جون کی چلچلاتی دھوپ، اُس پر دوپہر کا وقت
جس وقت پرندے بھی اپنے گھو نسلوں سے نکلتے ہوئے گھبراتے ہیں ۔ دن کا کھانا
کھانے کے بعد سوچا کہ کچھ دیر کے لیے قیلولا کر لوں ۔ ابھی بستر پر لیٹ کر
آنکھ لگی ہی تھی کہ دروازے کی گھنٹی نے بے آرام کر دیا ۔ غصے اور جھنجھناہٹ
کے عالم میں دروازہ کھولا تو سامنے کھڑی ہستی کو دیکھ کر پارہ ساتویں آسماں
پر پہنچ گیا ۔ خواجہ سراء جس کو دیکھ کر برہمی سے دروازہ بند کرنے ہی والی
تھی کہ اُس کی آواز نے میرا ہاتھ روک لیا ۔ کہنے لگی کہ ’’ یہ سب وقت کا
کھیل ہے میں بھی اسی طرح کے عزت دار گھرانے کی اولاد ہوں مگر میرے والدین
میرے وجود سے نفرت کرتے ہیں۔‘‘ یہ کہانی ہر اُس خواجہ سراء کی ہے جو ہمارے
معاشرے کے ہاتھوں ظلم وزیادتی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق
صرف لاہور میں ۸۰ ہزار سے زائد خواجہ سراء اپنی حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ ۸ ۶ سال گزرنے کے باوجود اُن کے حقوق کے لیے
کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کیا گیا۔ اب تک وہ اسی جھنجٹ میں پھسے ہوئے ہیں
کہ اُن کا تعلق کس جنس سے ہے۔ والدین ایسے بچوں کو بوجھ سمجھتے ہیں اُنھیں
تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے اور فعال شہری بنانے کی بجائے یا تو گھروں
میں چھپا کر رکھتے ہیں یا پھر اپنے جگر گوشوں کو خواجہ سراؤں کے حوالے کر
کے اپنے فرض سے بری والذمہ ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایک جو کسی نہ کسی
طرح سے تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں لیکن حصول رزق کے لیے
دردر کی ٹھوکریں اور ذلت آمیز گفتگو اور رویہ اُن کا مقدر بنتا ہے۔ پھر لے
دے کر اُن کے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے ناچ گانا۔ معاشرے جیسے زہریلے
ناگ کے ڈسے ہوئے یہ لوگ دوسروں کی خوشی میں ناچ گا کر وقتی خوشی کے ساتھ
ساتھ دو وقت کی روزی کما لیتے ہیں۔ پچھلے کچھ برسوں میں ہمارے معاشرے میں
جسم فروشی جیسی لعنت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے جس میں ایک بڑی تعداد خواجہ
سراؤں کی بھی ہے جو چند پیسوں کے عوض انسان نما درندوں کی ہوس بجھا رہے ہیں۔
اس گھنونے فعل سے جہاں وہ کچھ نوٹ کما رہے ہیں اُسی کے ساتھ ساتھ ایڈز جیسی
مہلک بیماری کو بھی اپنے دامن میں سمیٹ رہے ہیں ۔ خواجہ سراؤں کا ایک اور
مسئلہ شاید جس سے بہت سے لوگ ناآشنا ہیں وہ اُن کی نمازجنازہ ہے۔ بہت سے
نام نہاد مذہب کے پیروکار اُن کے جنازے میں شرکت کرنا اپنی توہین سمجھتے
ہیں۔ یہ ایک عام خیال ہے کہ اِن کے ساتھی اُسے قبرستان میں دفنا دیتے ہیں ۔
پاکستان میں باقی مظلوم طبقوں کی طرح خواجہ سراء بھی ایسے ہی طبقے سے تعلق
رکھتے ہیں جو اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہمارے ملک کے آئین میں یہ قانون
تو پاس ہو چکا ہے کہ اُن کو عام شہری کی طرح تمام شعبوں میں باعزت اور
مساوی حقوق دینے کی ہدایت کی ہے۔ کہنے کو تو یہ آئین خواجہ سراؤں کے حقوق
کا مکمل تحفظ کرتا ہے۔ ان کو جائیداد ،تعلیم ، نوکری سمیت دیگر شعبہ ہائے
حیات میں باعزت حق دئیے جانے پر اصرار کرتا ہے۔ اُن کی عزت نفس کا خیال
رکھنے اور دوسرے درجے کا شہری سمجھنے سے منع کرتا ہے۔ مگر افسوس کہ صرف
کاغذی باتیں ہیں۔ خواجہ سراؤں کے لیے مساوی حقوق تو ہیں لیکن زمینی حقائق
کیا ہیں؟ زمینی حقائق اتنے زہریلے اور اتنے تلخ ہیں کہ اُن کو دیکھ کر رُوح
کانپ اُٹھتی ہے ۔ ہمارے قانون کے رکھوالے ہمارے پولیس والے وہ تو خواجہ
سراؤں کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے ہیں۔مانا کہ خواجہ سراء جسم فروشی جیسے
گندے دھندے میں ملوث ہیں ۔ پولیس کا یہ فرض ہے کہ وہ اِس طرح کے تمام
غیراخلاقی سرگرمیوں کی روک تھام کر ے۔ مگر میری نظر سے بہت سی ایسی خبریں
بھی گزریں ہیں جس میں پولیس نے کاروائی کرنے کے بعد خواجہ سراؤں پر بہیمانہ
تشدد کا نشانہ بھی بنایا اِس کے علاوہ اپنی دل لگی کے لیے رقص وسرور کی
محفل کا انعقاد بھی کروایا ۔ اگر کوئی خواجہ سراء اپنے ساتھ ہونے والی
زیادتی کی رپورٹ لے کر میڈیا کے دفتر کا رُخ کرتے ہیں تو وہاں بھی اُنھیں
منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ اپنے آپ کو معاشرے کا چوتھا ستون کہنے والا میڈیا
اُن کے مسائل کو ایسے انداز سے بیان کرتا ہے جس سے اُس کی ریٹینگ میں اضافہ
ہو۔ ہمارے ملک میں ایسی بہت سی انجیوز ہیں جو خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے
کام کررہی ہیں۔ کچھ گورنمنٹ کے اداروں نے اِن کے لیے نوکری کا کوٹہ مختص
کیا ہے۔ دسمبر ۴ ۲۰۱ سے گورنمنٹ پاکستان نے قانون پاس کیا ہے جس میں نادرا
کو حکم دیا ہے کہ خواجہ سراؤں کے لیے شناختی کارڈ میں الگ سے ایک کالم
بنایا جائے اور اُن کے جنس کا مسئلہ حل کیا جائے۔ ہمارے ملک میں الماس بوبی
کی مثال سب کے سامنے ہے جس نے اِس معاشرے کی روایات کو توڑتے ہوئے ایک
سماجی کارکن کی حیثیت سے اپنے آپ کو دنیا کے سامنے منوایا ہے۔ اگر ہم چاہتے
ہیں کہ ہمارا ملک بھی یورپی ممالک کی طرح ترقی کرے تو ہمیں بھی اُن کے نقشِ
قدم پر چلنا ہوگا ہمیں بھی معاشرے کے ایسے لوگوں کے لیے تعلیم ، روزگار،
میڈ یکل کے علاوہ حکومتی مالی امداد کا نظام رائج کرنا ہوگا ۔ تبھی یہ لوگ
ہمارے معاشرے کے مفید شہری بن کر اُبھریں گے۔
|