ہندستان میں ڈرامے کی عوامی روایت کا فروغ اور ’نوٹنکی‘ کی زبان
(Safdar Imam Qadri, India)
تاریخ اور تہذیب کے ارتقا کی ابتدائی کڑیوں
کو جوڑتے ہوئے ادب کے نام پر جو اوّلین چیزیں ہمیں میسّر آئیں ان میں
ڈراموں کی قدامت بالعموم غیر مشتبہ مانی جاتی ہے۔ یونانی اور سنسکرت ڈراموں
کی تاریخ سے یہ بہرطور ثابت ہے۔ ماہرینِ بشریات کا بھی یہ اندازہ ہے کہ
تفریح کی غرض سے یہ ڈرامے ابتداء ً کھیلے گئے ہوں گے۔ اسٹیج کی ترقی یافتہ
شکل بھلے پہلے دن نہ قائم ہوئی ہو لیکن دھیرے دھیرے یہ صورت استحکام پاتی
چلی گئی ہوگی۔ ہندستان یا یونان دونوں مقامات پہ ڈراما نگاری کی تاریخ،
مذاہب اور مختلف حکومتوں کی تاریخ کے ساتھ ساتھ سامنے آتی ہے۔ یہ صحیح ہے
کہ عہدِ قدیم میں شاہانِ وقت شعر وادب کی واضح پشت پناہی کرتے تھے لیکن
دستاویزات سے کسی ٹھوس عوامی روایت کا پتا نہیں چلنا اس بات کا غمّاز نہیں
کہ یونان اور ہندستان میں اُس عہد میں کوئی عوامی ادبی روایت قائم نہیں
ہوئی تھی بلکہ اصل نتیجہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ادبی اور سماجی تاریخ نویسوں
نے علم وادب کی کسی عوامی تاریخ یاروایت کو پہچاننے میں کبھی دل چسپی نہیں
دکھائی۔
بودھ مذہب کی تاریخ میں پہلی بار ڈراموں کی عوامی روایت کا پتا چلتا ہے
جہاں پر اکرت اور پالی کا باضابطہ استعمال ہورہاتھا۔ بودھوں کے عوامی
اجتماعات غیر مذہبی کا موں کے لیے بھی ہوتے تھے ،مختلف تاریخ دانوں نے اس
کی تصدیق کی ہے۔ ’پیکھم‘ کی اصطلاح اس سماج میں ڈرامائی پیش کش کے لیے رائج
تھی۔ راج گیر (اس وقت کے راج گِرِھ یعنی مگدھ کا دارالسّلطنت) میں ادبی اور
ثقافتی اجتماعات کی تفصیل ملتی ہے جنھیں آج کے ڈراما فیسٹی ول (Festival)
کے انداز پر قبول کیا جا سکتا ہے۔ محقّقوں نے اس بات کے بھی ثبوت فراہم کیے
ہیں کہ پراکرت ڈرامے پانچ سو قبلِ مسیح سے ملنے لگتے ہیں۔ مہاتما بدھ اور
ان کے بعد کے دھرم پر چار کوں نے تبلیغ کے لیے گیت سنگیت اور تفریحی ذرائع
کا استعمال کیا۔ بودھ مذہب کے تاریخ دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ کھیل
تماشے یعنی ناٹک مقبول تھے اور خاص وعام ہر طبقے میں اس کا دخل تھا۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پراکرت اور پالی کے ابتدائی ڈرامے مکمّل متن کی
شکل میں محفوظ نہیں رہ سکے۔ سنسکرت کے عالموں نے جب عہدِ مسیح میں تاریخ
نویسی کی طرف توجّہ دی تو شاید مذہبی اور لسانی تعصّب کی وجہ سے پراکرت اور
پالی ناٹکوں کی روایت کو حرفِ غلط کی طرح مٹانے میں کامیاب ہو گئے۔ پر اکرت
ناٹکوں کا اصل متن بھی ضائع ہوا اور ان کا تذکرہ بھی آریوں کی لسانی
اشرافیت اور مذہبی تنگ نظری کی نذر ہو گیا۔
عہدِ قدیم کے ہندستان تک اگر ہم اپنی گفتگو محدود رکھیں تو سنسکرت ناٹکوں
کے عروج کے زمانے میں محقّقوں کے ذریعہ کسی زندگی بہ داماں غیر برہمنی
روایت کی تلاش وتحقیق نہیں کی جا سکی۔ کالی داس، ہرش ،وان بھٹ اور بھبھوتی
کی سنسکرت تحریروں میں کہیں کہیں جو نثری نمونے ملتے ہیں، اُنھی سے اس
زمانے کی عام انسانی زندگی کا کچھ پتا چلتا ہے۔ اَشْوْ گھوش کے یہاں عوامی
زبان کے نمونے مقابلۃً زیادہ ہیں۔ حالاں کہ ان کا عہد قدیم ہے لیکن بودھ
مذہب کی واضح پرچھائیاں بھی ان پر پڑ رہی تھیں۔ یہ بات قابلِ توجّہ ہے کہ
سنسکرت کے مذکورہ ڈراما نگاروں نے اس وقت کی عوامی زبان یعنی پراکرت کا
استعمال کس وجہ سے کیا؟ کیا عوام کی زندگی کی پیش کش کے لیے عوامی زبان کا
ہی استعمال وہ ضروری سمجھتے تھے یا پورے ملک میں پھیل چکی پراکرت سے وہ
صرفِ نظر نہیں کر سکتے تھے؟ عہدِ قدیم کی تاریخ، ثقافت اور آثارِ قدیمہ کے
ماہرین کایہ اندازہ ہے کہ برہمنوں کے عروج کے زمانے تک ڈراموں کی ادارہ
جاتی ترقی کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ بعض کتابوں میں جو رنگ شالاؤں کا ذکر ہے
،وہ اصل میں گیت سنگیت کے مواقع کے لیے استعمال میں لائی جاتی تھیں۔ اُس
عہد کے اعتبار سے بھی کسی اسٹیج کا ابتدائی روپ آریوں کے دورِ عروج تک
دکھائی نہیں دیتا۔
سنسکرت اور پراکرت؛ سناتن دھرم اور بودھ مذہب؛ لسانی اشرافیت اور عوامی
زبان کی رسّاکشی تقریباً مسیحی کیلنڈر کی سات صدیوں تک بھرپور طریقے سے
جاری رہی۔ سماج، مذہب اور ادب ہر مورچے پر ایک گھماسان مچاہوا تھا۔ بودھوں
نے ذات پات کے بندھن سے نکال کر ہندستان کو پہلی بار مذہب کے جس عوامی
رجحان کو عام کرنے کی کوشش کی تھی، اسے مختلف رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔
برہمنوں اور ان کی مذہبی جکڑبندیوں میں پھر سے سماج الجھنے لگا۔ یہاں تک کہ
ان کے خلاف مورچہ لینے والے بودھوں کے یہاں بھی مسلکی جمود نے ایک نئے
برہمن وادی نظام کو جنم دے دیا۔ بودھ مذہب کی تعلیم تکشلا، نالندہ اور وکرم
شلا کی اونچی فصیلوں میں مقیّد ہو گئی۔ ان سات سو برسوں میں سنسکرت ادب کا
سورج نصف النہّار پر ہے۔ اس دور میں کسی عوامی رجحان کا پتا نہیں ملتا۔
سنسکرت کے جو شہکار اس دور ان سامنے آئے، ان میں تخیّل کازور زیادہ اور
مشاہدے کا طلسم کم کم ہے۔ حقائق سے پرے جست لگانے کی تمنّا آخری حدوں تک
ہے۔ ایسے میں لاکھ ترقّی یافتہ ادب ہونے کے باوجود سنسکرت ایک جزیرے کی طرح
بن گئی اور پھر عوامی خون پانی میّسر نہیں آنے کی وجہ سے مردہ زبان بن گئی۔
اشراف کی زبان کے اس حال تک پہنچنے کے ساتھ ساتھ پراکرتوں کے بھی کچھ دیگر
احوال سامنے نہیں آئے۔ اُنھیں بھی عوامی تعاون کے بغیر جینا نہیں تھا اور
وہ سنسکرت کی طرح علاحدہ اشرافیت کے دھیرے دھیرے اسیر ہوتے چلے گئے۔
ہندستان کی لسانی تاریخ کے اسی موڑ پر عربی، فارسی اور ترکی بولنے والے
مسلمانوں کی آمد ہوتی ہے۔ ساتویں صدی سے بارھویں صدی تک کے زمانے کو ایک
ساتھ نگاہ میں رکھیں تو ہندستان کے لسانی ارتقا کے کچھ زرّیں اصول جھلملاتے
ہوئے دکھائی دیں گے۔ ہندستان میں مسلمان تاجر، حملہ آور اور تبلیغ پیشہ
تینوں حیثیتوں سے داخل ہوئے۔ حملہ آور یا بادشاہت حاصل کرنے والوں کو چھوڑ
دیں تو باقی دونوں طبقوں کو عام لوگوں کے قریب پہنچنا تھا۔ ان کی کامیابی
میں بہر صورت آپسی لین دین اور میل ملاپ کی ضرورت تھی۔ معاملہ تو یہ تھا :
’زبانِ یار مَن تُرکی وَمَن تُرکی نمی دانم‘ ۔بارھویں صدی عیسوی تک اگر
مسلمان بادشاہوں کی کارکردگی کو صِفر مان لیا جائے تب بھی کیا تجارت پیشہ
اور مسلمان صوفیوں کی سرگرمیوں کے بارے میں یہ کہاجا سکتا ہے کہ وہ کوئی
لسانی یاسماجی یا مذہبی جزیرہ بن کر جی رہے تھے۔ جواب نفی میں ہوگا۔ قصّے
کہانیوں کی بات نہیں ہے، پختہ تاریخی حقائق موجود ہیں کہ مسلمان تاجروں اور
صوفیہ دونوں نے کامیابی پائی۔ دونوں کے حلقۂ اثر میں ہزاروں یا لاکھوں
افراد شامل ہوتے چلے گئے۔ یہ مذہب اور حکومت کے تفوّق سے نکل کر عوامی زبان
کی تلاش کا سنہرادور ہے۔ بولیوں کے وفور کا زمانہ ہے۔ ایک ہی وقت میں
سنسکرت اور پراکرتوں سے جیسے ہی اس ملک کے عوام کو نجات حاصل ہوتی ہے،
دیکھتے دیکھتے قندھار سے لے کر ڈھاکا تک اور کشمیر سے لے کر کنیاکماری تک
نئی بولیوں کی پہچان اور ضرورت کے اعتبار سے زبانوں کے استعمال کا شعور جاگ
اٹھتا ہے۔ ہندآریائی زبانوں کی تمام شاخوں کی ترقّی صرف اس وجہ سے ممکن
ہوتی ہے کیوں کہ پہلی بار مذہب اور حکومت کے بغیر زبان کو عوامی استعمال کی
وجہ سے پہچاننے کی صورت پیدا ہوئی۔ ہندستان کی لسانی تاریخ میں مسلمانوں کی
آمد کا شاید یہ سب سے بڑا فیضان ہے۔
تیرھویں صدی عیسویں سے اٹھارویں صدی عیسویں تک یعنی دہلی سلطنت اور مغلوں
کے زوال کے چھے سو برس کی تاریخ میں پھر ہندستان کے لسانی منظرنامے پر نگاہ
دوڑائیں تو اب شمالی ہندستان میں فارسی کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔
ہر چند دکن میں عوامی زبان اردو سرچڑھ کر بولتی نظر آتی ہے۔ مہاراشٹر سے لے
کر بہار اور بنگال سے لے کر سندھ اور ملتان تک صوفیوں اور بھکت کَوِیوں کا
دور دورہ ہے۔ امیر خسروؔ، کبیرؔ، نام دیو، تکارام، گرونانک جیسے افراد صرف
شعر نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ سماجی نظام کی نئی تعبیر وتشریح بھی فرما رہے
ہیں۔ کہیں ذات پات نشانے پر ہے تو کہیں حکومت کا ظلم واستبداد۔ جب ضرورت
ہوتی ہے تو یہ افراد مذہب کے دکھاوے پن اور اجارہ دارانہ رویّے پر بھی چوٹ
کرنے سے باز نہیں آتے۔ ان کی عوامی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ غیر اشراف
طبقے میں پیدا ہوئے لوگوں کو بھی ان کی صداقت کی وجہ سے قابلِ اتّباع سمجھا
جانے لگا۔ بنارس کے کاغذ قلم سے کورے، کبیرؔ کے پَدپنجاب اور راجستھان تک
پھیل چکے تھے۔ شاید انھی بھکتوں کا اثر ہو جس کی وجہ سے اکبر کوبھی مذہبی
تجربہ کرنے کا حوصلہ ملا لیکن انگریزوں کی آمد اور ان کے بااثر ہونے تک
بھکتی آندولن کا یہ روادارانہ عوامی رجحان چند رکاوٹوں کی نذر ہو جاتا ہے۔
حکومت اور مذہب کے ڈانڈے پہلے مذہب پسندوں اور پھر انگریزوں کے ذریعے ملائے
جانے لگے جس سے عوامی زبان کے پھلنے پھولنے اور آزادانہ اظہار کا عَلم
بردار بننے کے مواقع ختم ہونے لگے۔ ہماری اصلاحِ زبان کی تحریک بھی کہیں نہ
کہیں مذہبی اور لسانی سخت گیری سے جڑی ہوئی ہے۔
یہ سوال ادبی تاریخ کے طالبِ علم کے لیے الجھن میں مبتلا کرنے والا ہے کہ
ان چھے سوبرسوں میں ڈرامے کے تعلّق سے کون سی عوامی روایت یاخواص کے لیے
کوئی صورت قائم ہوئی۔ ڈرامے کے ارتقا سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اس عہد
کی اردو تاریخ میں کچھ زیادہ روشن امکانات نہیں حاصل ہوتے ہیں۔ قلی قطب شاہ
سے لے کر میرؔ تک اور نثر میں ملّا وجہی سے لے کر عطا حسین خاں تحسینؔ تک
ایک ٹھوس روایت قائم ہو چکی تھی۔ مثنوی، قصیدہ، غزل، اور داستان جیسی صنفوں
کا بھرپور فروغ ہو چکا تھا لیکن ڈرامے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ نہ
کوئی خواص کے تعلّق سے روایت موجود ہے اور نہ عوامی پہل کا پتا چلتا ہے۔
دوسری زبانوں کے ارتقا میں ڈرامے ابتدائی دور میں اس زبان کی ترقّی کا واضح
زینہ بنتے ہیں لیکن اردو میں تقریباً اندھیرا چھایا رہتا ہے۔ اب سوال یہ ہے
کہ اُن چھے سو برسوں کے دوران جب ہماری زبان تشکیل کے مراحل سے آگے بڑھ کر
نت نئی تبدیلیوں سے ہم کنار ہورہی ہے، اس وقت بھی ہمارے پاس کوئی ڈراما
کیوں نہیں ہے؟ کیا اس سماج کو کسی تفریح کی ضرورت نہیں تھی؟ یا اس زمانے کے
لوگوں کو کھیل تماشے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی؟ یا کیا اس وقت کا سیاسی
سماجی ماحول اس کی اجازت نہیں دیتا تھا؟ یا مذہب کی طرف سے تو کہیں کوئی
رکاوٹ نہیں پیدا کی جارہی تھی؟ سوالات کے سرے جو اب سے زیادہ مشکل نئے
سوالوں کو جنم دے رہے ہیں۔ لیکن کیا اس بات پر غور کیے بغیر ہمیں آگے بڑھنا
چاہیے کہ اقتدار یا مذہب کی طرف سے کون سی ایسی بات ہو رہی تھی جس سے یہ
اندازہ لگایا جائے کہ ڈراموں کو ترجیح نہیں دینا اس سماج نے شاید طے کر
رکھا تھا۔ یہ غور کرنے کی بات ہے کہ مذہبِ اسلام کے عمومی اصول بہر صورت ان
کھیل تماشوں اور تفریحی ترکیبوں کی حوصلہ افزائی نہیں کر رہے تھے، اور شاید
بادشاہوں میں بھی اتنی ہمّت نہیں تھی کہ اس مذہبی حکم نامے سے روگردانی
کرے۔ اردو میں ڈراموں کی عدم مقبولیت یا بہت دیر سے اُبھرنے کی شاید یہی
وجہ ہو سکتی ہے۔
تاریخ کے اسی موڑ پر ہندو مذہب سے متعلّق قصّے کہانیوں اور روایتوں کو
بنیاد بنا کر عوام وخواص دونوں کی طرف سے انیسویں صدی میں اردو ڈرامے کی
داغ بیل پڑی۔ تقریباً انیسویں صدی کے نصف میں رادھا کنھیّا (واجد علی شاہ)،
اندر سبھا (مرزا امانت) اورگوپی چند جلندھر (بھاؤواجی لاڈ) سامنے آئے۔ اردو
کے اِن تین ڈراموں کی تقدیم وتاخیر کی بحث چھوڑیے، سب کے موضوعات ہندو مذہب
اور صنمیات سے متعلق ہیں۔ اِس کے آگے پچاس برسوں تک ڈرامے انھی موضوعات کے
اِرد گِرد گھومتے نظر آتے ہیں اور عوامی نہج پر ہی اُن کا ارتقا ہوتا ہے۔
کہنے کی یہ ضرورت نہیں کہ انیسویں صدی کے نصف دوم میں اردو ڈرامے نے
باضابطہ اسٹیج حاصل کرلیا اور کاروباری منچ پر اِسے واضح استحکام حاصل ہوا۔
ہندو، مسلمان اور پارسی سب لوگوں کے ڈراموں کے موضوعات تقریباً ہندو صنمیات
سے متعلق ہی تھے۔ اُس دوران سنسکرت اور یونانی ڈراموں کے جو تراجم سامنے
آئے اُن میں بھی یونانی اور ہندو دیومالا کے بھرپور اثرات تھے۔ انیسویں صدی
کے اواخر کے اخبارات سے بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مذہبی اور صنمیاتی
ڈرامے اُس زمانے میں کس قدر مقبول تھے اور ڈراما کمپنیوں کی تجارت کا سلسلہ
کتنا منافع بخش تھا۔ کئی کئی مہینوں سے اُن تھیٹر کمپنیوں کے استقبال کی
تیاری چلتی رہتی تھی۔
مذکورہ تمام ڈراموں کی زبان کم وبیش اردو تھی۔ بھارتندو ہرِش چندر سے قبل
ہندستانی ڈرامے سے متعلق جو متن دستیاب ہوئے، اُن میں سے بیشتر واضح طور پر
اردو زبان میں تصنیف شدہ ہیں۔ بھارتندو خود اردو زبان وادب کے تربیت یافتہ
تھے اور اُن کا ادبی سرمایہ اولاً اردو میں اور پھر اردو کے لسانی طلسم کے
سائے میں سامنے آیا۔ انیسویں صدی کی ڈرامائی پیش کش میں عوامی اور خواص کی
روایتیں شیروشکر ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ جسے شاہی اسٹیج کہتے ہیں، وہاں
بھی قصّے کا طور اشرافیہ سرحدوں سے دوٗر بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ آخر یہ
کیسے ممکن ہوپایا کہ خود نوابِ محترم بھی بہ نفسِ نفیس ناچ گانے میں شریک
ہونے لگے۔ لیکن جیسے ہی اسٹیج کی مستقل اور ٹھوس بنیاد پڑی اور متن کی
توسیع و اِشاعت کی فصل لہلہانے لگی؛ عوامی روایت الگ تھلگ معلوم ہونے لگتی
ہے۔ کاروباری وجوہات سے ہمارے ڈرامے کے موضوعات بدلتے ہیں اور اسٹیج کی
ضرورت اور نئے تماشائی کی تلاش میں ڈراما نگاروں کو ہندو مذہب سے الگ قصّے
کہانیوں کی تلاش میں خود کو آگے لانا پڑا۔ جس کا ایک سِرا فلموں کی طرف گیا
اور دوسرا اسٹیج کی حد تک آج بھی قائم ودائم ہے۔
انیسویں صدی کے نصف دوم میں ہی ایک متوازی سلسلہ قائم ہوا جس نے ہندو مذہب
کے صنمیاتی موضوع کو اپنے لیے معتبر جانا۔ اصل میں یہ عوامی اسٹیج کا ایک
لچیلا ڈھانچہ تھا۔ گانوگانو میں کرشن لیلائیں اور رام لیلائیں ، رقص
وموسیقی کے اجتماعات ہوتے تھے۔ اِن قصّوں میں کچھ حقیقت اور کچھ فسانہ والا
معاملہ تھا۔ ڈراما کھیلنے والے رام، کرشن اور راجا اندر کی زندگی کو بتاتے
بتاتے اپنی زندگی یا اپنے سماج کے مسئلوں کو بھی اُس میں شامل کرتے جاتے
تھے۔ دھیرے دھیرے دوسرے قصّے اور کہانیوں یا عوامی روایات کو بھی اِن
پروگراموں میں شامل کرنے کی کوشش ہوئی۔ کہنا چاہیے کہ راس لیلا، رام لیلا،
کرشن لیلا، اندر سبھا یا نوٹنکی کھیلنے والوں نے اپنی پیش کش کو روحِ عصر
سے جوڑ کر دکھانے کی ایک کارآمد ترکیب ایجاد کی۔ اِن ناٹک کھیلنے والوں میں
جو زیادہ مشّاق اور ہوشیار فن کار تھے، انھوں نے اپنے اضافوں کو مستقل
حیثیت دینے میں کامیابی پائی۔ ہندستان کی جنگِ آزادی کی تاریخ میں نمایاں
کردار ادا کرنے والوں میں بھکاری ٹھاکر کا نام آتا ہے جن کا ڈراما
’بِدیسیا‘ جدید عوامی کلاسک کا درجہ رکھتا ہے۔ ممتاز ہندی شاعر کیدار ناتھ
سنگھ نے اپنی ایک نظم میں بھکاری ٹھاکر کو بہار اور یوپی کے عوام کو بیدار
کرنے کے لیے یاد کیا ہے۔
اردو ڈرامے کی ابتدائی روایت اور اسٹیج ڈرامے کی آمد کے ساتھ متوازی طور پر
دیہی ڈراموں کی روایت کو ہی ’نوٹنکی‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ
ڈرامے کے ماہرین ہم عصر ڈراموں کی تعبیرو تشریح میں ایک نوٹنکی شَیلی کی
پہچان کرتے ہیں جسے پیچھے جانے پر واضح طور پر نصف دوم کی عوامی روایت سے
جوڑا جا سکتا ہے۔ آج کے تجرباتی ڈراموں میں جگہ جگہ نوٹنکی شیلی کا استعمال
ہوتا ہے۔ آج بھی سوانگ، رہس جیسے امور ڈراموں میں حسبِ ضرورت جگہ پاتے ہیں۔
مغرب کے تجرباتی ڈراموں نے بھی ہمیں حوصلہ دیا کہ کلاسیکی اور عوامی اسٹیج
کے عناصر کو اپنے نئے ڈراموں میں شامل کرکے کچھ علاحدہ ذائقہ تلاش کیا
جائے۔ شاید انھی اسباب سے نوٹنکی فلم اور جدید ڈراموں کے بے پناہ وسائل کے
باوجود معدوم نہیں ہوئی اور اپنی تجرباتی بنیادوں اور عوامی توقعات پر
بہرصورت قائم رہی۔
ڈراما چوں کہ ترسیلی آرٹ ہے اور اسٹیج یا پیش کش کی بنیاد پر یہ تکمیل تک
پہنچتا ہے، اس لیے اُس کی زبان کی شناخت کے معاملے میں اکثر وبیشتر اردو
اور ہندی کے امور زیر بحث نہیں آتے۔ نوٹنکی کے تعلق سے موجود متون میں بھی
ہندی اردو کے مسائل بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔ میں نے اِس مضمون کی تیاری کے
دوران واضح طور پر نوٹنکی مانی جانے والی سات مقصود بالذات تحریریں ملاحظہ
کیں------- اردو میں ’تروینی کا ہَرن‘ (مصنّف سیدھولال)، ’شہزادی کا
سانگیت‘ (مصنّف مُرلی دھر)، ’نوٹنکی شہزادی‘ (مصنّف شری کرشن کھتری)۔اِسی
طرح پنڈت نتھارام شرما گوڑھ کے تحریر کردہ چار متون------’مکتب کی محبت‘،
’نقلی مالن‘، ’د ہی والی‘ اور ’روپ بستی‘۔
اِن نوٹنکیوں پر اَداکاری کے پہلو سے گفتگو سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اگر شائع
شدہ متون تک ہی خود کو مُرتکز کروں تو پہلا تاثّر یہی ہوگا کہ اِن کی زبان
کم وبیش اردو کی تقریری زبان ہے۔ شاید گاندھی جی جس ’ہندستانی‘ کا تصّور
پیش کررہے تھے، اُس کے عملی نمونے نوٹنکی کے اسکرپٹ میں دیکھنے کو ملتے
ہیں۔ زبان کی سطح پر ایک دوسرا بڑا تجربہ یہاں دیکھنے کو ملتا ہے کہ نثر
اور نظم کی ایک ایسی ملی جلی شکل ہے جس میں کبھی کبھی یہ بتانا مشکل ہو
جاتا ہے کہ نظم کہاں ختم ہوتی ہے اور نثر کہاں شروع ہوجاتی ہے۔ ایسی زبان
پر گفتگو کرتے ہوئے ڈرامے یا فکشن کی زبان کے بہت سارے مسلّمات بھی زیرِ
بحث آسکتے ہیں۔ قدامت اور جدّت یا عوامی اور اشرافیہ سے ڈرامے اور نوٹنکی
کے تعلّق پر بھی کچھ باتیں لازم ہیں۔ ہماری مذہبیت اور اُس سے الگ انفرادی
یا سماجی ذہن کے اختلافات بھی توجّہ سے مرکزِ نگاہ بنائے جا سکتے ہیں۔
نوٹنکی کے حاصل شدہ مَتُوْنْ کے عہد کے تعیّن میں محققین کے درمیان اچھے
خاصے اختلافات موجود ہیں۔ ہر مقبول اور عوامی روایت کا یہ مقدّر ہوتا ہے کہ
ایسے تحقیقی مسائل اور الجھاوے سامنے آجائیں۔ امیر خسروؔ کے اردو مَتْنْ کے
معاملے میں استناد کے مقابلے شبہات زیادہ ہیں۔ اسی طرح نوٹنکی کے تعلق سے
عہد کا تعیّن کرنا ایک دشوار کام ہوجاتا ہے۔ عوامی ہیئت ہونے کی وجہ سے
ایسے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں کہ انھیں کبھی پہلے کھیل لیا گیا اور لکھنے
کی منزل بعد میں آئی۔ بعض چیزیں تو کئی لوگوں نے مل کر لکھی ہوں گی اور کئی
متن ہر نمایش کے بعد بھرپور تبدیلیوں کے ساتھ سامنے آتے ہوں گے۔ ڈرامے کی
تحقیق سے تعلق رکھنے والے ہر طالبِ علم کے لیے ایسی مشکلات قدم قدم پر
رونما ہوتی ہیں۔
عام طور پر اردو یاہندستانی زبانوں میں نوٹنکی کا سراغ کب سے لگایا جائے،
اس پر عدم تحقیق اور قیاسات کے گھوڑے دوڑانے کا رواج رہاہے۔ دونو ٹنکیوں کے
متن کا موازنہ کرکے عشرتؔ رحمانی یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ نوٹنکیوں کی
ارتقائی شکل امانتؔ کی ’اندرسبھا‘ میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ محمّد اسلم قریشی
اس سے اختلاف کرتے ہیں اور نوٹنکی کے ان مَتُون کو ’اندرسبھا‘ سے قدیم تر
نہیں مانتے۔ واقعتا نوٹنکی کا فروغ اسٹیج کے استحکام کے ساتھ اور اس کے بعد
میں ہوا ہوگا۔ عوامی روایت ہونے کی وجہ سے اس کی مقبولیت شہروں کے مقابلے
دیہی عوام کے بیچ زیادہ رہی، جہاں محدود تعداد میں تعلیم یافتہ افراد کے
سبب متن تیار کرنے اور محفوظ کرنے کا کام سرگرمی کے ساتھ ہونا ممکن نہیں
تھا۔ دھیرے دھیرے چوں کہ ڈراموں کی ایک مخصوص شیلی بن گئی، اس لیے اس کا
رنگِ سخن بھی مخصوص ہو گیا۔ آج جو متن ہمارے سامنے ہیں، ان کی قدامت کے
سلسلے سے کوئی واضح یا حتمی گفتگو کرنا مشکل ترامر ہے۔ جس طرح سترھویں اور
بیسویں صدی کی زبان کو بھی امیرخسرو کے نام پر بعض پہیلیوں کی معرفت پیش
کردیا جاتا رہا ہے۔ اسی وجہ سے نوٹنکی کی زبان پر گفتگو کرتے ہوئے زبان کے
ارتقائی امور سے صرفِ نظر کرنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
سب سے پہلے مرلی دھر جو اندر اسن کے اکھاڑے کا شاعر ہے ،اس کے سانگیت یعنی
نوٹنکی سے دو دو ہے اور ایک چوبولہ ملاحظ کیجیے :
تیر ی خدمتخاطری مجھے نہیں منظور
Cبھاوج تم کو ہے بڑا چھایا آج غرور
Eہنسنے میں کیوں ہوگئے غصّہ آپ حضور
Gہاتھ جوڑ ونتی کروں، کیجیے معاف قصور
‹و ہے
Gآیا آج غرور بھئی مغرور نور مستانی
Wکیا ہم کو سمجھاتی ہو، یہ ٹھان دلوں پر ٹھانی
K سماتی ہے من میں دیکھوں اُس کی پیشانی
Uتیرے ہاتھ کا پیؤں نہ جل پیاوے نوٹنکی رانی
چوبولہ
¬ شری کرشن کھتری کی ’نوٹنکی شہزادی‘ سے حمد، غزل، دوہا اور نثر کے نمونے
بھی ملاحظہ ہوں :
رقم قلم حمدِ خداکراوّل آخیر
Cکُن سے عالم کو کیا جس نے باتو قیر
حمد
Cحسینوں میں اس کی جو شہرت ہے پیارے
=نہ ویسا کوئی خوب صورت ہے پیارے
=تُلے روز پھولوں سے رشکِ پری وہ
;نزاکت سے حیراں نزاکت ہے پیارے
غزل
Iمجنوں بن بن میں پھرا کر لیلا کی چاہ
Eعشقِ ہیر میں ہوگیا رانجھا تخت تباہ
دوہا
çدوڑ (نثری نمونہ) رب العالمین لا مکاں۔ درخشاں نورالبیاں۔ مدد دے گا حق
تعالیٰ۔ لکھوں شاہ زادی نوٹنکی کا سنگیت نرالا۔
عشرتؔ رحمانی نے ’محبت کی پُتلی‘ نوٹنکی کے اقتباسات درج کیے ہیں۔ مصنّف کا
نام انھوں نے شری کرشن لال کان پوری لکھا ہے۔ ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ
بھی شری کرشن کھتری ہی ہیں۔ جن کی ’شہزادی نوٹنکی‘ کے اقتباسات پہلے درج
ہوچکے ہیں۔ ’محبت کی پُتلی‘ کا آغاز نہایت شاعرانہ ہے۔ اسے ملاحظہ کرنے کے
بعد ایک نثری نوشتے کو بھی مثال کے طور پر پڑھنا چاہیے۔
معزّز شایقیں ہے اُس زمانے کا یہ افسانہ
حکومت شاہِ افضل جن دنوں فارس میں جاری تھی
ضرورت سے سوازر سے تھی حاصل فارغ البالی
رسالہ، توپ خانہ، حسبِ خواہش فوج بھاری تھی
یہ سب ہوتے ہوئے محروم تھا فرزند سے افضل
جہاں میں سلطنت جس کے سبب بیکارساری تھی
مگر ہاں ایک دختر نیک اختر ماہرو گھر تھی
پدر تھا جس پہ قرباں اور ماں سوجاں سے واری تھی
مجسّم حسن کی تصویر تھی، صنعت تھی قدرت کی
حسینانِ جہاں کو جس کے آگے شرمساری تھی
زمانہ کم سِنی کا ہو چکا تھا ایک دم رخصت
جوانی جوش پر تھی حسن کی فصلِ بہاری تھی
پسند تھی دل کو آزادی بہت، شادی سے نفرت تھی
اُسی کی فکر افضل شاہ کو ہر وقت بھاری تھی
نثر : افسوس شمسہ تیرے واسطے ایک بے گناہ کا خون بہایا، خدا کا گنہگار ہو
کر بادشاہ کہلایا مگر پھر بھی گوہرِ مقصود ہاتھ نہ آیا۔
پیش کردہ مثالوں سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ ان کے لکھنے والے اچھا
خاصا ادبی شعور رکھتے ہیں۔ ان کے پاس قصائد، مثنوی، غزل، مراثی اور
داستانوں کی روایت سے صیقل کیا ہوا وہ آئینہ ہے جس میں حسبِ ضرورت وہ اپنے
زمانے کا روپ بھر سکتے ہیں۔ نثر کے جو نمونے ہیں ان میں تکلّف اور مرصّع پن
موجود ہے۔ ’محبت کی پُتلی‘، سے جو اشعار نمونے کے طور پر نقل کیے گئے ہیں،
انھیں پڑھتے ہوئے ڈراما نگار کی شاعرانہ صلاحیت کا بھرپور اندازہ ہوتا ہے۔
تشبیب کی سی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ مختلف نقادوں نے نوٹنکیوں کے اردو اور
ہندی انسلاکات پر روشنی ڈالی ہے۔ دوہے کے طور پر جو اشعار درج ہیں، ان کا
لہجہ ہندوی ہونے کے باوجود انیسویں اور بیسویں صدی کی اردو شاعری کے انداز
کا ہے۔ دوہوں میں عربی اور فارسی کے الفاظ شامل کرکے اِن ڈراما نگاروں نے
ایک امتزاجی ادبی فضا قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ چوبولے بھی واقعات کو
پھیلانے کے ساتھ ساتھ کرداروں کے جذبات کی ترسیل میں کامیاب معلوم ہوتے
ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ نمونے سوسال سے زیادہ قدیم نہیں۔ زبان کی
صفائی اور بیان میں ہمواری سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ لکھنے والے مشّاق ہیں
اور اپنی زبان، فن اور پیش کش؛ ہر پہلو میں مہارت ثابت کرتے ہیں۔
ان کے مقابلے نتھارام شرما گوڑ کے چار مَتُوْنْ کی زبان کا مطالعہ کسی
حوصلہ افزا صورتِ حال کا پتا نہیں دیتا۔ یہ چاروں متن دیوناگری میں ہاتھ رس
سے شایع ہوئے ہیں۔ پہلے ان کے چند اقتباسات ملاحظہ کیجیے :
ارے بھوپ! اب کی دفعہ اتنی جھوٹی بات
Gکپکپا اُٹھا دیکھ تو، مہارانی کا گات
Aرانی سچ سچ بتاؤ کیا لگھو پُترنے
7آبرو لی تمھاری، بگاڑا دھرم
9جھوٹ بولا ذرا بھی میرے سامنے
?تو ابھی تن تمھارا ہو جل کر بھسم
Gبولوں گا سچ ہی سنو، جوگی جی مہا راج
Gبالکل نہیں چھپاؤں گا، تم سے بھی آج
J (روپ بستی۔ نتھارام شرما گوڑ۔ ہندی)
اجی، اس سے ہی بولو، اپنے یہ کیوں ستائی ہے
Qپکڑ کر چھوڑ نا لازم نہیں، اس کی کلائی ہے
Uتجھ کو آفت، مجھ کو راحت، میری پیاری ہوگئی
Kمیں چلی ہنستی یہاں سے، تو بچاری ہوگئی
Qبہت لوٹے ہیں مزے، اب لوٹنے مجھ کو بھی دے
Gجگ گئی اب میری، لے تقدیر تیری سوگئی
H (دہی والی۔ نتھارام شرما گوڑ۔ہندی)
عاشق کا اپنے لیلا، ٹک ساتھ دیا ہوتا
Kمنظور تھا چھپنا تو، وے دل نہ لیا ہوتا
Mجب دیکھ چکے صورت، پردے میں کیا رکھا اب
Kپردہ ہی جو کرنا تھا، پہلے سے کیا ہوتا
Qکیوں مجنوں ہوا پھرتا، کیوں مشکلیں اٹھاتا
Aگرجام محبّت کا، تیرا نہ پیا ہوتا
Kملنے کی آس تجھ سے، مجھ کو جلا رہی ہے
Gورنہ قسم ہے تیری، اب تک نہ جیا ہوتا
S (مکتب کی محبت ۔ نتھارام شرما گوڑ۔ ہندی)
’’ایسا ہووے نہ کہیں جائے وہ شیدائی ہو، کھل گیا بھید تو، پیدا بڑی بُرائی
ہو۔ چھیڑ خانی شروع ہوتی ہے ضرور اے دل، گلِ خوش رنگ سے بلبل کی جب رسوائی
ہو۔ بھلا کیوں کرنہ ہو دیوانی بشر کی طبیعت، نازنیں پاس ہو اور رات ہو،
تنہائی ہو۔ کچھ نہ کچھ بات نہ پیدا ہو غیر ممکن ہے، آگ اور پھونس میں ویسے
ہی دشمنائی ہو۔ جان لی، قتل کرادے گی فجر نوٹنکی، اب میری جان کی ہر گز
نہیں دہائی ہو۔‘‘
(نقلی مالن۔ نتھارام شرما گوڑ۔ ہندی)
نتھا رام شرما کے مذکورہ چاروں اقتباسات کی زبان اردو کے رنگ وآہنگ میں سجی
دھجی ہے، ہر چند ان کی اشاعت دیوناگری میں ہوئی ہے۔ ان چاروں کی زبان کا
مطالعہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ گذشتہ صفحات میں مرلی دھریا کرشن کھتری یا
شری کرشن لال کان پوری کے مقابلے نتھارام ادبی اور علمی اعتبار سے کم پختہ
ہیں۔ زبان اور عروض کی خامیاں ان کے مقابلے زیادہ ہیں۔ پوری نوٹنکی میں ان
کی عدم پختگی اور شخصیت کے کچّے پن کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ قرائن یہ
کہتے ہیں کہ نتھارام کا عہد بعد کا ہے۔ اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ نوٹنکی میں
رفتہ رفتہ معیار کے اعتبار سے گراوٹ کیوں آتی گئی؟ اس سوال کے جواب میں
بیسویں صدی کے وسائلِ تفریح کو بھی نگاہ میں رکھنا چاہیے۔
نوٹنکی میں رام، کرشن اور راجا اِندر کے واقعات کے علاوہ جن نئی کہانیوں کو
شامل کرنے کی کوشش کی گئی، ان کا اثر نہایت محدود تھا۔ اکثر عشق وعاشقی کے
قصّے بیان کیے جاتے رہے ہیں۔ بعض افراد نے نوٹنکی کے تفریحی رنگ کو اہمیت
دی تو چند لوگوں نے اصلاحِ معاشرہ کی ذمّے داری عطا کردی۔ بعض ڈراما نگاروں
نے سماجی اور سیاسی جِدّوجہد کا بھی اسے آلۂ کار بنایا۔ جن کا نقطۂ نظر
جتنا وسیع تھا اور فنّی اور تخلیقی سطح پر جو بڑے اور پھل دار درخت تھے،
انھیں ہر دور میں زیادہ اہمیت حاصل ہوئی۔ گھریلو قصّے کہانیوں کے بیان میں
ظرافت کی تلاش بھی نوٹنکی لکھنے والوں کا ایک خاص اور بھرپور موضوع رہا۔
آج یہ کہنا مشکل ہے کہ نوٹنکی جیسی ڈرامائی ہیئت کا مستقبل کس قدر روشن ہے؟
اردو کے پورے ڈرامائی ادب پر غور کرتے ہوئے بھی نہ صرف یہ کہ اپنی بے
سروسامانی کا احساس ہوتا ہے بلکہ بھرپور طریقے سے بے وقعتی کا بھی یقین ہو
جاتا ہے۔ ایسے میں ایک چھوٹی سی عوامی ہیئت نوٹنکی کو کون بچاپائے گا اور
آخر کیوں؟ ایسے اور بھی سوالات قائم ہوتے ہیں۔ فلم اور ٹیلی وژن سے مقابلہ
اپنے آپ میں اتنا مشکل کام ہے کہ مستقبل میں فنونِ لطیفہ اور تفریح کے
مختلف ذرائع کس حال میں ہوں گے، اس کی کوئی پیشن گوئی نہیں ہو سکتی ۔
اندازہ یہی ہے کہ دیہی عوام کی سرپرستی میں آگے کئی صدیوں تک نوٹنکی جیسے
تفریحی اور مستحکم ذریعے کی ضرورت قائم رہے گی۔ موضوعات کے تنوّع کے ساتھ
ساتھ نوٹنکی نے خود کو مخصوص شیلی کے طور پر مختلف مواقع سے اپنی موجودگی
کو یقینی بنایا۔ مستقل ڈراموں کے ایک سین یانکّڑ ناٹکوں کے چند منٹ میں
نوٹنکی کی شیلی کا استعمال کرکے ڈائرکٹر کا میابی کی نئی تاریخ لکھتا ہے۔
اس لیے نوٹنکی کے وجود اور استعمال کے سلسلے سے ابھی ہمیں زیادہ مایوس ہونے
کی ضرورت نہیں۔(2009) |
|