقیقت میں یہ لوگ پیار،محبت اور اپنائیت کے مستحق ہو تے ہیں۔
Hareem Khan
About the Author: Hareem Khan Read More Articles by Hareem Khan: 2 Articles with 1140 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.