ماواں ٹھنڈیاں چھاواں

ماں کا رشتہ اس دنیا کا سب سے خالص رشتہ ہے.اولاد چاہے جتنی مرضی باغی ہو جاےُ, ماں کی محبت میں کبھی فرق نہیں پڑتا اور شائد سب سے نالائق بچہ ہی اپنی تمام تر بدتمیزیوں کے باوجود ماں کو سب سے پیارا ہوتا ہے.اشفاق احمد اپنی کتاب صبحانے افسانے میں اپنی ماں سردار بیگم کے بارے میں لکھتے ہیں"اماں کو باسی کھانے,پرانے ساگ,اُترے ہوے اچار اور ادھ کھائی روٹی بہت پسند تھیں.دراصل وہ رزق کی قدردان تھیں.شاہی دسترخوان کی بھوکی نہیں تھیں.میری چھوٹی آپا کئی مرتبہ خوف زدہ ہو کر اُونچی آواز میں چیخا کرتیں
"اماں حلیم نہ کھاؤ,پھول گیا ہے.بلبلے اُٹھ رہے ہیں.
"یہ ٹکرا پھینک دیں یہ سارا جلا ہوا ہے"
اس سالن کو مت کھائیں کٹھی بو آ رہی ہے"
" امرود ہم نے پھینک دئیے تھے,ان میں سے کیڑا نکلا تھا"
"لقمہ زمین سے نہ اٹھائیں,اس سے جراثیم چمٹ گئے تھے"
"اس کٹورے میں سے نہ لیں,یہ باہر بھجوایا تھا."

لیکن اماں چھوٹی آپا کی خوف ناک للکاریوں کی پرواہ کئے بغیر مزے سے کھاتی چلی جاتیں چونکہ وہ تعلیم یافتہ نہیں تھیں اس لئے جراثیم سے نہیں صرف خدا سے ڈرتیں تھیں."

بوعلی سینا ایک جگہ لکھتے ہیں کہ اپنی زندگی میں محبت کی سب سے اعلیٰ مثال میں نے تب دیکھی جب سیب چار تھے اور ہم پانچ اور تب میری ماں نے کہا تھا کہ مجھے سیب پسند ہی نہیں.ماں کے بارے میں لکھتے ہوئے مجھے چند سال پہلے اولڈ پیپل ہوم میں موجود وہ اماں بہت یاد آ رہی ہیں جن کے پانچ بیٹے تھے اور اپنے بیٹوں کی زیادتیوں پر اُنھیں برا بھلا کہنے کی بجائے ان کے لبوں پر کوئی شکوہ نہیں بلکہ اپنے بچوں کے لئے دعائیں ہی دعائیں تھیں.شائد ایسی ہی کسی محبت کے لئے عباس تابش نے کہا ہے.
"ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے"

قدرت اللہ شہاب کی کتاب ماں جی ادبی دنیا کا شاہکار تصور کی جاتی ہے.آپ ماں جی میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ" ماں جی خود ہی کہا کرتی تھیں کہ اُن جیسی خوش نصیب مائیں دنیا میں کم ہی ہوتی ہیں لیکن اگر تسلیم و رضا کی عینک اُتار کر دیکھا جائے تو اس خوش نصیبی کے پردے میں کتنے دکھ کتنے صدمے نظر آتے ہیں.اللہ میاں نے ماں جی کو تین بیٹے اور تین بیٹیاں عطا کیں.دو بیٹیاں شادی کے کچھ عرصے بعد یک بعد دیگرے فوت ہو گئیں سب سے بڑا بیٹا عین عالم شباب میں انگلستان جا کر گزر گیا.کہنے کو ماں جی نے کہہ دیا.اللہ کا مال تھا اللہ نے لے لیا لیکن کیاوہ اکیلے میں چھپ چھپ کر خون کے آنسو نہ رویا کرتی ہوں گی.ماں جی جب خود چل بسیں تو اپنے بچوں کے لئے ایک سوالیہ نشان چھوڑ گئیں جو قیامت تک اُنھیں عقیدت کے بیاباں میں سرگرداں رکھے گا.اگر ماں جی کے نام پر خیرات کی جائے تو گیارہ پیسے سے زیادہ ہمت نہیں ہوتی(ماں جی ہر جمعرات کو مسجد میں گیارہ پیسے کا تیل ڈالا کرتی تھیں)لیکن مسجد کا مُلا پریشان ہے کہ بجلی کا ریٹ بڑھ گیا ہے اور تیل کی قیمت گراں ہو گئی ہے.ماں جی کے نام پر فاتحہ خوانی کی جائے تو مکئی کی روٹی اور نمک مرچ کی چٹنی سامنے آتی ہے لیکن کھانے والا درویش کہتا ہے کہ فاتحہ اور درود میں پلاؤ اور زردے کا اہتمام لازم ہے.ماں جی کا نام آتا ہے تو بے اختیار رونے کو دل چاہتا ہے لیکن اگر رویا جائے تو ڈر لگتا ہے کہ ماں جی کی روح کو تکلیف نہ پہنچے اور اگر ضبط کیا جائے تو خدا کی قسم ضبط نہیں ہوتا"ماں جیسے خوبصورت رشتے کے بارے میں جتنا لکھا جائے اُتنا کم ہے.ماں کی خدمت کا حق کبھی بھی ادا نہیں ہو سکتا.آخر میں میں ایک مختصر نظم کے ذریعے اپنے اس کالم کا اختتام کرتی ہوں.
"ماں کیا ہے
ماں تو ہے اک گہرا سایا
خوابوں اور رنگوں سے سجایا
پھولوں اور خوشبو سے بنایا
ماں جیسا اس دنیا میں
کوئی نہ آیا
کوئی نہ آیا.....
Fatima Khan
About the Author: Fatima Khan Read More Articles by Fatima Khan: 10 Articles with 7740 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.