یکم مئی مزدوروں کا عالمی دن کے حوالے سے
جانا پہچانا جاتا ہے لیکن ہمارے لیے یہ ایک چھٹی سے زیادہ اہم نہیں۔ ہم لوگ
اس دن اپنی فیملی کے ساتھ موج مستی کرتے ہیں۔مزدور پر کیا گزررہی ہے یا اس
کا بسراوقات کیسے ہورہا ہے ان سے ہمیں یا ہمارے حکمرانوں کو کوئی فکر نہیں۔
مزدور کی زندگی میں کیسے کیسے نشیب و فراز آتے ہیں یہ وہ جانتا ہے یا اس کا
خدا۔یکم مئی کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں محنت کشوں(مزدوروں ) کا عالمی دن
منایا جاتا ہے۔ ہر سطح پر مزدوروں کے حق میں آواز بلند کی جاتی ہے۔وہ لوگ
جو ایک منٹ کی گرمی برداشت نہیں کرسکتے وہ مزدور کے حق میں ایسی باتیں کرتے
ہیں جیسے وہ خود ساری زندگی مزدوری کرتے رہے ہوں حالانکہ انہیں مزدوری کا
الف ،ب کا بھی نہیں پتا۔ایسے لوگوں کو کیا معلوم مزدور کی زندگی کس طرح
گزرتی ہے۔؟
آج کا مزدور ایک چکی میں نہیں بلکہ دوچکی میں پس رہا ہے۔ اس کا پسینہ ایسے
جراثیم سے پاک ہوتا ہے جیسے منرل واٹر۔آج کے دور میں جتنی زیادتی مزدور
طبقے سے ہورہی اتنی کسی کے ساتھ نہیں۔مزدور کی زندگی ایک گدھے کے برابرہے۔
ایک جانور کی طرح مزدور سے کام لیا جارہا ہے۔ اب تو نوبت یہاں تک آگئی کہ
بہت سی فیکٹریوں میں دن میں 16-16 گھنٹے کام لیا جاتاہے اور تنخواہ وہی آٹھ
گھنٹوں کی دی جارہی ہے۔اوورٹائم کا توتصوربھی نہیں کیا جاسکتا۔ مزدور کی
ملازمت کا فیصلہ مالک کی صوابدیدی پر ہوتا۔ وہ جس کو چاہتا ہے ملازمت پر
رکھتا اور جس کو چاہتا ملازمت سے ہٹا دیتا ہے۔ ہفتے میں مسلسل سات دن کام
کرنا پڑتا ہے اگر چھٹی کرنی ہے تو تنخواہ میں سے کٹوتی ہوتی ہے۔ چھٹی نا م
کی کوئی گنجائش نہیں ۔
حکومت نے مزدور کی تنخواہ کم ازکم تیرہ ہزار روپے مقررکی ہوئی ہے مگر آج کل
اکثر صنعتی اداروں میں ورکر زکو ٹھیکہ داری نظام کے تحت دس ہزار روپے
تنخواہ دی جا رہی ہے۔ اوپر کا تین ہزار ٹھیکہ دار اور فیکٹریوں کے
کرتادھرتا مل کر ہضم کررہے ہیں۔مزدور کے حالات کو کرسی پربیٹھنے والے نہیں
سمجھ سکتے۔ مزدوری کرنا کوئی جرم نہیں مگر مزدور کا حق مارنا بہت بڑا جرم
ہے۔ مزدور میں وہ ہنرمند ہاتھ شامل ہیں جنہوں نے محلوں سے لیکر مسجدیں تک
بنائیں۔ جنہوں نے سکول سے لیکر سٹیڈیم تک بنائے۔ مزدور کا دوسرا نام محنت
کش ہے۔ محنت میں ہی برکت ہے۔ محنت میں ہی عظمت ہے۔ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے
سے بہتر ہے کہ انسان مزدوری کرکے اپنا اور اپنے گھروالوں کا پیٹ پال لے۔
جہاں ایک طرف بیروزگاری نے اپنے جھنڈے گاڑھے ہوئے ہیں ادھر دوسری طرف بجلی
کے بحران نے بہت سے صنعتوں کو تالے لگوادیے ہیں۔ جس کی وجہ سے بیروزگاری
میں مزیداضافہ ہوگیا۔ یہی نہیں ڈیلی ویجز نے مزدوروں کے چولھے بجھانے میں
کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی۔ ٹھیکدار اپنے من پسندافراد کو یاجوکھلا پلا(مرچ
مونگرالگا) دے اس کو ڈیوٹی پر رکھ لیا اور باقیوں کی چھٹی کرادی جاتی ہے۔
کہاں گئے وہ لوگ جو مزدوروں کے حق کے لیے ہرسال یکم مئی کو اسمبلیوں، جلسے
، جلوسوں اور ریلیوں میں بلند وبانگ دعوے کرتے ہیں۔کیا ایسے لوگوں کو یہ
حقوق ایک دن کے لیے یاد رہتے ہیں۔ وزیراعظم سے لیکر وزرا تک، ایم این اے
لیکر یونین چئیرمین تک اور مزدور یونین ، این جی اوز اس دن کی نوعیت سے
پروگرام مرتب کرتے ہیں اور پھر ان کے حقوق کے لیے ایسی تقریر کرتے ہیں کہ
مزدور لوگ تالیاں بجا بجا کر اپنے ہاتھ تھکا لیتا ہے۔
پچھلے سال یکم مئی کو میں نے خود مختلف فیکٹریوں، بھٹوں اور ہوٹلوں کی وزٹ
کی جہاں پر روزمرہ کی طرح کام جاری تھا۔ کسی مزدور کو کوئی رعایت نہیں تھی۔
نہ کوئی اوورٹائم تھا اور نہ کوئی اضافی چارج۔ جب ان مزدوروں سے پوچھا گیا
کہ آج تو انٹرنیشنل چھٹی اور تمھارا عالمی دن ہے تو ایک ہی جواب ملا کہ ہم
ڈیلی ویجز پر ہیں اگر کام نہیں کریں گے تو گھر کا چولھا کیسے چلے گا؟ادھر
بڑے لوگوں کو ہی نہیں بلکہ بچوں کو بھی کام کرتے دیکھاجو سراسر چائلڈ لیبر
کی خلاف ورزی کررہے تھے۔
ایک طرف چائلڈ لیبر کا نعرہ بلند کیا ہوا اور دوسری طرف کسی بھی صنعتی یونٹ
میں جاکر دیکھ لو وہاں پر بچوں کی بھرمار نظر آئی گی۔ چائلڈ لیبر کا قانون
صرف نام کے لیے ہے پر اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر قانون پر
عملد درآمد کیا جائے تو اس کا سارا کا سارا نقصان امرا ء کا ہے۔ بچے آج بھی
اسی طرح فیکٹریوں، بھٹوں، ہوٹلو ں اور بڑی بڑی کوٹھیوں میں کام کررہے ہیں
مگر کسی کو ان کا خیال نہیں کیونکہ بچے کم تنخواہ پر کام کرتے ہیں جس
کافائدہ امیرلوگوں کوہوتا ہے۔ امیروں کو کوئی فرق نہیں پڑھتا کہ غریب کا
بچہ سکول میں پڑھے یانہ پڑھے مگر ان کے اپنے بچے تو بڑے بڑے سکولوں ،
کالجوں اور یونیورسٹیوں اور بیرون ممالک میں پڑھ رہے ہیں۔
کب غریبوں کی سنی جائے گی؟ کب امیر اور غریب کا بچہ ایک جیسی تعلیم حاصل
کرسکے گا؟ کب محنت کش ،مزدور کو اس کا حق ملے گا؟کب ہمارے حکمران مزدور کی
تنخواہ ان کے اخراجات کے مطابق دیں گے۔ ہے کوئی حکمران، بیوروکریٹ اور
سیاستدان جو ان سوالوں کا جواب دے۔ بس ہمیں معلوم ہے کہ ہرسال ہم یکم مئی
کو مزدور کے نام چھٹی انجوائے کریں گے اور مزدور ہرسال کی طرح بس دووقت کی
روٹی کے لیے دردر ٹھوکریں کھاتا رہے گا۔بقول شاعرہ کے
آج بھی ہے اپنا دن، آج بھی ہیں ہم مجبور
افسروں کی چھٹی ہے کام پر ہیں سب مزدور
|