" ازل سے لے کر اب تک دنیا کروڑہا گنا ترقی
کرچکی ہے.انسان چاند پر پہنچ چکا ہے، نت نئی دریافتوں کا سلسلہ جاری ہے ،
دنیا ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے، زندگی کے ہر میدان میں جدت لائ جارہی ہے
، جہاں دیکھو وہیں تعمیر نو کی چکاچوند نظروں کو خیرہ کیے دیتی ہے.
یہی وجہ ہے کہ حیات قلیل بھی نعمت عظمی سے کم نہیں لگتی، ہر طرف اذہان و
قلوب کو معطر کرنے کے سامان بکھرے ہوئے ہیں ! " مگر......
فلاسفی کے پروفیسر خاور بیگ کی آواز ہال میں گونج رہی تھی ، سارا ہال دم
سادھے لیکچر سن رہا تھا ، پروفیسر لمحہ بھر کو سانس لینے کو رکے.
" مگر تصویر کا دوسرا رخ بےحد پریشان کن ہے ، تاریک ہے ، جمود و تعطل کا
شکار ہے ، کسی مفلوج وجود کی طرح ہے "
بات کرتے کرتے پروفیسر کا انداز یکایک جارحانہ ہو گیا ، کئ نیم دراز کیفیت
میں بیٹھے طلباء سیدھے ہوکر بیٹھ گئے.
پروفیسر کہہ رہے تھے ...
" ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہر زمانے میں دین کے نام نہاد دعویدار ، علمبردار
بلکہ ٹھیکیدار ترقی کی راہ میں ایک انچ بھی آگے بڑھنے کو تیار نہیں ہوتے ،
ان کے جو عقائد و نظریات آج سے سینکڑوں سال قبل تھے آج بھی بلا کم و کاست
بعینہ وہی ہیں ! معاشرے کا عضو معطل بن کر اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کیے
ہوئے ہیں.
دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے اور یہ حضرات ابھی داڑھی ٹوپی کے چکر ہی سے
نہیں نکلے، ڈریس کوڈ بدلنے کو تیار نہیں، پردے کے نام پر حوا کی بیٹیوں کو
قید رکھنے پر بضد ہیں۔ وہی نماز،وہی روزہ، وہی زکوہ وہی حج کے فرسودہ نظام
کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ان میں تبدیلی تو کیا ، ذرا سی جدت کے بھی قائل
نہیں۔
کاش ! یہ طبقہ اپنی اجارہ داری کو ختم کرتا اور نئی دنیاوں کی تلاش میں
سرگرم ہوجاتا مگر اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود وہی ڈھاک کے تین پات والا
معاملہ نظر آتا ہے !
پروفیسر صاحب کی زبان ابھی شعلے اگل رہی تھی کہ یکایک اگلی نشست پر کافی
دیر سے پہلو بدلتا ان کے ہونہار شاگرد علی شان کا ہاتھ فضاء میں بلند ہوا !
پروفیسر کی روانی سے چلتی ہوئ زبان کو بریک لگ گئ ،انہوں نے بادل نخواستہ
اسے بولنے کی اجازت دی ۔ " یس "
اجازت ملنے پر علی شان اپنی نشست پر کھڑا ہوگیا ۔
سر ! میں آپ کی بیان کردہ باتوں سے کچھ اختلاف رکھتا ہوں،
اپ نے فرمایا کہ دنیا ترقی کی راہوں پر گامزن ہے جبکہ میرے نزدیک تو کائنات
کی ہر ہر شے جمود کلی کا شکار ہے ،آسمان، زمین، سورج، چاند ،ستارے غرضیکہ
ہر نظام ازل سے لے کر آج تک اسی طرح چلا آرہا ہے،اس میں ذرہ برابر بھی
تبدیلی نہیں آئ ۔
خود حضرت انسان ہی کو دیکھ لیجئے کہ اپنے وجود میں ذرا سی بھی جدت نہیں لا
سکا، ہمیشہ سے کھانا منہ ہی سے کھاتا چلا آرہا ہے، سونگھنے کا کام ناک ہی
سے لے رہا ہے اور سننے کے لیئے اس کے پاس کان ہی رہ گئے ہیں، ان کے بیچ محض
چند انچ کا فاصلہ ہونے کے باوجود بھی ان کی صلاحیتوں کو ادل بدل نہیں کرسکا
!
اس کی کائنات میں دلچسپی کے محور بھی ازل سے وہی ہیں،اس کی خواہشات نفسانی
بھی نہیں بدلیں بلکہ تمام تر ترقی بھی اسی کے گرد گھوم رہی ہے۔
سر! اس لحاظ سے تو ہم ابھی دقیانوسیت کا شکار ہوتے ہوئے بھی ترقی کا زعم
رکھتے ہیں ، آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ اتنی مادی ترقی کے باوجود ہمیں ان کی
فرسودگی کا خیال نہیں آتا ؟؟؟؟؟
سارا ہال تالیوں کی آواز سے گونج اٹھا ۔
علی اپنی بات مکمل کرکےدوبارہ اپنی نشست سنبھال چکا تھا ۔ تالیوں کا شور
تھما تو پروفیسر خاور بیگ جو محو حیرت اس کی بات کی گہرائیوں میں گم تھے،
اس کیفیت سے باہر نکلے اور اپنے سابقہ لہجے میں گویا ہوئے :
دیکھئے ! سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کائنات میں موجود اشیاء دو قسم کی ہیں،
اس بات سے تو آپ سب واقف ہی ہونگے کہ دنیا کی تمام چیزیں اپنے وجود کے لیئے
کچھ بنیادی چیزوں کی محتاج ہوتی ہیں ، بنیاد کا کام دینے والی اشیاء اپنی
ذات میں تبدیلی کی مطلقا صلاحیت نہیں رکھتیں۔جیسے ہر چیز کی اصل ایٹم ہے تو
اب اس سے اربوں چیزیں بنائ جاسکتی ہیں مگر اس کے اپنے اندر معمولی سی
تبدیلی پیدا کرنا بھی ساری دنیا کے بس سے باہر ہے.
یعنی انسان اپنے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے جتنی چاہے ترقی کرسکتا ہے مگر
جو چیز اس کے دائرۂ کار سے باہر ہے اس کے بارے میں ہر بحث بیکار ہے، اور
جہاں تک کائنات کے نظام کی بات ہے تو وہ ازل سے ابد تک باقی رہنے والا نظام
ہے،اس کی تبدیلی اس کی موت کی پیامبر ثابت ہوسکتی ہے، مجھے امید ہےکہ میں
اپنی بات اب درست طور پر سمجھا پایا ہوں !
وہ فخر یہ لہجے میں بولے ۔
جی سر ! بالکل ایسا ہی ہے ، مجھے مزید وضاحت کی اجازت دیجئیے !
ہاں ہاں ،کیوں نہیں ،
پروفیسر خوشدلی سے بولے ۔
علی دوبارہ کھڑا ہوگیا:
شکریہ جناب ! آپ کی وضاحت سے خود آپ ہی کےبقیہ تمام اشکالات بھی دور ہوگئے!
اپنی بات کہہ کر وہ متوقع ردعمل دیکھنے رکا...
کیا مطلب ہے تمہارا ؟تم آخر کیا کہنا چاہتے ہو ؟
سر ! بالکل وہی بات جو آپ نے ابھی فرمایا کہ : کل کائنات کی اشیاء دو حصوں
میں منقسم ہیں، متبدل اور غیر متبدل
تو جہاں تک فطرت کے نظام کا تعلق ہے تو وہ مکمل غیر متبدل ہے اور اس کی ایک
ہی وجہ ہے کہ اس میں سرے ہی سے کوئ کمی اور نقص موجود نہیں جس کو دور کرنے
کی ضرورت ہو ،اس میں تبدیلی کی سوچ بھی رکھنا گویا اس کو تباہ کرنے کی سازش
ہے، قدرت کے ساتھ اعلان جنگ ہے،فطرت سے دوری ہے جس کا انجام بربادی و ہلاکت
کے سوا کچھ بھی نہیں،
تو سر بالکل اسی طرح دین بھی اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا نظام زندگی ہے ،یہ
کسی انسان کے ہاتھوں کی کاریگری نہیں ہے کہ اس کو تبدیل کرنے یا جدید شکل
دینے کی ضرورت ہو، یہ ماورائے عقل ہے،اسے عقل کے تابع کرنا ممکن ہی
نہیں،ہاں اس کو سمجھنے کے لیئے عقل کا استعمال کیا جا سکتا ہے جیسے کائنات
کے بھید و اسرار معلوم کرنے کے لیئے کیا جاتا ہے چاند کو اپنی مرضی کے
مطابق ڈھالنے کے لیئے عقل کو استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے پوشیدہ راز
معلوم کرنے کے لیئے عقل کے گھوڑے دوڑائے جاتے ہیں ۔
اگر یہ دین عقل کے تابع ہوتا تو اس مقصد کے لیئے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس
ہزار پیامبر بھیجنے کی ضرورت پیش ہی نہ آتی اور نہ ہی وحی کی ضرورت رہتی،یہ
عظیم الشان سلسلہ ہی اس بات کو سمجھانے کے لیئے کافی ہے کہ اس کے بغیر دین
کو سمجھنا ناممکنات میں سے تھا ، ابھی آپ خود اصول بتاچکے کہ جو چیز انسان
کے دائرہ کار سے باہر ہو اس میں تبدیلی کی بات کرنا بھی اس کی روح کو مار
ڈالنے کے مترادف ہے "
علی اپنی بات مکمل کر چکا تھا اور ہال میں موجود مجمعے پر سناٹا طاری تھا!
از قلم
بنت میر
|