عورت اور معاشرہ

کہتے ہیں مرد اور عورت مل کر معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔اگر غور سے دیکھا جائے ٔ تو جب بھی عورت نے اپنے حقوق کاتقاضاکیا ہے ،یہ معاشرہ جس کی تشکیل میں عورت کا بہت اہم کردار ہوتا ہے ،اپنا کردار ادا کرنے سے انکار کر دیتا ہے ۔ مرد اور معاشرہ ایک طرف اورعورت ایک طرف دکھائی دیتی ہے۔ اور عورت کے اس طرح اکیلے کھڑے ہونے کی وجہ اس کا بہادرہونا یا دلیر ہونا نہیں بلکہ اپنے حقوق کا تقاضاکرنے کی پاداش میں اسکو باغی قرار دے دیا جاتا ہے اور اس جرم کی بدولت اسکو معاشرے سے بے دخل کر دیا جاتا ہے۔مجرم کی حیثیت سے کٹھرے میں کھڑا کر کے اس پر طعنوں اور الزامات کی بارش کی جاتی ہے کی اسکی روح زخمی ہو جاتی ہے اور وہ اپنے اس زخموں سے چھلنی وجود کو سمیٹ کر دوبارہ ان ہی بے رحم اور ظالم لوگوں میں شامل ہونے پر مجبور ہو جاتی ہے جنہوں نے اسکو خود سے الگ کر دیا تھاکیونکہ اس معاشرے میں اکیلی عورت نہیں رہ سکتی۔ اور پھر وہ با قی تمام عورتوں کے لیے مثال بن جاتی ہے کہ عورت کی آ واز کوئی نہیں سنتا جو بھی ہو سہنا عورت کو ہی پڑتا ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ وہ کون سے حقوْ ق ہیں جن کا تقاضا ہے آج کی عورت کر رہی ہے۔کیا وہ کوئی ایسی بات کر رہی جو پورا کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں؟کوئی ایسا تقا ضا ہے جو معاشرے سے متصادم ہے یا کوئی ایسا تقاضا ہے جو دینی لحاظ سے قابلِ اعتراض ہے؟ہر گز نہیں ۔عورت صرف عزت طلب کر رہی ہے۔وہ صرف اپنے وہ حقوق طلب کر رہی ہے جو دین نے اسکو دیئے ہیں۔تعلیم کا حق مانگ رہی ہے۔تعلیم حاصل کرنے کا حق تو دین بھی دیتا ہے۔ جب غزوۂ بدر کے بعد قیدیوں کی رہائی کا معاملہ زیرِغور آیا تو پیارے نبی محمد مصطفیؐ نے فرمایا تھا کہ جو شخص دس بچے اور بچییوں کو پڑھنا سکھائے گااس کو آزاد کر دیا جائے گا۔کیا اس سے بھی بڑی کوئی دلیل ہو سکتی ہے کہ ہمارے دین نے لڑکیوں کی تعلیم پرکوئی پابندی عائدنہیں کی۔تو معاشرہ اس پر پابندی کیوں عائد کرتا ہے۔

ہمارے ہاں جب بھی کوئی لڑکی پڑھنے کی خواہش ظاہر کرتی ہے تو سب سے پہلے اس کے رشتہ دار کہنا شروع کرتے ہیں کہ ـتم جو اسکو اتنا پڑھا رہے ہو دیکھ لینا کل کو تمہارے ہی منہ پر کالک مل دے گی۔کوئی کہتا ہے کہ لڑکیوں کو کون سا نوکری کرنی ہوتی ہے جو اتنا پڑھ لکھ کے کچھ فرق پڑے گاآخر میں کرنا تو ہانڈی چولہا ہی ہے ناں۔ کسی کا خیال ہوتا ہے کہ لڑکی ذات ہے یتنا پڑھ لکھ کر تمہارے سامنے کھڑی ہو جائے گی زبان چلائے گی اپنی من مانی کرے گی تم زمانے کو کیا منہ دکھاؤ گے۔اس قدر ماں باپ کو ڈرا دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم ھاصل کرنے کی اجازت ہی نہیں دیتے۔ اور جو ماں باپ اپنی بیٹیوں کو اجازت دے دیتے ہیں وہ اس قدر جذباتی باتیں کر کے اپنی بیٹیوں کو یونیورسٹی یا کالج جانے کی اجازت دیتے ہیں کہ لڑکیوں کو لگتاہے وہ کئچھ غلط کر رہی ہیں ۔ میں اس بات کے خلاف نہیں ہوں کیونکہ کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہمارے والدین ہی ہمیں سمجھاتے ہیں۔ کچھ حد تک خدشات بالکل درست ہیں کیونکہ بہت سی لڑکیاں جب گھروں سے تعلیم حاصل کرنے نکلتی ہیں تو وہ اپنی حدود بھول جاتی ہیں۔پر ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا۔ہم کچھ لوگوں کی وجہ سے سب کو تو سزا نہیں دے سکتے۔لڑکیوں سے تعلیم کا حق چھین تو نہیں سکتے۔لڑکیوں کے لئے تولیم حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ آج کے اس تیز رفتار دور میں جو لڑکیاں کم تعلیم یافتہ ہوتی ہیں ان کو بہت سے معاشرتی اور سماجی مسائل کا سامنا کرنا پرتا ہے۔

ایک پڑھی لکھی لڑکی بہترین طریقے سے آج کے دور کے مسائل کو سمجھ سکتی ہے۔ جس طرح آئے دن مہنگائی برھتی جا رہی ہے ایک فرد کی کمائی پر گھرسارے کنبے کا خرچہ چلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ایسے حالات میں اگر لڑکی پڑھی لکھی ہو تو وہ بھی نوکری کر کے اپنے شوہر کاہاتھ بٹا سکتی ہے۔زندگی کب کس امتحان میں ڈال دے کسی کو نہیں پتہ ہوتا۔لڑکی پڑھی لکھی ہو تو وہ ہر طرح کے حالات کا سامنا کر سکتی ہے۔ لڑکی غیر شادی شدہ ہو تب بھی اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکتی ہے۔طلاق یافتہ یا بیوہ ہو تو تعلیم کی بدولت ماں باپ پر بوجھ بننے کی بجائے خود مختار ہو سکتی ہے۔ تعلیم یافتہ ماں ہی اپنی اولادکی پرورش ہی بہترین انداز میں کر سکتی ہے۔میرے کہنے کا ہر گزیہ مطلب نہیں ہے کہ جو پرانی خواتین کم پڑھی لکھی تھیں یا تعلیم یافتہ نہیں تھیں وہ اپنی اولاد کی اچھی پرورش نہیں کرسکیں۔بات صرف اتنی سی ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور کے کچھ تقاضے ہیں ۔ اگر ماں ہی آج کے دور کے تقاضوں سے نا آشنا ہو تو وہ اپنی اولاد کی تربیت آج کے دور کے مطابق کیسے کر سکتی ہے۔ ماں ہی بے خبر ہو تو وہ اپنے بچوں کو زمانے کے داؤ پیچ کیسے سمجھا سکتی ہے۔

آج کی عورت اپنے حقوق پہچانتی ہے اور ینکو لینا بھی جانتی ہے۔ مسائل وہاں شروع ہوتے ہیں جب یہ معاشرہ اسکے حقوق دینے سے انکار کر دیتا ہے۔معاشرہ عورت کے حقوق تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ شرمناک بات تو یہ ہے کہ جب عورت خاموشی کی تصویر بنی چپ چاپ تشدد، ظلم سہہ رہی ہوتی ہے تو یہ معاشرہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے کسی تفریحی فلم کی طرح سب تماشا دیکھ رہا ہوتا ہے۔ عورت کو جلا کر مار دیا جاتا ہے، معاشرہ خاموش رہتا ہے۔ عورت کو غیرت کے نام پر پر قتل کر دیا جاتا ہے جب وہ پسند کی شادی کرتی ہے یا پسند کی شادی کی بات کرتی ہے زمانہ خاموش رہتا ہے۔ اس معاشرے کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی جب ایک کمسن بچی کو سماج کی اپنی بنائی ہوئی رسموں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ ہاں جب عورت تشدد سہنے سے انکار کر دیتی ہے،رسموں اور رواجوں سے بغاوت کر دیتی ہے، پسند کی شادی کا اپنا قانونی اور مذہبی حق استعمال کرتی ہے تو یہ معاشرہ ایک دم اپنے خوابِ غفلت سے بیدار ہو جاتا ہے۔ہوش میں آجاتا ہے کہ یہ کیسا غذب ہو گیا عورت اپنے حقوق کی بات کرنے لگی۔ یہ تو بدچلن آوارہ اور بدکردار ہے۔ اور بھی کتنیہی الزامات اس عورت کو سننا پڑتے ہیں۔سوال یہ پیدا ہاتا ہے کیا معاشرے کی ہر عورت اسی طرحاپنے ضقوق کی خاطر کھڑی ہو جاتی ہے؟ نہیں۔ غور سے دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جس جگہ عورت کو عزت اور محبت نہیں ملتی وہیں وہ تنگ آکر یہ قدم اٹھاتی ہے۔ جہاں عورت کوعزت اور محبت فراہم کی جاتے ہے وہ گھر عورت کی محبت اور لگن کی گواہی دیتا ہے۔عورت گھر کو اپنی محنت اور لگن سع جنت کا گہوارا بنا دیتی ہے۔ اک تعلیم یافتہ عورت ہی بہترین انداز میں اپنے شوہر کا ساتھ دے کر اسکو کامیاب مردوں کی صف میں کھڑا کر سکتی ہے۔

مرد معزز ہے یہ تربیت دینے والی بھی عورت ہی ہوتی ہے۔ مرد قابل ہے یہ سکھانے والی بھی عورت ہے۔ ماں کی ہی بہترین تربیت ہوتی ہے جو مرد کی شخصوت میں دکھائی دیتی ہے۔ ماں ہی سکھاتی ہے کہ معزز مرد عورتوں کی عزت کرتا ہے اور عزت کرنے سے اسکی قدر اور بڑھے گی۔ اگر یہ سب باتیں ایک عورت ہی سکھاتی ہے تو اپنی عزت کے لیئے اسے مردون کے سامنے جھکنا کیوں پڑتا ہے۔ اگر عورت پر مرد کی عزت کرنا فرض ہے تو عورت کی عزت کرنا مرد پر لازم کیوں نہیں؟ اگر مرد سار کا تاج ہوسکتا ہے تو عورت پایوں کی جوتی کیوں؟مرد معزز اور عورت تعسرے درجے کی مخلوق کیوں؟ وہ عورت جو مان ہو تو جنت سمٹ کر اسکے قدمان تلاے آجاتی ہے، بیٹی ہو توباپ کا مان بن جاتی ہے، بہن ہو تو بھائی کی گیرت ہوتی ہے، بیوی ہو تو شوہر کی عزت ہوتی ہے۔ پھر بھی عورت ہی اپنے حقوق کے لئے کیون لڑنے پر مجبور ہے۔ اگر معاشرے سے عورت اور مرد کی تفریق ختم کردی جائے تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ایک دن یہ معاشرہ مہذب معاشرہ بن جائے گا۔اور اس کے لیئے ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا پڑے گا۔ کیونکہ جتنا جلدی سوچ بدلے گی اتنا ہی جلدی معاشرہ تبدیل ہوگا۔
Fizza Imtiaz
About the Author: Fizza Imtiaz Read More Articles by Fizza Imtiaz: 4 Articles with 2507 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.