عوام کے لیے تمام راستے بند ہیں

کہنے کو تو جمہوریت ہے اور عوام کی حکومت ہے لیکن عوام کا نام حکومت میں بطور تبرک استعمال کیا جاتا ہے۔ عوام کی مشکلات کا ذکر تسبیح کے دانوں کی طرح کیا جاتا ہے لیکن اس پر توجہ نہیں کی جاتی۔یہ خود کو عوام کا نمائندہ اور خادم کہتے ہیں لیکن یہ ان کے درمیان رہنا پسند نہیں کرتے اور جب کبھی یہ اتفاق سے ان کے درمیان سے گزریں تو سیکیورٹی کے نام پر عوام کا راستہ بند کردیتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان چند وی آئی پیز کے لیے بنایا گیا تھا کیونکہ ان کے راستے میں آنے والی تمام رکاوٹیں ہٹا کر عوام کے راستے میں لگا دی جاتی ہیں۔ کوشش کی جاتی ہے کہ کسی طرح ان کو کوئی تکلیف نہ ہو چاہے عوام کو گھنٹوں ٹریفک میں انتظار کرنا پڑے۔ جب پاکستان کے آئین کے مطابق ہر شخص کو مساوی اختیارات حاصل ہیں تو پھر ایسا کس قانون کے تحت ممکن ہے؟ شاید یہ بات آئین کا حلف اٹھانے والے ہی بہتر جانتے ہوں یا اس کی تشریح کرنے والے بہتر سمجھتے ہوں گے۔لیکن بہرحال عوام کو تو سرخ بتی کا احترام کرنا ہے چاہے ان کے حکمران اس کا احترام کریں یا نہ کریں۔

پاکستان کے بانی قائد اعظم اپنے اصولوں اور قاعدوں کے اس قدر پابند تھے کہ انھوں نے کبھی اس پر سودے بازی نہیں کی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ پاکستان بنانے میں کامیاب ہوئے۔ لیکن بدقسمتی دیکھیے کہ کراچی کے ڈرگ روڈ پر بنا پھاٹک ان کے انتقال کی وجہ بنا۔کیا ان سے بڑا کوئی وی آئی پی ہوسکتا تھا جس کے لیے پھاٹک بند نہ کیا جاتا۔ لیکن انھوں نے کبھی اپنے لیے اضافی اختیارات استعمال نہ کیے۔

کراچی ڈرگ روڈ شاہراہ فیصل پر بنا پھاٹک آج تقریباً ختم ہوچکا ہے لیکن یہاں سے گزرنے والے آج بھی اسی طرح خود کو بے بس و لاچار محسوس کرتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہاں بنایا جانے والا پل ہے جو اپنی نااہلی اور ناقص منصوبہ بندی کا منھ بولتا ثبوت ہے۔یہ پل متعدد بار مرمت کیا جاچکا ہے لیکن تاحال اس پر گڑھے موجود ہیں جو کسی بڑے حادثہ کا سبب بن سکتے ہیں۔ ایک طرف ڈرگ روڈ کا اسٹیشن اور دوسری طرف کنٹونمنٹ ایریا ہے جس کے بیچ سے شارع فیصل کی سڑک اپنی تنگ دامنی کے ساتھ یہاں سے گزرتی ہے ۔ جس میں سے اٹھنے والا پل اس کی تنگ دامنی کو مزید تنگ کرتا ہے۔ ایئرپورٹ سے آنے والی ٹرانسپورٹ گاڑیاں ڈرگ روڈ اسٹیشن کے اسٹاپ پر اپنی سواریاں اترانے اور چڑھانے کے بعد سڑک کے ٹریفک کو کاٹتی ہوئی اس پل پر چڑھتی ہیں جس سے ٹریفک مزید جام ہوتا ہے۔ یہ پل صرف ایئرپورٹ سے آنے والے ٹریفک کو گلستان جوہر کی طرف جانے میں مدد دیتا ہے۔ لیکن گلستان جوہر سے آنے والی ٹریفک کو پھر بھی شاہراہ فیصل پر آنے کے لیے سگنلز کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسی طرح شاہراہ فیصل کی ٹریفک کو بھی یہاں رکنا پڑتا ہے۔

کراچی کی حدود اور آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی تھی اس کے لیے ویسی ہی منصوبہ بندی کی بھی ضرورت تھی لیکن بدقسمتی سے کراچی کو اپنا کہنے والوں نے کبھی ایسی منصوبہ بندی نہیں کی کہ مستقبل میں آنے والے چیلنجز کا سامنا کیا جاسکتا۔ لہٰذا ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے ایسے پل ڈیزائن کئے گئے جو گزرتے وقت کے ساتھ بجائے آسانی پیدا کرنے کے عوام کے لیے مزید مشکلات کا سبب بن گئے۔

کراچی کے پیش آمدہ چیلنجز کا درست ادراک کرتے ہوئے سب سے پہلے سابق میئر نعمت اﷲ خان نے کراچی کے لیے میگا پروجیکٹس کی بنیاد رکھی۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے سڑکوں کو فری کوری ڈور بنانے کی طرف کام کا آغاز کیا گیا۔ جسے سابق میئر مصطفی کمال نے بھی جاری رکھا۔ یہی وجہ تھی کہ کراچی کو اس مختصر عرصے میں اتنے پل مل گئے کہ جو کراچی کی تاریخ میں کبھی نہ بنے تھے۔

شاہراہ فیصل کو کراچی کی سب سے اہم شاہراہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ وی آئی پیز کی گزرگاہ ہے جہاں سے یہ لوگ ایئرپورٹ روانہ ہوتے ہیں۔ لیکن اس شاہراہ پر تاحال تین سے چار سگنلز موجود تھے۔ جن کو حال ہی میں ختم کیا گیا ہے لیکن اس کے لیے متبادل روٹس پر کام نہیں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے عوام کو پریشانی کا سامنا ہے۔

ایئرپورٹ کی طرف جانے والی شاہراہ جب ناتھا خان پل کے قریب پہنچتی ہے تو یہاں سے ڈرگ روڈ جانے والے دائیں طرف مڑتے تھے جسے بند کر دیا گیا ہے۔ یوں ڈرگ روڈ جانے والی ٹریفک کو متبادل کے طور پر شاہ فیصل کا پل استعمال کرنا پڑتا ہے جو انتہائی دور ہے۔لیکن ان تمام باتوں کے باوجود یہاں ٹریفک جام ہی دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ ایئرپورٹ اسٹار گیٹ کا راستہ بھی بند کیا گیا ہے جس کا متبادل بظاہر قریب ہی ایئرپورٹ کے نیچے سے یو ٹرن ہے لیکن یہاں بھی ڈرگ روڈ والے مسائل درپیش ہیں کیونکہ ٹریفک کے دباؤ کے برخلاف سڑک کا گھیراؤ یوٹرن سے تنگ ہے اور پھر آگے چل کر سڑک پر بے جا پارکنگ اور سڑک ناقص ہے ۔ اس کی وجہ سے یہاں بھی ٹریفک جام کا شدید سامنا ہے۔جو وقت سگنل پر رکنے کے لیے بچایا گیا تھا وہ اب یہاں وقت کے ساتھ ساتھ ایندھن کی صورت میں بھی خرچ ہورہا ہے۔ شاہراہ فیصل پر سفر کرنے والے کو اگر کسی ایمرجنسی کی صورت میں واپس لوٹنا پڑے تو اسے بہت دور تک واپسی کا راستہ نہیں ملتا جو بھیانک صورتحال ہے۔ اگر سڑک کے دونوں اطراف سروس روڈ ہوتی تو شاید یہ مسئلہ اتنا گھمبیر نہ بنتا لیکن ایسا نہیں جس کی وجہ سے عوام کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اسی طرح اگر ایئر پورٹ سے آپ ملیر کینٹ کی طرف جائیں تو یہاں بھی ماڈل کالونی کی طرف جانے والی سڑک کو بند کر دیا گیا ہے اور متبادل کے لیے ایئرپورٹ قبرستان سے ملیر کینٹ تک کوئی دوسرا راستہ نہیں دیا گیا۔

کراچی جیسے بڑے شہر میں کہیں بھی جانے کے لیے گوگل میپ کا سہارا لیا جاتا ہے لیکن دیکھنے میں آرہا ہے کہ اب گوگل بھی ان بند راستوں کو سمجھنے سے قاصر ہے جنہیں رکاوٹیں لگا کر صرف عوام کے لیے بند کیا گیا ہے ۔ ان بند راستوں نے عوام کو مخالف سمت میں سفر کرنے پر مجبور کر دیا ہے جس سے حادثات اور ٹریفک کے مسائل مزید پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ اگر حکومت عوام کی ہے تو عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہے کہ پھر ان کی مشکلات میں روز بروز اضافہ کیوں کیا جاتا ہے اور انہیں کون د ورکرے گا؟ڈرگ روڈ کے عوام نے سب سے پہلے اس مسئلہ پر آواز بلند کرتے ہوئے شاہراہ فیصل پر احتجاج کیا ہے جس پر اگر کان نہ دھرا گیا تو یہی عوام جو حکمرانوں کو سر پر بٹھائے ہوئے ہے انہیں عرش سے فرش پر لانے میں دیر نہیں کرے گی۔ پھر وہ دن بھی دور نہیں جب عوام کے راستے بند کرنے والوں کے بھی راستے بند کر دیئے جائیں پھر کسی کو بھی ایگزٹ کا راستہ نہیں ملے گا۔
Mir Shahid Hussain
About the Author: Mir Shahid Hussain Read More Articles by Mir Shahid Hussain: 49 Articles with 42772 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.