خالق اور بندئے کے تعلق کی بنیاد۔خیر البشرﷺ
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جہاں حساب کتاب روا
رکھا جانا اُن رشتوں کے تقدس کی پاسداری کے مقام سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔ اِن
رشتوں میں ایک رشتہ تو ماں کا ہے اور ایک باپ کا ہے۔لیکن سب سے اعلیٰ و
ارفع تعلق تو جو انسان کا ہے وہ ہے اپنے رب کے ساتھ۔ یعنی خالق اور مخلوق
کا رشتہ۔ ماں اور باپ بھی انسان کی تخلیق کے مراحل کا ذریعہ بنے ہوتے ہیں
اِس لیے ماں کے اندر رب پاک کی اپنی مخلوق سے محبت کے مقابلے میں ستر حصے
سے بھئی کم تر درجے کی محبت ہوتی ہے۔ یوں انسان کی زندگی میں جو ایک اہم
تعلق بنتا ہے وہ اُس کے رب، اُسکی ماں اور اُسکے باپ کا ہے۔ لیکن ایک تعلق
جو اعلیٰ ترین ہے جس تعلق کی بناء پر رب شناسی ہوئی جس ہستی کی وجہ سے
رحمتوں کا نزول ہوتا ہے اُس ہستی کے بغیر نہ تو ایمان مکمل ہوتا ہے اور نہ
ہی انسان کی تخلیق کے مقاصد پورئے ہو پاتے ہیں۔ وہ ہستی جناب نبی پاکﷺ کی
ہے۔ رب پاک اور نبی پاک ﷺ سے تعلق کی آشنائی کی بدولت ہی ماں اور باپ کی
عظمت و توقیر تک رسائی ہوتی ہے۔ یوں یہ سلسلہ آگے چلتا ہے تو انسان کی
زندگی میں رہبر ہستی اُسکے اُستاد کی ہوتی ہے۔ حدیث نبوی ﷺ کے مطابق انسان
کے تین باپ ہیں ۔ اُسکا باپ، اُسکا سسر اور اُسکا اُستاد، اور اُستاد کی
عظمت سب سے زیادہ ہے۔ کیونکہ اُستاد علم سکھاتا ہے اور علم نور ہے نور سے
انسان کو سرفراز فرماتا ہے کہ اُسے شر اور خیر کے فرق سے آگاہی ہوتی ہے۔اِن
رشتوں کے ساتھ ساتھ بہن بھائی،بیٹا بیٹی ودیگر رشتے بھی اہمیت کے حامل
ہیں۔اور ان رشتوں کا اپنا ایک مقام ہے لیکن اِن رشتوں میں محبت کی چاہت بعد
ازاں وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔لیکن ماں باپ خالق
اور نبی پاکﷺ اور اُستاد یہ وہ رشتے ہیں جن کا انسان سے وابستہ رہنا کسی
مادی معاملات کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اِن رشتوں کے تقدس و حرمت کا پاس
رکھنا مخلوق کے لیے ایمان کی حد تک ضروری ہے۔دُنیا میں اپنی راہ کو درست
سمت رکھنے کے لیے ایک رہبر رہنماء کی ضرورت بھی محسوس ہوتی ہے۔ جس کو مُرشد
کو نام دیا گیا ہے۔ مرُشد انسان کی باطنی کیفیات کو رب کی رضا سے ہم آہنگ
کرکے اس طرح کر دیتا ہے جیسے دھوبی کپڑئے کو دھو کر صاف کر دیتا ہے۔ مرشد
کا کام من کی صفائی ہوتا ہے ۔ انسان جو مختلف مواقعوں پر سیدھی راہ سے ہٹ
کر مادیت کی ہوس میں گم ہونے لگتا ہے تو اُس وقت اُس کا مرُشد اُسے عشق
حقیقی سے آشنائی کرواتا ہے اور اُس کا اِس دنیا میں آنے کا جو مقصد ہوتا ہے
اُس سے اُسے روشناس کرواتا ہے ۔ اُس کو انسان اور حیوان میں فرق جو ہوتا ہے
اُس فرق سے آگاہی دلواتاہے ۔ دُنیاوی لالچ سے دور مادہ پرسی کی ہوس سے نجات
حاصل ہونے کے سبب انسان کو اُس کے اصل مالک اپنے رب کے قر ب کا احسا س ہونے
لگتا ہے ۔ اور پھر بندہ فنافی الا شیخ، فنا فی الار سول وﷺ کے مدارج طے
کرتا ہوا اپنے خالق کو پالیتا ہے۔ یوں ماں باپ اُستاد، مرشد، نبی پاکﷺ اور
خالق یہ وہ رشتے ہیں جن کے ساتھ انسان کا تعلق لازوال اہمیت اختیار کر جاتا
ہے۔ اِن رشتوں کا سبب محبت ہی محبت ہے۔انسانی زندگی میں دوستی کا رشتہ بھی
بہت اہم ہوتا ہے اور تاریخ میں دوستی کے سچے رشتے کی لازوال مثالیں موجود
ہیں۔اﷲ پاک نے تو اپنے بندئے کو اپنا نائب بنایا ہے اور اپنے بندئے کے ساتھ
اُس کی محبت کا یہ عالم کہ ماں کی محبتوں کو ستر گنا سے بھی بڑھا دیا جائے
تو رب کی محبت کے سامنے ماں کی محبت ہیچ ہے۔خالق خود لافانی ہے اور اُس سے
منسلک تعلق بھی لافانی ہے۔ یقینی طور خالق اور بندئے کا تعلق سراپاء محبت
ہے۔ بندگی کا حق ادا کرکے بندہ ایسے مدارج طے کر لیتا ہے کہ خالق کے ہاں
اُس کی پذیرائی کا عالم کچھ اِس طرح سے ہوجاتا ہے کہ خالق پھر اپنے بندئے
کی آنکھ بن جاتا ہے جس سے وہ بندہ دیکھتا ہے خالق اپنے بندئے کی طرف دوڑ کر
آتا ہے۔خالق اپنے بندئے سے پھر اُس کی رضا پوچھتا ہے۔تمام تر دُنیاوی و
اُخروی رشتوں میں اعلیٰ و ارفعٰ تعلق بندئے اور رب کا ہے اور اِس تعلق میں
ایک اہم شخصیت بھی ہیں وہ نبی پاکﷺ کی ہے۔ مومن بھی نبی پاکﷺ کا محب ہے اور
اﷲ پاک بھی نبی پاکﷺ کا محب ہونے کا دعوئے دار ہے۔اُس ہستی ﷺکی بزرگی کا
کیا عالم ہوگا کہ رب پاک نے کائنات کے ایک ایک ذرئے کو پیدا ہی صرف اِس لیے
کیا کہ نبی پاکﷺ کے ظہور کے طفیل۔ رب پاک تک پہنچے کے لیے کسی راکٹ سائنس
کی کوئی ضرورت نہیں۔ رب تو ہر ہر بندئے کے دل میں آباد ہے اُس کی شہ رگ سے
زیادہ قریب ہے۔ بندئے کو اپنی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب کرنے کی آشنائی دینا
والا رب اپنی ہر ہر تخلیق کونبی پاکﷺ کا وسیلہ گردانتا ہے۔ اﷲ پاک کو ماننے
والے ہر مذہب کے لوگ اِس دنیا میں موجود ہیں۔ رب کی توحید کا پرچار
کرنیوالے تو عیسائی ، یہودی بلکہ ہندو بھی ہیں۔ سکھوں کے ہاں توحید کا جو
تصور ہے وہ بھی کمال ہے ۔ لیکن اِس کے باوجود اگر اِن مذاہب کے ماننے والوں
کو اﷲ پاک مومن نہیں مانتا تو کیا کمی ہے کیا وہ توحید پرست نہیں ہیں۔ فرق
تو صرف اُس ہستیﷺ پہ ایمان لانے کا ہے جس کی وجہ سے خالق نے اپنا آپ ظاہر
کیا۔ فرق تو صرف اُس عظیم شخصیت نبی ﷺ کا ہے جن کو تخلیق آدم سے بھی پہلے
نبوت پہ سرفراز فرمایا۔فرق تو صرف اُس عظیم رہنماء نبی پاک ﷺ کی وجہ سے ہی
ہے کہ جن کو صاحب قران کا افتخار بخشا گیا۔ جس قران کو ہاتھ میں پکڑ رب کی
وحدانیت کا اعلان کیا جاتا ہے جس قران کو ضابطہ حیات مانا جاتا ہے اُس کے
ایک ایک ہر کی گواہی دینے والی ذات صرف ایک ہے وہ ہے نبی پاکﷺ کی۔ اﷲ پاک
نے جو کچھ جبرائیل امینؑ کے ذرئیے سے وحی کوبھیجا اور جس کو نبی پاکﷺنے
فرمادیا کہ میرئے صحابہ اکرامؓ یہ جو بات میں کہہ رہا ہوں یہ قران ہے تو
اُسے قران قرار دئے دیا گیا اور جس بات کو نبی پاکﷺ نے فرمایادیا کہ میرئے
صحابہ یہ بات جو ہے یہ حدیث ہے ۔خالق نے اپنی عطاؤں کی بارش اپنے بندوں پر
کر نے کے لیے اپنا ہی محبوب دوست چُنا۔اپنے ہی محبوب ترین بندئے کو ہی تمام
جہانوں کے لیے رحمت بنایا ۔ اِس لیے نبی پاکﷺ کی محبت کے بغیر نہ تو ایمان
کی سلامتی ہے اور نہ انسان ہونے کا بھرم رکھا جاسکتا ہے۔ خالق کی عطا سے
نبی پاکﷺ کو سب کچھ ملا اور نبی پاکﷺ نے اُس عطاء کو اپنی امُت میں اپنے
خالق کے حکم سے تقسیم فرمادیا۔ |
|