"اللہ پاک کی محبتِ رسول ﷺ" کا ایک انداز

بہت سے ایسے انداز ہمیں قرآن و حدیث کے عمیق مطالعہ سے میسر ہیں جن سے اللہ پاک کی رسول اللہ ﷺ سے محبت کرنا عیان ہے لیکن ہم یہاں صرف ایک انداز کو لیتے ہیں وہ ہے اللہ پاک کی اپنے محبوب کی مدافعت کرنا اور اسی کو ہم دیگر انبیاء علیہم السلام سے موازنہ بھی کریں گے کہ مرافعت کا یہ انداز سابقہ انبیاء علیہم السلام سے تھا کے نہیں اگر تھا تو کس حد اور انداز سے۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے مدافعت فرمانا
کفار نے جب آپ کو طعنہ دیا کہ آپ ابتر ہیں (سورہ کوثر )تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف سے بالواسطہ مدافعت کی اور فرمایا : بے شک آپ کا دشمن ہی ابتر (مقطوع النسل) ہے اور یہی محبین کا طریقہ ہے کہ جب ان کے محبوب کو کوئی عطنہ دے تو وہ اپنے محبوب کی طرف سے مدافعت کرتے ہیں اور یہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اللہ تعالیٰ نے جواب دیا اور اس کی قرآن مجید میں اور بھی کئی مثالیں ہیں، جب کفار نے آپ کی شان میں یہ بدگوئی کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو نقل فرمایا :
(سبائ: ٨-٧) اور کفار نے کہا : آئو ہم تمہیں ایسا شخص بتائیں، جو تمہیں یہ خبر دے رہعا ہے کہ جب تم پورے پورے ریزہ ریزہ ہو جائو گے تو پھر تمہاری ضرور نئی تخلیق کی جائے گی۔ اس نے یا تو اللہ پر جھوٹا بہتان لگایا ہے یا یہ دیوانہ ہے۔
جب کفار نے آپ کو جھوٹا اور دیوانہ کہا تو اللہ تعالیٰ نے فوراً آپ کی مدافعت کی اور فرمایا :
(سبا : ٨) بلکہ (حقیقت یہ ہے) کہ جن لوگوں کا آخرت پر ایمان نہیں ہے، وہ عذاب میں اور دور کی گم راہی میں ہیں۔
اسی طرح جب ولید بن مغیرہ نے آپ کو دیوانہ کہا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی مدافعت میں فرمایا :
(اقلم : ٢) آپ اپنے رب کے فضل سے دیوانے نہیں ہیں۔ اور القلم : ١٣-٨) میں ولید بن مغیرہ کی مذمت میں اس کے نو عیوب بیان فرمائے اور نواں عیب یہ بیان کیا کہ وہ بد اصل ہے۔
اسی طرح منکرین نے آپ کے متعلق کہا :
لست مرسلاً (الرعد : ٤٣) آپ اللہ کے رسول نہیں ہیں۔
تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدافعت میں فرمایا :
(یٰسین : ٣-١) یٰسین۔ قرآن حیم کی قسم۔ بے شک آپ ضرور رسولوں میں سے ہیں۔
(الصفت : ٣٦) کیا ہم شاعر دیوانے کی وجہ سے اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے ہیں۔
(الصفت : ٣٧) (نہیں نہیں) بلکہ وہ تو سچا دین لے کر آئے ہیں اور انہوں نے سب رسولوں کی تصدیق کی۔ پھر آپ کے دشمنوں کو وعید سنائی ،
(الصفت : ٣٨) بے شک تم ضرور درد ناک عذاب کو چکھنے والے ہو۔ اسی طرح کفار کے اس قول کو نقل فرمایا :
(الفرقان : ٧) اس رسول کو کیا ہوا کہ یہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے۔ تو اللہ نے ان کے رد میں فرمایا :
(الفرقان : ٢٠) ہم نے آپ سے پہلے جن رسولوں کو بھی بھیجا وہ سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے تھے۔
جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوہ صفا پر چڑھ کر اپنی قوم کو توحید کا پیغام سنایا اور فرمایا : اگر میں تم کو یہ خبر دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے گھوڑ سواروں کا ایک لشکر ہے، جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری تصدیق کرو گے ؟ سب نے کہا، کیوں نہیں ! ہم نے آپ کو کبھی جھوٹا نہیں پایا، آپ نے فرمایا : تب میں تم کو یہ خبر دیتا ہوں کہ اگر تم اسی طرح اللہ کے ساتھ شرک کرتے رہے تو تم پر بڑا عذاب آئے گا، یہ سن کو ابولہب نے کہا :” تبالک“ تمہارے لئے ہلاکت ہو، کیا تم نے اس لئے ہم سب کو جمع کیا تھا ؟ جب ابولہب نے آپ سے کہا :” تبالک“ تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدافعت اور ابولہب کی مذمت میں پوری سورت نازل فرما دی :
(اللہب : ٥-١) ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ہلاک ہوجائے۔ اسے اس کے مال اور اس کی کمائی نے کوئی فائدہ نہ دیا۔ وہ عنقریب زبردست شعلوں والی آگ میں داخل ہوگا۔ اور اس کی بیوی (بھی)، لکڑیوں کا گھٹا اٹھانے والی۔ اس کی گردن میں درخت کی چھال کی بٹی ہوئی رسی ہوگی۔
انبیاء سابقین کا خود اپنی مدافعت کرنا

پہلے نبیوں کی شان میں اگر کافر کوئی ناگفتنی بات کہتا تو وہ خود اپنی مدافعت کرتے تھے۔
حضرت نوح (علیہ السلام) کے متعلق ان کی ناگفتنی بات کو اللہ تعالیٰ نے نقل فرمایا :
(الاعراف : ٦٠) حضرت نوح کی قوم کے سرداروں نے کہا، بے شک ہم تم کو ضرور کھلی ہوئی گم راہی میں دیکھتے ہیں۔ تو حضرت نوح (علیہ السلام) نے خود اپنی مدافعت فرمائی۔
(الاعراف : ٦٠) حضرت نوح نے کہا : اے میری قوم ! مجھ میں کوئی گم راہی نہیں ہے، لیکن میں رب العلمین کی طرف سے رسول ہوں۔ حضرت ھود (علیہ السلام) کی قوم نے ان کے متعلق بدگوئی کی، اللہ تعالیٰ نے اس کو نقل فرمایا :
(الاعراف : ٦١) حضرت نوح نے کہا، اے میری قوم ! مجھ میں کوئی گم راہی نہیں ہے، لیکن میں رب العلمیٰ کی طر سے رسول ہوں۔
حضرت ھود (علیہ السلام) کی قوم نے ان کے متعلق بدگوئی کی، اللہ تعالیٰ نے اس کو نقل فرمایا :
(الاعراف : ٦٦) حضرت ھود کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا : بے شک ہم تم کو بے وقوفی میں دیکھتے ہیں اور بے شک ہم تم کو ضرور جھوٹوں میں سے گمان کرتے ہیں۔
تب حضرت ھود نے ازخود اپنی مدافعت فرمائی :
(الاعراف : ٦٧) حضرت ھود نے کہا، اے میری قوم ! مجھ میں کوئی کم عقلی نہیں ہے لیکن میں رب العلمین کی طرف سے رسول ہوں۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام محبوبیت
یہ تو انبیاء سابقین تھے، لیکن جب محبوب رب العلمین کو مبعوث فرمایا اور کفار نے آپ کی شان میں بدگوئی کی تو اللہ تعالیٰ نے یہ گوارا نہیں کیا کہ آپ خود اپنی مدافعت فرمائیں بلکہ جیسے ہی کسی نے آپ کی شان کے خلاف کوئی بات کہی تو اللہ تعالیٰ نے فوراً کا رد فرمایا۔
جب اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے چند دن آپ پر وحی نازل نہیں فرمایء تو کافروں نے کہا، (سیدنا) محمد کو اس کے رب نے چھوڑ دیا اور اس سے بے زار ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے رد میں فوراً سورۃ الضحیٰ نازل ہوئی جس میں یہ آیات ہیں :
(الضحیٰ: ٣-١) چاشت کے وقت کی قسم۔ اور رات کی قسم جب وہ پھیل جائے۔ آپ کے رب نے نہ آپ کو چھوڑا ہے نہ وہ آپ سے بے زار ہوا ہے۔
اسی طرح جب کافروں نے آپ کو ابتر کہا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدافعت میں پوری سورۃ کوثر نازل فرما دی۔
syed imaad ul deen
About the Author: syed imaad ul deen Read More Articles by syed imaad ul deen: 144 Articles with 350766 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.