حقوق نسواں کا اسلامی تصور

 آجکل عورتوں کے حقوق اور آزادی اور مردوں کے اس معاشرے پر کافی بحثیں کی جاتی ہیں ۔عالمی یوم
خواتین کے موقع پر سیمینارز وغیرہ ہوتے ہیں ہمارے معاشرے پر بڑی تنقید ہوتی ہے ۔اور چونکہ ہم سب مسلمان ہیں اسلئے اسلام پہ تنقید ہوتی ہے ۔اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے کلچر کو اسلام کا نام دے دیا ہے ۔اپنے بنائے گئے رسوم ورواج کو اسلام کا لبادہ ااوڑھا دیا ہے اسلئے اب کوئی بھی جب تنقید کرتا ہے تو اسلام پہ کرتا ہے کیوں کہ وہ اسلام کو اسکا ذمہ دار سمجھتا ہے ۔

ہمارے دیہاتی معاشرے میں عورت کی حیثیت پاوں کی جوتی کے برابر ہوتی ہے۔وہ کولہو کے بیل کی طرح دن کے چووبیس گھنٹے کام کرتی ہے۔ بچے وہ پالتی ہے ۔صفائی ستھرائی وہ کرتی ہے۔جانوروں کی دیکھ بھال کرتی ہے اگر ہوں تو۔اور اسکے علاوہ فصلوں میں بھی مرد کے ساتھ کام کرتی ہے کھانا پکانا اور کپڑے دھونا بھی عورت کے ذمے ہوتا ہے ۔اور یہ سب بلکل غلط ہے اسلام کے منافی ہے۔ اسلام نے تو عورت پہ کھانا پکانا تک بھی فرض نہیں کیا یہ تو ہمارا کلچر ہے کہ گھر کے سارے کام ہم نے عورت کے سر تھوپ دیئے ہیں ۔مردبھی ہر کام میں برابر کا شریک ہوتا ہے ۔مگر ہمارے ہاں حالت یہ ہے کہ مرد صاحب تو پانی کا ایک گلاس بھی اٹھا کے نہیں پیتے اور نہ صرف شوہر بلکہ عورت کو گھر کے ہر فرد کی خدمت کرنی پڑتی ہے۔ اگر بہن ہو تو اس پہ بھائی کا حکم ماننا فرض ہوتا ہے۔میں خود اس بات کا گواہ ہو ں۔دونوں بہن بھائی اگر کھانا کھا رہے ہوں اور بھائی کو کھانا ضرورت پڑے تو بہن کھانا چھوڑ کے جاتی ہے اور بھائی کیلئے کھانا لے کے آتی ہے بھائی صاحب کی ٹانگیں ٹوٹی ہوتی ہیں وہ نہیں جا سکتا۔اور اس میں بڑے چھوٹے کی بھی تمیز نہیں ہوتی بہن بڑی ہو یا چھوٹی ہوتی نوکرانی ہی ہے۔ بیوی شوہر کی بھی خدمت کرے اور ساس سسر کی بھی۔ یہ مردود رنظام ہمارا بنایا ہوا ہے ۔

اسلام کے مطابق بیوی پہ شوہر کا ہر وہ حکم ماننا لازمی ہے جو شرعی طور پر جائز ہو اور عورت آسانی سے کر سکتی ہو ۔اسکے علاوہ گھر کے کام کاج مثلاََکھانا پکانا ،کپڑے دھونا و غیرہ بلکل بھی فرض نہیں اسمیں مرد بھی برابر کا شریک ہے یا اسلام میں حکم دیا ہو ہے کہ وہ عورت کو نوکرانی کا بندوبست کر کے دے ۔یہ باتیں آج تک ناکسی نے سنی ہوں گی نہ پڑھی ہوں گی کیوں کہ اگر مولوی یہ باتیں بتائے گا توگھر سے کھانا نہیں کھا سکے گا۔ اپنے ساس سسر کی خدمت بلکل بھی فرض نہیں بلکہ وہ لڑکے کے ماں باپ ہیں لڑکے پر ماں باپ کی خدمت فرض ہے بہو پر نہیں۔ اب آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ اسلام نے عورت کو کیا کیا انعامات دیئے ہیں۔

اسلام نے عورت کو کیا مقام دیا ہے کیا عزت وفضیلت دی ہے یہ عورت خود نہیں جانتی۔اچھی بھلی پڑھی لکھی عورتیں بھی نہیں جانتی اگر جانتی ہیں تو صرف ٹی وی پہ مغرب زدہ عورتوں کو جانتی ہیں جوآزادی کے حوالے سے ہمیشہ مغربی معاشرے کی مثالیں دیتی ہیں

مرد پہ بیو ی کی کفالت فرض ہے ۔اسکا کھانا پہننا رہناسہنا اور تمام ضروریات کو پورا کرنا مرد کے ذمے ہے اگروہ کوتاہی کرے گا تو اﷲ کی بارگاہ میں ذلیل ہوگا۔کھانا پکانا عورت کا احسان شمار ہوتا ہے اور شوہر کیلئے کھانا پکانے پرہزار نوافل کاثواب بھی ملتا ہے۔ کھانا تو گھر میں تین وقت پکتا ہے گویا ۳ ہزار نوافل کا ثواب مفت میں مرد کے لئے تو ایسا کوئی پیکج نہیں ہے کہ وہ بھی اگر بیوی کو نیا جوڑا لاکر دے تو اسے بھی ۴۰۰ ، ۵۰۰ نوافل کا ثواب مل جائے۔اور بہت ہی مزے کی بات یہ ہے کہ بیوی کو ویک اینڈ پر باہر کھانے کھلانے لے جانا نبی پاکﷺ کی سنت ہے یہ ایک مستند حدیث میں ہے اور پھر بیوی۵۰فیصد ایمان کی حصہ دار بھی ہے شوہر کے نیک اعمال کا پچاس فیصدبیوی کوگھر بیٹھے مفت میں مل جاتا ہے ۔اسکے علاوہ پورے گھر کی ذمہ داری بھی عورت پہ نہیں ہے شوہر کے امی ابویعنی ساس سسر کی خدمت بھی اسکا احسان ہے مگر یہا ں یہ بات بڑی اہم ہے کہ ماں باپ کی خدمت میں بہت عظمت ہے اور ایک دن بہو خود ساس بن جا ئے گی تو اسے بھی خدمت کی ضرورت ہو گی تو اسلئے ماں باپ کی خدمت ضرور کرنی چاہے اور ماں باپ تو صرف ماں باپ ہوتے ہیں-

ماں عظمت و شان بیان نہیں کروں گا کیوں کہ یہ سورج کو موم بتی دکھانے والی بات ہے۔بیٹی کی شان میں تو کئی حدیثیں وارد ہوئی ہیں جیسیـ نبی پاکﷺ نے فرمایا بیٹی کی تربیت کرنے والا جنت میں میرے ساتھ ہو گا،عورت کے لئے بہت ہی مبارک ہے کہ اسکی پہلی اولاد بیٹی ہو۔اﷲ پاک عزوجل شانہ تو فرماتے ہیں کہ میں بیٹی کے باپ کا دست و بازو بن جاتا ہوں اور یہ والدین پہ فرض ہے کہ بیٹا بیٹی میں کوئی فرق نہ کریں دونوں کو ایک جیسا سمجھیں ایک جیسی مراعات دیں اکثر والدین اولاد میں فرق کرتے ہیں مگر یہ انکی اپنی کم علمی اورانصافی ہے۔اسکا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔

شادی کے حوالے سے اسلام نے عورت کو مکمل آزادی دی ہے ۔اسکی مرضی کے بغیر نکاح ہو ہی نہیں سکتا اور اسلام زبردستی کی سخت مخالفت کرتا ہے حتیٰ کہ والدین بھی اولاد پر اپنی مرضی نافذ نہیں کر سکتے۔ اسے اپنی پسند سے اپنی مرضی سے نکاح کرنے کی اجازت ہے ۔مگر ہمارے معاشرے میں جہالت کی وجہ سے یہ حق مار لیا جاتا ہے ۔بلکہ پسند کا اظہا ر کرنے پہ غیرت کے نام پہ قتل بھی کر دیا جاتا ہے ۔مگر یہ صرف کم علمی اور اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے۔ہم اپنی روایا ت کو اسلام کہتے ہیں۔مگر حقیقت کچھ اور ہے۔

میری تمام قارئین سے یہ گزارش ہے کہ کسی کی بھی باتیں سننے سے پہلے اسلام کابغورمطالعہ ضرور کر لیں ۔
 
Hamid Raza
About the Author: Hamid Raza Read More Articles by Hamid Raza: 20 Articles with 20836 views i am Electrical in engineer with specialization in Power... View More