ملک میں ہونے والے واقعات ہر کسی کو حیران
کر دیتے ہیں کہ کوئی ذی روح ایسا کرنے کا سوچ بھی کیسے سکتا ہے۔ سیر کے
بہانے لے جا کرباپ نے اپنے تینوں بچوں کے گلے تیز دھار آلے سے کاٹ ڈالے
صرف اس لیے کہ ایک جعلی پیر نے مراد پوری ہونے کے لیے یہ شرط بتائی تھی اس
لئے اس نے سفاکی کی نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے اپنی گلشن کے پھول مسل
ڈالے۔کہیں دو بھائیوں نے قبروں سے مردے نکال کر ان کا گوشت کھانا شروع
کردیا اور تو کہیں جعلی پیر کے بہکاوے میں آکر نوجوان اپنے ہی گھر میں
خزانے کی نشاندہی کے بعد سرنگ کھودتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔جس ملک
میں عوام کی بیشتر آبادی غربت کی لکیر کے نیچے رہ رہی ہے نہ ہی انہیں روٹی
میسر ہے نہ پینے کا صاف پانی ہے۔ انہیں پہننے کو لباس میسر ہے نہ ہی سر پہ
چھت تو ایسے واقعات وہاں کیوں نہ جنم لیں۔ 18کروڑ آبادی والے ملک میں پانچ
کروڑ 87لاکھ افراد خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوں۔ نو کروڑ
افراد غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ ڈھائی کروڑ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔
ہر دس میں سے ایک پاکستانی بے روزگار ہے تو ایسے واقعا ت کا جنم ہوگا۔ جب
دنوں میں امیر بنے کے چکر میں لالچ کرتے ہوئے عوام غلط راستوں کا انتخاب
کریں گے۔ پاکستان وہ ریاست ہے جہاں آزادی کے 67برس بعد بھی حکومتوں کی عدم
توجہی کے باعث لوگ پینے کے صاف پانی، صحت کی بینادی سہولتوں، انصاف، بجلی
اور سڑکوں کے لیے ترس رہے ہیں۔ لاقانونیت، بے ایمانی، نااہلی اور بدانتظامی
عروج پر ہے کوئی کام رشوت دیے بغیر نہیں ہوتا۔ ایک فیصد امراء طبقہ تو دنیا
کی ہر نعمت سے لطف اندوز باقی پاکستان صرف دال روٹی کی چکی میں پستے ہوئے
تو اس ملک کے لوگ غلط راہ کا انتخاب کرتے ہوئے جعلی پیروں کے آستانوں پر
سر پٹختے ہیں اور مزید دلدل میں دھنس جاتے ہیں لیکن عوام کو بھی یہ جان
لینا چاہیے۔ لالچ، غصہ اور جہالت آپ کو تختہ دار تک بھی پہنچا سکتی ہے یا
پھر موت کے منہ میں لیے جا سکتی ہے۔ دین سے دوری اور عقیدے کی کمزوری بھی
ان واقعات کے پیچھے کار فرما ہے غربت کبھی بھی یہ نہیں کہتی کہ دین سے منہ
موڑ لیا جائے یا محنت سے جی چرایا جائے۔ماہر نفسیات ان واقعات کا سبب غربت،
مہنگائی اور بیروزگاری کو قرار دیتی ہیں۔ ان کے مطابق لوگ اپنے مسائل کا
فوری حل چاہتے ہیں، اس لیے وہ جعلی پیروں کا رخ کرتے ہیں اور تعویذ اور
مختلف غلط عملیات میں پڑ کر اپنی دین اور دنیا دونوں خراب کرتے ہیں۔ ان کے
مطابق ان واقعات کے پیچھے جہالت اور غربت کار فرما ہے اور گوشت خوری جسے
فعل کے پیچھے بھی سماجی مسائل کا عمل دخل ہوتا ہے۔ ان کے مطابق اگر پریشانی
یا مایوسی کی صورت میں عوام جعلی پیروں کے بجائے ماہر نفسیات سے رجوع کریں
تو ان کی رہنمائی سے بہت سے مسائل ختم نہ سہی پر ان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سرکاری اسپتالوں میں یہ سہولت موجود ہے کہ لوگ آئیں اور
معالجین کے ساتھ اپنے مسائل کو زیر بحث لائیں اور بات چیت اور بعض اوقات
ادویات سے بھی ذہنی پریشانیوں کو قابو کیا جاسکتا ہے۔ ذہن پر سکون ہوگا تب
ہی انسان محنت کرکے اپنی راہیں آسان کرسکتا ہے۔جعلی پیروں کی چاندی صرف اس
وجہ سے ہے کہ معاشرے سے ایثار، ہمدردی اور احساس ختم ہوتا جارہا ہے۔ سادہ
لوح افراد اپنے مسائل کے فوری حل کے لیے ان کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جن میں سے
کچھ جمع پونجی سے محروم اور کچھ جان سے چلے جاتے ہیں، ان حالات میں ضرورت
ہے کہ معاشرے میں روادری اور اخوت کو فروغ دیا جائے صرف اس بات کا انتظار
نہ کیا جائے کہ حکومت آپ کے حالات تبدیل کرے گی بلکے ہمیں خود اپنے حالات
تبدیل کرنا ہوں گے، اگر آپ کے گھر میں کھانا زائد ہو تو گلی میں موجود کسی
غریب ہمسائے کے گھر بھی بھجوایا جاسکتا ہے، اگر اپنے بچوں کی کتابیں لینے
جارہے ہیں تو کسی غریب نوکر کے بچوں کا بھی کورس لایا جاسکتا ہے، اگر اپنے
لیے ڈیزائنر لان کے ڈھیروں سوٹ لیے جارہے تو کسی غریب کی ستر پوشی کا بھی
انتظام کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم سب خود اپنے غریب محلے داروں اور رشتہ داروں
کی مالی مدد کرنا شروع کردیں تو ایسے واقعات کا سدباب ہوجائے۔کسی بھی کمزور
عقیدے کے بہن بھائی کو تکلیف میں دیکھیں تو اس کو یہ کہیں اللہ کی ذات پر
یقین کامل رکھو۔ سجدے طویل کرو اور قرآن پاک کی تلاوت کرو وہ خود حل نکالے
گا۔ جو جعلی پیر دوسروں کی قسمت بدلنے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ پہلے اپنی
تقدیر کیوں نہیں بدل لیتے؟ اس لیے کے تقدیر صرف اللہ تعالی ہی بدل سکتے ہیں
ان کے سوا کوئی نہیں۔ اس لیے ہمیں بحثیت قوم بدلنا ہوگا کہ ہاں ضرور کسی نے
مجھے نظر لگا دی ہے یا کسی نے جل کر ہم پہ جادو کرادیا ہے۔ ایسا کچھ نہیں
ہوتا۔ اگر مشکل حالات ہیں تو اللہ کی مدد، دعا اور محنت سے سب حالات ٹھیک
کیے جاسکتے ہیں۔ ان تینوں واقعات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ لاعلمی، جہالت،
لالچ، طمع ایسے کام کرا جاتی ہے جن کا پھر کوئی مداوا نہیں اور جہاں تک
گوشت خور بھائیوں کی بات ہے ان کو فوری طور پر طبی معائنے کی ضرورت ہے،
علاج کے ذریعے سے ان کے اس ذہنی خلل پر قابو پا یا جاسکتا ہے۔ – |