ہمارے یہاں اکثر رسیدوں پر لکھا ہوتا ہے۔ کہ فروخت شدہ سامان واپس نہیں کیا
جائے گا۔ جبکہ پورے مغربی ممالک اور ترقی یافتہ ممالک میں ہر رسید کے نیچے
لکھا ہوتا ہے کہ آپ یہ سامان ایک ہفتے تک واپس کر سکتے ہیں یا تبدیل کر
سکتے ہیں۔
یہ دونوں رویے جب حدیث کی روشنی میں دیکھیں تو ہمیں فوراً معلوم ہو جاتا ہے
کہ مغربی ممالک نے اپنے تمام سسٹم اسلامی سسٹم قرآن و حدیث سے لئے ہوئے ہیں
اور ان کو Adoptکر لیا ہے۔ زندگی گزارنے کا حصہ بنا لیا ہے جبکہ حکم ہمیں
تھا اور ہم نے اس کے برعکس اپنی مرضی کرنے کو اصول بنا لیا ہے اور اور اس
کے رسول ﷺ کی بات نہ ماننے کا تہیہ کر لیا ہے۔
بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ وہ احادیث جو حقوق العباد سے تعلق رکھتی ہیں اور
ہماری زندگیوں کو آسان اور قابل رشک بنا سکتی ہیں۔
ہمارے علما کرام معاملات کی ان باتوں کو اپنے وعظوں کا موضوع ہی نہیں بناتے۔
مجھے یہ حدیث میرے کرایہ دار محمد اشرف صاحب نے سنائی کہ حضور اکرم ﷺ نے
ایک صحابی سے پوچھا کہ آپ نے ایک سال دکان چلا کر بند کیوں کر دی ہے تو اس
نے کہا کہ میں نے آپ ﷺ سے سنا تھا کہ جو دکان دار فروخت شد ہ مال کو واپس
لے لے وہ جنتی ہے ۔ تو میں نے اس لئے یہ دکان کھولی تھی کہ اس طرح میں جنت
کا حق دار ہو جاؤں گا۔ اشرف صاحب نے ایک پاکستانی دکاندار کو اس کی رسید پر
لکھے دے کر کہا کہ آپ تو حدیث کے خلاف عمل کر رہے ہیں اس نے کہا کہ مجھے تو
اس حدیث کا پتہ ہی نہیں۔ اس لئے میں نے اشرف صاحب کو دعوت دی کہ وہ ایسی
احادیث کو لکھ لیا کریں واقعات کے ساتھ تا کہ اس کو میں اپنی کتاب میں شامل
کرلوں گا۔
اب میں اپنا ایک واقعہ سناتا ہوں ۔ کینیڈا میں ہم پاکستان واپس آنے سے پہلے
فائنل شاپنگ کیلئے گئے تو میرے بیٹے نے مجھے آفر کیا کہ میں جیکٹ لے لوں ۔
میں نے ایک جیکٹ پسند کر لی۔ نہ ہی میں نے قیمت دیکھی نہ ہی بیٹے نے اور
کاؤنٹر پر گئے تو پتہ چلا کہ وہ دو سو ڈالر یعنی 17000روپے کی بنتی تھی۔ وہ
خرید کر گھرلے آیا۔ جب ہم سامان پیک کرنے لگے تو قیمت دیکھ کر میں نے اس کو
لینے سے انکار کر دیا کہ اتنی مہنگی جیکٹ لینے کا کیا فائدہ۔ کافی بحث کے
بعد میرے بیٹے نے واپس کرنے پر رضامندی کر دی۔ ہم دوسرے دن سٹور جا کر رسید
دکھا کر واپس کر دی اور ایک 40ڈالر والی جیکٹ خرید لی۔ کاؤنٹر والوں نے کیش
بقایا واپس کر دیا۔ یہ اتنی آسانی اور بغیر بحث کے ہوا کہ ہم حیران رہ گئے۔
مسلمانوں اور غیر مسلموں کے رویوں میں کیا ہی فرق ہے ۔ لیکن فرق صاف ظاہر
ہے۔
کیا یہ ہر دکاندار کے لئے لمحہ فکریہ نہیں کہ ہم مسلمان ہو کر کیسے اخلاق
کے مالک ہیں اور ہمیں یہ بھی فکر نہیں کہ دوسرے، ہم مسلمانوں کے بارے کیا
رائے قائم کریں گے۔
کینیڈا میں خریداروں کے حقوق کے اوپر باقاعدہ قانون سازی کی گئی ہے۔ میں
پورا قانون دینے کی بجائے صرف یہ ریفرنس دے رہا ہوں کہ حکومت انٹرنیٹ پر سب
معلومات دیتی ہے۔
Buying defective goods;.More information about your rights as a consumer
can be found from the Ministry of Government and Consumer Services and
Consumer Protection Ontario.
مسلمان قانون سازی کرنا ہی نہیں چاہتے۔ رہی مذہبی لکھی چیزیں تو ہم انہیں
صرف اخلاقی سمجھتے ہیں، قانونی نہیں ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ان میں سے
زیادہ تر چیزوں کو اخلاقی فرض قرار دیتے ہیں۔ اور اخلاقی فرض اختیاری ہوتا
ہے،کسی کی مرضی ہے کہ اس پر عمل کرے یا نہ کرے۔ جس پر نہ پکڑ کی جاسکتی ہے
اور نہ سزا دی جا سکتی ہے۔ صرف نصیحت کی جا سکتی ہے۔ اور اسے گناہ قرار دے
کر آخرت کی جواب دہی سے ڈرا سکتے ہیں۔ حالانکہ ان فرائض میں سے بہت سے مالی
حقوق اور فرائض ہوتے ہیں جیسے کہ دکاندار اور خریدار، بوڑھے والدین کے حقوق
، جو کہ قانون حقوق ہیں اور لکھے جانے چاہئیں -
مغربی تہذیب کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ انہوں نے لوگوں کے لئے اختیاری
چیزیں نہیں رکھیں بلکہ ان کو قانونی شکل دے کر اس کو انسانی حق بنا دیا ہے
جس کو آپ ڈیمانڈ کر سکتے ہیں ،ہم کہتے ہیں کہ والدین کی برھاپے میں خدمت
فرض ہے مگر یہ اخلاقی فرض بنا دیا گیا ہے قانونی نہیں جبکہ والدین کے لئے
بچوں کی پرورش قانونی فرض بنا دیا گیا ہے۔ اگر والدین کا نان نفقہ بھی
قانونی فرض ہوتا تو بچوں کی پکڑ ہو سکتی تھی۔ اسی طرح پارکنگ پر کوئی قانون
سازی نہیں کی گئی تو پارکنگ پر لوگ مانی کرتے ہیں۔ اپنی دکان کے سامنے کار
پارک کرنے نہیں دیتے۔ میں نے دکاندار کی بات نہ مانی تو جب واپس آیا تو اس
پر رنگ پھینکا ہوا تھا۔پوچھنے پر کہنے لگا مجھے کیا پتہ۔ اسی طرحپاکنگ کی
فیس پر لوگ من مانیاں کرتے ہیں ۔۔
ہمیں سوچنا پڑے گا کہ ہم کو بھی ہر بات پر قانون سازی کر نے کی ضرورت ہے تا
کہ سزا کے ڈر سے لوگ سیدھے رہیں ۔ اسی لئے ہمیں بھی دکان دار اور خریدار
دونوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے قانون سازی کرنی ہوگی تا کہ دکاندار ایک
نمبر مال بیچے اگر دو نمبر ہو تو اس کی پکڑ کی جا سکے۔ جعلی دوائیوں پر بھی
قانون ہو تو دکاندار کی پکڑ اور سزا ہو سکے۔ مگر ہم لوگ اور ہمارے حکمران
کیوں قانون سازی کریں کیونکہ دونوں ہی حقوق تلف کرنے والے لوگ ہیں ۔ اسی
طرح تعلیم کے حقوق پر قانون سازی کی ضرورت ہے کہ لڑکے اور لڑکی کی تعلیم کے
فیصلے صرف والدین کا حق ہے کیونکہ انہوں نے ہی ان کو زندگی کی جنگ لڑنے کے
لئے تیار کرنا ہوتاہے۔ تو پھر مذہبی رہنماؤں کی اس معاملے میں بے جا مداخلت
کو قانونا روکنا ضروری ہے تا کہ وہ اپنی من مانی کر کے لڑکیوں کی تعلیم پر
پابندی نہ لگا سکیں، کیونکہ ایسی پابندیاں رسول اﷲ ﷺ کی تعلیمات کے بھی
خلاف ہیں کیونکہ انہوں نے ہی والدین کو بچوں کے راعی قرار دیاہے اور ہر
مسلم مرد اور عوعت تک پنگھوڑے سے قبر تک علم حاصل کرتے رہنا فرض قرار دیا
ہے۔ ایسی قانون سازی مذہبی لوگوں کو بھی نبوی ہدایات کی کلاف ورزی کے گناہ
سے بچا لے گی۔۔ غرضیکہ ہر معاملے میں قانون سازی ہی معاشرے کے ہر فرد کے
حقوق اور فرائض کے تعین کو یقینی بنا سکے گی ۔
|