سیری نالا بان سے لیا گیا اقتباس (یاداں)
(Gulzaib Anjum, Kotli-a.kashmir)
ایک ایسی خاتون کے حالات زندگی پر لکھی گئی تحریر “یاداں“ جس نے دور افتادہ علاقے میں علم کی شمع روشن کرنے کی ٹھان لی. ۔ |
|
یہ پرچم کے رنگ آخر کچھ تو پیغام دیتے ہوں
گے.
یہ اس وقت کی بات ہے جب ہمارے پاس قندیلیں نہیں ہوتی تھی.
کیا وہاں کے لوگ بھی ایک دوسرے کو تساں کہتے ہوں گے.
کہنے لگی مجھ سے تو دو لوگ بچھڑے ہیں آپ صرف میرے شوہر کا افسوس کرتے ہیں
میرے دوست کا نہیں.
یوں تو ہم نے کہیں بار ان رنگوں کو دیکھا ہے لیکن کبھی یہ نہیں سوچا کہ
سیری کے کھیتوں کے یہ رنگ پرچم پر جا کر کیا پیغام دیتے ہیں. یہ پرچم پر
سجے ہیں تو کیسے، کیا بس ایک خوب صورتی ہی ہے یا کچھ راز بھی ان میں پنہاں
ہیں. کیا یہ دریاؤں کے دھاروں کا پانی بے مقصد ہی بہتا جا رہا ہے یا ہر ہر
کنارے پر کچھ داستاں رقم کرتا جا رہا ہے. خیر پانی بھی کیا کرے، پیاری سیری
کے لوگ ہی ایسے ہیں کہ ان کی یادیں داستان بن کر دل پر نقش ہو جاتی ہیں.
سیری کی گلیاں کہاں کہاں سے گھوم پھر کر محبت کرنے والے دلوں کی طرح پھر
آپس میں آ ملتی ہیں . بچے ان گلیوں میں آنکھ مچولی کھیلتے ہیں نوجوان کچھ
پل کے لیے نکروں کا انتخاب کرتے ہیں تو بوڑھے ان گلیوں میں اپنا بچپن
ڈھونڈتے ہیں اور کچھ تو ایسے بھی ہیں جو ان گلیوں سے اپنی یادیں سمٹنے کے
لیے کوشاں ہیں. سیری کی گلیوں سے کتنی دوشیزائیں دلہنوں کے روپ میں گئیں
اور کتنی آئیں لیکن آنے والیوں کو ان گلیوں نے ماں کی طرح سینے سے لگا لیا
اور جانے والی صدیوں یہ گلیاں بھلا نہ پائی.
کٹیا کی طرف سے آتے ہوئے مستری سترو جی کی دکان سے جو گلی بائیں جانب کو
گھومتی ہے اسے صوفی نذیر عالم ہوراں نی گلی کہتے ہیں. اس گلی میں یوں تو یہ
ایک عالم آئے تھے پھر عالمیت کے چشمے ہی پھوٹ نکلے محمد عالم ہوئے ابرار
عالم ہوئے پھر ان سے منصور عالم انوار عالم سہیل عالم اور شاکر عالم ہوئے
اور یوں یہ گھر بلکہ گلی عالموں سے بھر گئی. اس گلی سے کہیں معلم اور کہیں
معلمات پیدا ہوئی، اگر ایک ہی گھر سے چھ سات لوگ مدارس کے فرائض سرانجام دے
رہے ہوں تو محلے یا گلی کی نسبت تناسب کیا ہو گی .
کہا جاتا ہے علم اس قندیل کی مانند ہے جس ایک سے ہزاروں قندیلیں جلائی جا
سکتی ہیں . لیکن ہمارے ہاں پہلے پہل قندیلیں نہیں ہوتی تھی اس لیے ہم نے
اپنی پریکٹیکل لائف میں جو روشنی سپلائی کا طریقہ کار دیکھا وہ مٹھا(میم کے
اوپر پیش) تھا، یہ مٹھا(مشعل) ان چکنی لکڑیوں کا بنایا جاتا تھا جنہیں
مقامی زبان میں دہینی کہتے تھے یہ دہینی چیڑ کے درخت کا وہ حصہ ہوتی تھی
جہاں سے گوند (لکڑی سے نکلنے والا لیس دار قسم کا روغنی مادہ جسے ہم جیغن
بھی کہتے تھے) نکلتا تھا اور آگ اسے جلدی پکڑ لیتی تھی اس لیے ایسی تین چار
لکڑیوں کو ایک ساتھ باندھ کر مٹھا بنا لیا جاتا اور یوں ایک موٹھے سے
ہزاروں مٹھے جلا لیے جاتے تھے لیکن علم کی روشنی کے لیے ضروری تھا کہ کوئی
قندیل ہی لائی جائے (بھلے قندیل اور مٹھے میں جیغن ہی کی آمیزش ہوتی ہے
لیکن مٹھے کو قندیل تو نہیں کہتا)، اس کار خیر کے لیے صوفی نذیر عالم صاحب
کے نور چشم محمد عالم نے پنڈ دادنخان کے گاوں کوٹ کلاں سے جیا نام کی ایک
قندیل لائی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس قندیل سے کہیں قندیلیں جگمگا اٹھی.
☆ کوٹ کلاں کیسا ہو گا وہاں کی سڑکیں گلیاں پگڈنڈیاں کیا سیری جیسی ہی ہوں
گی کیا لوگوں کے رہن سہن کے طریقے سیری جیسے ہی ہوں گے کیا وہاں کے لوگ بھی
ایک دوسرے کو تساں کر کے بلاتے ہوں گے کیا وہاں کے لوگ بھی جواب میں جی
کہتے ہوں گے ، اس بارے میں تو کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن اگر پنڈ دادن خان
کا جغرافیائی جائزہ لیا جائے تو اس سے تھوڑی ہی دور کھیوڑہ کی پہاڑیاں شروع
ہوتی ہیں اور کھیوڑہ میں ہی نمک کی کانیں ہیں کچھ نہیں تو یہ نمک کا اثر تو
کوٹ کلاں تک بھی پہنچتا ہو گا ، جس طرح کھیوڑہ کے ارد گرد کی پہاڑیاں سبزے
سے ناآشنا ہیں اسی طرح کوٹ کلاں بھی ہو گا لیکن ہمیں تو کوٹ کلاں سے یا اس
کے خشک موسموں سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ جو شاخ قدرت نے ہمیں عطا کی وہ
لاکھوں ہریالیوں سے زیادہ سود مند ثابت ہوئی ہے.
☆1973ء کی بہارکا موسم تھا ہر شجر نے بہار کی آمد پر اپنے جوبن کا پتہ تو
دینا تھا ہر کوئی اپنے رنگ بکھیرنے کے لیے بیتاب تھا. چیرمین عزیز جی کے
آنگن میں لگے بیری کے پیڑ نے کچھ ہرے پتوں اور ہلکے سبز بور سے بہار کا پتہ
دیا اور ساتھ ہی مستری انور کے پچھواڑے میں کھلے مالٹے کے پودے نے سفید
سفید پھولوں سے بہار کو خوش آمدید کہا انہی دنوں میں چیرمین عزیز جی کے گھر
سے سیری گرلز پرائمری اسکول کا آغاز ہوا . یہ سکول گورنمنٹ کے کاغذوں میں
کب سے منظور شدہ تھا کوئی پکی تاریخ نہیں مل سکی اور نہ ہی اس کی کوئی
عمارت تھی لیکن کھوئیرٹہ سے ایک استانی باجی اقصٰی کبھی ہفتے میں دو تین
بار آتی تھیں ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے باعث صبح دس بجے پہنچتی اور چیرمین جی
کے گھر والوں سے سلام دعا کرتی اور بارہ بجے واپس چلی جاتی. جیسا کہ ملاں
کا کام آذان دینا ہوتا ہے نمازیوں کو لانا نہیں بس اسی کے مصداق مس آتی تھی
اور طلبات نہ ہونے کے باعث واپس چلی جاتی یہ مس کچھ ماہ بعد کسی دوسرے سکول
چلی گئی اور پھر اسی گھر سے یعنی انہی کی رشتہ دار (دونوں کا پھوپھی بھتیجی
کا رشتہ تھا) باجی شہناز آئی اس کے آنے پر برائے نام سکول چیرمین جی کے گھر
سے بابی عبداللہ جی کے گھر شفٹ ہو گیا. لیکن سکول کے یہاں آ جانے سے یہ
فائدہ ہوا کہ دو تین لڑکیاں پڑھنے آ جاتی، لیکن اسی اثنا باجی شہناز اپنا
تبادلہ کرا چکی تھی یوں اس سکول کی پہلی باضابطہ استانی کوٹ کلاں کی جیا،
باجی (اس وقت مس یا ٹیچر کو باجی کہا جاتا تھا) رضیہ نے 1974ء میں تعلیم کی
نیا کا چپو سنبھالا.
☆باجی سیری کی پہلی لڑکی تھی جو اس وقت دسویں پاس تھی یہ تعلیم وہ ماں باپ
کے گھر سے جہیز میں لائی تھی بہت ہی کسمپرسی کی زندگی گزارنے والے والدین
نے یہی کہا ہم بیٹی کی شان شایان تو کچھ نہیں دے سکے لیکن انہیں کیا خبر
تھی جو خزانہ انہوں نے جیا کو سونپ دیا اسے نہ تو ٹھگوں کی سن کا خطرہ ہے
نہ کچی چھتوں سے ٹپکتے پانی سے بھیگنے کا اندیشہ ہے یہ خرچنے سے کم نہیں
ہوتا بلکہ بانٹ دینے سے زیادہ ہو جاتا ہے ، نہایت ہی سفید پوش والدین نے
قسمت کی آشا اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر صوفی نذیر عالم جی کی گود میں ڈال دی.
باجی بھلے اس وقت اٹھارہ انیس سال کی الڑ سی لڑکی تھی لیکن دس جماعتوں نے
وقت سے پہلے ہی سنجیدہ بنا دیا تھا . باجی نے وہ نئی نویلی دلہنوں والے
نخرے کم دکھائے البتہ اپنے امور خانہ داری بڑھ چڑھ کر دکھائے اپنی چھ سات
نندوں پر اور ساس پر اپنی قابلیت کا سکہ جما دیا . پوٹھوہاری اور پہاڑی
زبان تقریباً جلد ہی گل مل گئی ویسے بھی اس گھر والوں کی پہاڑی بھی کچھ
ایسی تھی جو دیگر محلے والوں سے کم ملتی تھی اس لیے باجی کو کہیں سمجھنے
سمجھانے میں دقت پیش نہیں آئی. باجی کے شوہر نامدار بھی دس پاس تھے اس لیے
اپنی تعلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے اچھے سلوک کا برتاؤ کرتے. باجی کی زندگی
نئی ڈگر پر گامزن ہو گئی اکیلی جیا سے باجی رضیہ بھابھی رضیہ بن گئی گھر
میں ریتی تین نندوں کو بھی اپنے ساتھ صبح لیتی اور بابی جی کے آنگن(سکول)
چلی جاتی جہاں دریک اور توت کے درختوں کی مشترکہ چھاں رہتی کبھی سورج کہیں
سے سامنے آ جانے کی کوشش بھی کرتا تو باجی اپنی بنا بازو ( Arms rest ) کی
کرسی کو گھما کر پھر سورج سے اوجھل ہو جاتی اور بچیوں سے بھی سمت بدلنے کو
کہہ دیتی. یہ اسکول محلے کے عین مرکز میں تھا اس لیے تعداد بڑھنے لگی.
بچیاں بھی کب اتنی چھوٹی تھیں گھر سے پانی لینے نکلتی تھیں یا کھیتوں میں
گوبر کا ٹوکرا پھینکنے نکلتی تھی تو باجی آواز دے کر بلا لیتی اور کلاس میں
بٹھا لیتی کچھ پیڑی یا بینڈے کا عذر پیش کرتی تو باجی انوں(الف کے نیچے زیر)
کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی اسی کو پیڑی بنا لے. باجی کی اس طرح کی
ایڈمیشن سے کہی زمیندار مائیں بچیوں سے کہتی مڑے باجی ریجیا نے
باندیوں(سامنے) ناں لنگے تے ٹکرا سٹھی تاولیاں مڑی ہچھے. پھر کچھ سوجھ بوجھ
آئی تو وہی مائیں ریس پریسی لڑکیاں داخل کرانے لگیں تو یوں باجی کا خواب
پورا ہونے لگا کہ ہر گھر سے کم از کم ایک لڑکی تو سکول آئے.
☆ انہی دنوں میں باجی کے مجازی خدا بٹ عالم(اصلی نام محمد عالم بٹ) بھی
سکول ماسٹر لگ چکے تھے اب ایک ہی گھر میں دو تعلیم یافتہ افراد ایک ہی پیشے
سے وابستہ ہو گئے تھے(بٹ صاحب مرحوم کو اللہ غریق رحمت کرے اپنی ماسٹری کی
داستان سناتے ہوئے کہا کرتے تھے مجھے ماسٹر بنانے والی رضیہ ہے اگر یہ نہ
ہوتی تو میں اپنی ہی گاڑی کا ایک پڑھا لکھا ڈرائیور ہوتا.) باجی کو پی ٹی
سی کے سلسلے میں کوٹلی جانا ہوتا تو ساتھ بٹ صاحب بھی جاتے. پی ٹی سی کے
بعد باجی کو احساس ہوا کہ علمی تشنگی ابھی تو جوں کی توں ہے تو انہوں نے
ایف اے کی کتابیں لے کر تیاری شروع کر دی اور ساتھ ہی بٹ جی کو بھی تیاری
کا مشورہ دیا تو انہوں نے کچھ عذر پیش کیا باجی نے سمجھایا دیکھیے آپ کو
ویسے بھی میرے ساتھ جانا تو ہو گا اور سفر کی مسافت کے علاوہ آپ کو تین
گھنٹے انتظار کی اذیت بھی سہنی ہو گی تو بہتر ہے آپ بھی امتحان کی تیاری کر
لیں بٹ صاحب نے بیوی کے دانشمندانہ مشورے کو خوش اسلوبی سے قبول کر لیا.
اور یوں میاں بیوی ایک ساتھ تیاری کرتے اور دور کے امتحانی مرکز میں پیپر
دینے چلے جاتے. امتحان ختم ہوتے تو تربیتی پروگرام شروع ہو جاتے اور یہ
دونوں شریک حیات ہونے کے ساتھ ساتھ شریک تعلیم بھی ہو جاتے، دیکھا جائے تو
حقیقی معنوں میں یہی ہمسفر تھے.
☆ باجی نے اسی عرصے میں سکول بابی جی کے گھر سے اپنے گھر منتقل کر لیا تھا
اور خود دونوں تعلیم کی ڈگریاں سمٹتے سمٹتے کہیں سے کہیں پہنچ گے. باجی سی
ٹی، بی ایڈ اور ایم اے اردو کرنے کے بعد ہیڈ مسٹریس بن چکی تھیں اور وہ
پرائمری سکول جس کا باضابطہ آغاز باجی نے کیا تھا پھر چیرمین جی کے گھر کے
سامنے جا کر کالج بن چکا تھا . باجی ہائی سکول کے زمانے میں کچھ عرصہ
بحیثیت ہیڈ مسٹریس رہی بعد آزاں دور دراز کے سکولوں میں تعیناتی ہوتی رہی
کہیں جگہیں ایسی تھی جہاں گاڑی وغیرہ بھی نہیں جاتی تھی لیکن باجی گرمی
سردی کی پرواہ کیے بغیر اپنے فرائض جانفشانی سے انجام دیتی رہیں اور کبھی
ایسا نہیں ہوا کہ باجی بلاعذر غیر حاضر ہو جائیں.
☆ باجی کو زندگی کے ہر پہلو سے دیکھتے ہوئے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ
وہ ایک مکمل خاتون ہیں انہوں نے دنیا کے کہیں رنگ دیکھے لیکن اپنا وہی رنگ
رکھا جو والدین نے سونپا تھا اچھی پڑھی لکھی معارف پرور اور آفیسر ہونے کے
باوجود بھی سادگی، اخلاق، سخن فہمی اور سخن سنجی کو ہاتھ سے نہ جانے
دیا.سادہ لباس آپ کی شخصیت کو ایسے چار چاند لگاتا کہ محلے کی دوسری خواتین
بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہتیں. بھری بھری جسامت اور اور پروقار شخصیت کے
مالکہ اور رعب ایسا کہ لڑکے بھی سر جھکا کر پاس سے گزرتے. رعب تو خیر ان کا
اس وقت بھی ایسا ہی تھا جب یہ اپنے گھر والے سکول میں ہوتی تھیں وہ اس لیے
یاد ہے کہ ہمارا سکول آنے جانے کا ایک رستہ ان کے سکول کے پاس سے بھی گزرتا
تھا ایک دن میں تفریحی کے ٹائم پر ان کے سکول والے راستے سے گزرا یہ اس وقت
دھوپ میں کرسی ڈالے بیٹھی تھیں اور بچیوں کو کچھ لکھوا رہی تھیں اچانک ان
کی نظر مجھ پر پڑی فلپائنی نما آنکھوں کو کچھ اور سکڑتے ہوئے پہچان لینے کے
بعد نام لے کر مجھے آواز دی. ان کی زبان سے اپنا نام سنتے ہی میں یوں بھاگا
کے گھر آ کر ہی دم لیا . اس وقت میری بہن بھی ان کے پاس پڑھتی تھی اس کو
انہوں نے میرے پیچھے بھیجا کے اس نے جو سوئیٹر پہنی ہوئی ہے میں اس کا
ڈیزائن دیکھنا چاہتی تھی لیکن وہ بھاگ گیا ہے. میری بہن نے گھر آ کر پہلے
تو مجھے خوب ڈانٹا پھر سوئیٹر لے کر چلی گئی. لیکن میرے کانوں میں ان کی
آواز کافی عرصہ تک گونجتی رہی.
☆ باجی کی عادت مبارکہ فطرتاً مشفقانہ رہی لیکن دیکھنے میں ایسا بہت کم
محسوس ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی نے اقرباء پروری کا کوئی ایسا شوشہ
نہیں چھوڑا جو اکثر فیل ہونے والے بچوں کے ماں باپ چھوڑ دیتے ہیں. آپ کی
غیر جانبدارانہ شخصیت آپ کے کردار کی امتیازی خصوصیت ہے. شکل و صورت واجبی
سی ہے تاہم بطور تعارف کچھ لکھنا کالم کا تقاضا ہے . آپ ایک خوبرو اتالیقہ
ہونے کے ساتھ ساتھ درمیانے قد کی خاتون ہیں جس کو میعاری بنانے کے لیے ہلکی
ایڑی والی سینڈل پہنتی ہیں لانبھی گھنیری زلفیں جو باوجود دوپٹہ بڑا ہونے
کے اپنی شان کا پتہ دیتی ہیں، ہلکے ہرے رنگ کا سوتی لباس کبھی کبھار ساتھ
ملتے رنگوں میں ہلکی کامدار کڑھائی گوری چٹی رنگت پر خوب جچتی ہے سر پر
قمیض یا شلوار کے ساتھ کا ملتا یا اکثر سفید دوپٹہ حیا اور پردہ داری کے
تقاضوں کو خوب پورا کرتا ہے، آنکھوں کے کنارے ہمیشہ بھیگے ہوئے لگتے یا پھر
ذہانت کی وجہ سے چمک رہے ہوتے ہیں آنکھیں تقریباً باقی چہرے کی بانسبت بہت
چھوٹی اور بھنویں نہ ہونے کے برابر، چپٹی ناک پر کالے رنگ کے سن گلاسز،
قدرے گولائی لیے رخساروں کے اختتام پر معصومانہ سی ٹھوڑی بہت ہی جڑے ہوئے
دانتوں والا مونہہ شائستہ لہجہ اور مہ جبین کا سچا ترجمہ کرتی ہوئی کشادہ
پیشانی، متوازن چال جھکی نگاہیں باعلم اور پارسا ہونے کی نشانی. گفت و شنید
کے دوران مخاطب کو مکمل بولنے کا موقع دینا اور خود انتہائی سنجیدگی سے
سننا سنت نبوی(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے ساتھ ساتھ آپ کی سیرت کا بھی
خاصہ، المختصر...ایک.... مکمل ...... عورت.
باجی سے چھ اولادیں ہیں سب کے سب پڑھی لکھی ہیں . بڑی دونوں بیٹیاں استانی
بڑا بیٹا انجینئر چھوٹا بیٹا بی بی اے دونوں چھوٹی بیٹیاں ابھی تک زیر
تعلیم.
☆ آپ دونوں میاں بیوی کا ساتھ تقریباً اڑتیس سال پر محیط رہا بٹ جی نہ صرف
شوہر بلکہ کلاس فیلو کورس فیلو اور ایک اچھے دوست کی طرح رہے، رشتہ زوجیت
کی گاڑی کو باہمی مشاورت سے رواں دواں رکھا . کبھی دقیانوسی نظریات کے تحت
بے جا روک ٹوک نہیں کی شاید یہی وجہ تھی کے جب باجی سے بٹ صاحب کی تعزیت کی
گی تو باجی نے کہا میں ایک ساتھ دو رشتوں سے محروم ہو گئی ہوں آپ صرف میرے
شوہر کی وفات کا افسوس کر رہے ہیں اور میرے دوست کی جدائی کا ذکر ہی نہیں
کیا.
بٹ صاحب جو ہمیشہ مضبوط سائبان کی طرح ساتھ رہتے تھے نہ جانے اندر سے کون
سی چیز انہیں دیمک کی طرح کھوکھلا کرتی جا رہی تھی کے ایک دن اچانک جدائی
دے کر بقول عورتوں کے یہ کہنا سچ کر گے کہ مرد بےوفا ہوتے ہیں، بات بات پر
تشفی دینے والے کچھ کہے بغیر........بہت دور .... چلے گے. سب کہتے رہے کہ
اک عالم بیماری سے ہار گیا.
☆ یہ گلیاں یہ پنگھٹ یہ پگڈنڈیاں یہ سیری بان کی طرف جاتی سڑک یہ بان کے
پانیوں کے رنگ سب مل کر ہی تو باجی جیسے لوگوں کو اجاگر کرتے ہیں تبھی کہیں
جاکر علم کی قندیلیں روشن ہوتی ہیں یا پھر دہینیوں کے مٹھے جلتے ہیں. |
|