ماؤں کا عالمی دن اور حقیقی محبت کا اظہار

ہر سال مئی کے دوسرے اتوار ماؤں کا عالمی دن منایا جاتاہے ۔ مغربی معاشرے کے لوگ اپنی ماں کی خدمت میں حاضر ہوکر انہیں پھولوں کا گلدستہ دے کر سارے سال کی محبت ایک ہی مرتبہ پیش کردیتے ہیں لیکن ماں سے محبت کے یہ تقاضے درست نہیں ہیں۔ چند دن پہلے سوشل میڈیا پرایک واقعہ بہت مشہور ہوا کہ پیرس کی ایک مسجد میں ایک ننھے منے بچے نے امام صاحب سے مخاطب ہوکرکہا کہ مجھے بھی اپنے دینی مدرسے میں داخل کرلیں میں بھی آپ کے پاس قرآن پاک پڑھنا چاہتا ہوں ۔ امام صاحب نے شفقت کااظہار کرتے ہوئے پوچھا بیٹا آپ کے ساتھ کوئی بڑا نہیں آیا ۔ بچے نے کہا مسجد سے باہر میری والدہ کھڑی ہیں ۔ امام صاحب نے پوچھا کیا آپ اس بچے کی والدہ ہیں ۔اس نے کہا جی ہاں میں ہی اس بچے کی ماں ہوں ۔ امام صاحب نے پوچھا آپ مسلمان ہیں یا غیرمسلم۔ خاتون نے جواب دیا میں عیسائی ہوں ۔امام صاحب نے کہا پھر آپ اپنے بچے کو گرجے کی بجائے مسجد میں کیوں لے آئیں ۔ اس خاتون نے کہا ہمارے پڑوس میں ایک مسلمان خاندان رہتا ہے اس کے بچے آپ کے مدرسے سے جب قرآن پڑھنے کے بعد گھر پہنچتے ہیں تو محبت سے اپنی ماں کے ہاتھ چومتے ہیں اور ماں کی ہر بات مانتے ہیں ۔ لیکن میرے بچے اس سے بالکل برعکس ہیں۔ میرا بھی دل چاہتا ہے کہ میرے بچے مسلمان بچوں کی طرح والدین کی عزت کرنے والے ہوں ۔اس لیے میں اپنے بچے کو آپ کے مدرسے میں داخل کروانا چاہتی ہوں ۔ اس میں شک نہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ اخلاق ہے ۔ جس میں بڑوں سے احترام اور چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنے کا سبق دیاجاتاہے ۔لیکن وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں نے ہمارے معاشرے کے طور طریقے بھی کسی حد تک تبدیل کردیئے ہیں جو لمحہ فکریہ ہے ۔ میں نے ایک جگہ یہ لکھا ہوا پڑھا کہ اگر بیٹا پڑھ لکھ کر بڑا افسر بن جائے تو والدین اس سے بات کرنے سے پہلے کئی بار سوچتے ہیں کہ کہیں ان کی بات بیٹے کو ناگوار نہ گزرے ۔اگر بیٹا عالم دین بنتا ہے تو والدین سے بات کرتے ہوئے وہ ڈرتا ہے کہ کہیں والدین خفانہ ہوجائیں ۔بے شک زمانے کی قدریں بہت تبدیل ہوچکی ہیں لیکن پھر بھی ایسے نوجوان موجود ہیں جو اپنی زندگی اور مال دولت کو والدین پر نچھاور کرکے فخر محسوس کرتے ہیں۔گزشتہ دنوں اخبار میں ایک خبرشائع ہوئی کہ گوجرہ شہر کے ایک نوجوان نے وصیت کی کہ اگر میری موت والدہ سے پہلے ہوجائے تو میرا دل نکال کر میری والدہ کو لگا دیاجائے جو عرصہ دراز سے عارضہ قلب کے مرض میں مبتلا تھیں۔اچانک وہ نوجوان فوت ہوگیا۔ وصیت کے مطابق بیٹے کا دل ماں کو لگا کر اسے نئی زندگی بخش دی گئی ۔ یوں ایک بیٹے نے ممتا کا حق ادا کردیا۔میں سمجھتا ہوں ماں دنیا کا آخری کنارہ ہے اس کے بعد دنیا ختم ہوجاتی ہے کیونکہ ماں کی محبت اس قدر بے لوث ہوتی ہے کہ اس کا ذکر الفاظ میں نہیں کیاجاسکتا ۔میری والدہ کا انتقال 10 جون 2007ء کو ہوا ۔شدید گرمی کاموسم تھا ۔عشا کی نماز کے بعد نماز جنازہ کااعلان تھا ۔والدہ سے میری محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔نماز عشا پڑھنے کے بعد سجدے میں سر رکھ کر میں خوب گڑگڑایا اور سوا لاکھ کلمہ طیبہ (جومیں نے اپنی بخشش کے لیے پڑھ کے محفوظ کر رکھا تھا ) وہ اپنی والدہ کے ایصال ثواب کے لیے اﷲ رب العزت کے حضور پیش کردیا ۔میں جب نماز پڑھ کرکے گھر پہنچاتو والدہ کے چہرے پر اس قدر تبسم تھا جیسے وہ ابھی کھلکھلا کرمسکرا دیں گی ۔یہ خوشنما منظر دیکھ کر یقین ہوگیا کہ اﷲ نے میری دعا قبول کرلی ہے پھر جب رات گیارہ بجے ماں کودفن کرکے قبرستان سے نکلنے لگے تو میں نے اپنے دونوں ہاتھ والدہ کی قبر پر رکھ کرانہیں اسی طرح اﷲ کے سپرد کیا جس طرح وہ مجھے گھر سے نکلتے وقت اﷲ کے سپرد کیاکرتی تھی ۔یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ خواب کی حالت میں جب بھی انہیں دیکھا بہت اچھی جگہ وہ دکھائی دیں۔میری نظر میں ماں سے محبت کے اظہار کا دن ایک نہیں بلکہ 365 دن ہیں۔ ماں کی شفقت اور محبت کااحساس اسی وقت ہوتا ہے جب وہ جدا ہوجاتی ہے ۔ لیکن مرنے کے بعد بھی ( اﷲ کی توفیق شرط اول ہے) وہ اپنے بچوں کے لیے ہی دعاگو رہتی ہے ۔ایک شخص نے عالم دین سے پوچھا کہ میں بہت گناہگار ہوں روز قیامت اگر میرا مقدمہ ماں کے سپرد کردیاگیا تو بتائیے وہ مجھے جنت میں بھیجے گی یا جہنم میں ۔ عالم دین نے کہا ماں تو کبھی بھی اپنے بیٹے کو جہنم میں نہیں بھیج سکتی ۔ اس پر وہ شخص بولا تو پھر وہ رب جو مجھے ستر ماؤں جتنا پیار کرتا ہے وہ کیسے برداشت کرے گا کہ میں جہنم میں ڈال دیا جاؤں ۔ درحقیقت ماں کالفظ زبان پر آتے ہی ذہن ٗ محبت ٗ شفقت اور ایثار کے گہر ے تصور میں ڈوب جاتاہے ۔میں جب بھی ماں سے ملنے جاتا تھا تو مجھے یوں محسوس ہوتا کہ لمبی اور تھکا دینے والی مسافت طے کرکے میں ایک ایسے درخت کی ٹھنڈی اورگھنی چھاؤں میں آ بیٹھا ہوں جہاں بے لوث محبت کے سرچشمے ہر لمحے بہتے ہیں ۔مائیں کبھی نہیں مرتیں بلکہ ان کی دعائیں ہمیشہ اولاد کا تحفظ کرتی ہیں ۔مشہور افسانہ نگار ممتاز مفتی کاواقعہ تو بہت مشہور ہے۔جب انہیں ایک انجانے مرض نے آ گھیرا تو وہ کسی کے بتانے پر ایک بزرگ عامل کے پاس گئے اور بتایا کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مجھ پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ بات سننے کے بعد بزرگ نے مراقبہ کیا اور فرمایا تم پر کوئی جادو اثر نہیں کرسکتا کیونکہ ماں کی دعاؤں نے تمہارے اردگرد حصار قائم کررکھا ہے بہرکیف ہمارا تو ہر دن ماں کی محبت میں رچا بسا ہے لیکن مغرب میں سال میں ایک ہی دن سہی۔ماں کی یاد تو انہیں بھی آتی ہے نا۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 666285 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.