شگاگو کے محنت کش شہدا کی یاد میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج مزدوروں کا
عالمی دن منایا جا رہا ہے۔یہ دن پاکستان سمیت دنیا بھر کے تقریبا ۸۰ممالک
میں منایا جا رہا ہے۔اس دن کا آغاز تب ہوا جب ۱۸۸۶ میں ہیے مارکیٹ میں ہونے
والے قتل عام کے نتیجے میں شگاگو کے ایک شخص نے پولیس پر ڈائنا مائٹ بم
پھینکا جس کی وجہ ایک عام ہڑتال کے دوران پولیس کی ورکرز پر فائرنگ تھی۔۱۸۹۱
میں سیکنڈ نیشنل کانگرس میٹنگ کے دوران اس دن کو منانے کے لیے مئی ڈے کا
خطاب ملا۔یونائیٹڈ سٹیٹس اور کینیڈا میں لیبر ڈے ستمبر میں منایا جاتا ہے
تاہم زیادہ تر ممالک میں لیبر ڈے مئی میں ہی منایاجاتاہے۔جن میں سے پاکستان
بھی ایک ہے۔یکم مئی کو ملک بھر میں مزدوروں کے لیے جلے جلوس کا انعقاد کیا
جاتا ہے تا کہ ان سے ان کے حقوق میں اظہار یکجہتی کی جا سکے۔مزدوروں کے حق
میں تقریر کی جاتی ہیں۔اس دن سیاست دان مزدوروں کے حق میں بڑے بڑے وعدے
کرتے ہیں جو کہ وعدے کہ وعدے ہی رہتے ہیں۔
پاکستان میں مزدور پالیسی کا آغاز ۱۹۷۲ میں ہوا اور یکم مئی کو قانونی طور
پر مزدور ڈے کا خطاب دے دیا۔ اور اس دن سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں
چھٹی ہوتی ہے۔ آج پاکستان انٹرنیشنل آرگنائزیشن کا ممبر ہے جسکا مقصد
مزدوروں کو معاشی حقوق دینا اور ان کو ان کے حق کے بارے میں آگاہ کرناہے۔
یکم مئی کے آتے ہی بڑے بڑے سیمنار کا انعقاد کیاجاتاہے۔ جس میں سیاست دان
مزدوروں کے شعور کو اجاگر کرنے میں بڑے بڑے لیکچردیتے ہیں۔تمام اینکر اپنے
شوز میں ان کے حقوق کی بات کریں گے۔ ڈاکومینٹری فلم چلے گی اور پھر دن ختم
ہو جائے گا اورسب کچھ بول جائیں گئیں کیونکہ رات گی اور بات گئی۔
اگر لیبر ڈے منانے کا یہی مقصدتھا تو بہت شکریہ کہ آپ نے احساس دلایا کہ آپ
کو لیبر ڈے یاد ہے اورآپ نے لوگو ں کو بھی بتایا کہ آپ انہیں بھولے نہیں
بہت شکریہ۔پاکستان میں تو یہ سب چلتاہے اور اسی کی ہمیں عادت بھی ہونی
چاہیے۔ مگر کیاحقیقت میں لیبر ڈے منانے کا یہی مقصد ہے نہیں ! لیبر ڈے
منانے کا مقصد مزدوروں کے مسائل کو کم کرناہے۔کسی تقریر یا وعدے سے ان کے
مسائل کم نہیں ہونگے۔ ایک ہی گھر میں ایک بچہ لیبر ڈے کی چٹھی منا رہا
ہوتاہے اور اسی گھر میں ایک مزدوراس ہی دن اپنے پیٹ کی خاطر کام کر
رہاہوتاہے اور ہم کہتے ہیں کہ ہم لیبر ڈے منا رہے ہیں اور مزدوروں کے حق
میں بات کر رہیے ہیں۔ زرا سوچئے ان بچوں کے بارے میں جن کے ہاتھوں میں قوم
کا مستقبل تھا مگر اب گر م اینٹیں بنانے میں ، بھٹی میں ، کھیتوں میں اور
مزدوری کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ان لوگوں کے بارے میں سوچئے جو ماسٹر
کی ڈگری لینے کیے باوجوہ نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں اور
نوکری نہیں مل رہی۔ حکومت کی دعوؤں سے ان کا پیٹ نہیں بھرے گا۔اگر حکوت
دعوؤں کی بجائے عملی کام پر توجہ دیں تو ہی مزدوروں کے لیے فائدہ ہو گا۔
اگر مزدور محنت سے کام کرتا ہے تو اس کی محنت رنگ لانی چاہیے کیونکہ دنیا
کی تمام خوبصورتی محنت کے ذریعے ہی وجود میں آتی ہے۔دنیا میں گندم کے خوشے
،کھلکھاتے ہوئے بچے، کارخانوں کی دھواں اگلتی چمنیاں، تجربے اور دانش کی
گہری چھاپ لیے کھیت کی منڈ پر بیٹھا بوڑھایا آنے والی مسرتوں کی آس میں
جھومتے نوجوان مرد اور عورتیں یہ سب محنت کے ہی کرشمے ہیں۔ محنت نیکی ہے۔
محنت سے دنیا میں نئی سوچ،زیادہ وسائل اور نئے امکانات پیدا ہوتے ہیں اور
یہ سب مزدوروں کی ہی بدولت ہے۔
اس لیے حکوت کو چاہیے کہ مزدوروں کے لیے کوئی خاص قانون بنائے جس سے وہ
اپنے مسائل میں کمی پاسکے۔ خالی تقریریں کرنے اور سمینار کرنے سے مزدوروں
کے مسائل کم نہیں ہونگے اور ایسی فارمیلٹیز کی بھی مزدوروں کو کوئی ضرورت
نہیں۔ اور اگر کچھ کرناہے تو ان کے بنائے ہوئے قانون کو بہتر کریں جس میں
رہ کر وہ آسانی سے کام کر سکیں اور اپنی دو وقت کی روٹی کم سکیں۔
ہاں صرف دو وقت کی روٹی اور کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
جاتے ہیں ایک شعر مزدور کے نام۔
اس شہر میں مزدور جیسا دربدر کوئی نہیں
جس نے سب کے گھر بنائے اس کا گھر کوئی نہیں
|