کیا قانون اور انصاف کی ناکامی غنڈہ اور بدمعاش جتھوں کو جنم دے رہی ہے؟

ایک دور تھا جب انسان غیر معاشرتی زندگی گزارا کرتا تھا نہ کوئی قانون نہ ہی عدل فراہم کرنے والے ادارے جو جب اور جیسے جی چاہے کسی کو بھی اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنے مظالم کا نشانہ بنائے بس شرط اول یہ ہے کہ وہ طاقتور ہو۔ اصل میں انتہاء پسندی اور طاقت دو مختلف چیزیں ہیں پہلے کا تعلق تو جبرو ظلم ، ہٹ دھرمی اور اپنے خیالات کو دوسروں پر ذبردستی ٹھونسنا ہوتا ہے اور دوسرے کا تعلق اقتصادیات، سیاسیات ، معیشت، افراد اور رد عمل کی جبروتی صلاحیت رکھنے پر ہوتا ہے۔ انتہا پسندی ایک ایسا غیر جمہوری، غیر انسانی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی رویہ ہے جو متشددانہ رویوں کو جنم دیتا ہے اور دہشت گردی پر منتج ہوتا ہے۔ لاقانونیت، نراج، انارکی ایسا نظریہ ہے جسکا مقصد اور منشا معاشرے میں مملکت کے وجود اور اسکے قوانین سے انکار ہے۔ ایسے معاشروں میں ریاستی ادار ے حقیقی طور پر آزادنہیں ہوتے اور ایسے معاشروں کے حکمران اپنے ذاتی مفادات اور خواہشوں کے غلام ہوتے ہیں اور وہ ان مفادات اور خواہشوں کو پورا کرنے کیلئے نہ صرف ریاستی اداروں کو استعمال کرتے ہیں بلکہ انہوں نے اپنی جماعتوں میں پر تشدد طاقتور گروہ اور جتھے تشکیل دیئے ہوتے ہیں جن سے وہ نہ صرف اپنے مفادات ھاصل کرتے ہیں بلکہ انکے جرائم کی پردہ پوشی کرکے انہیں ایسی کھلی چھٹی دے رکھی ہوتی ہے کہ انکے جرائم پر قانون حرکت میں آنے سے معذور ہوتا ہے۔ یہ جتھے اور گروہ حکومتی اداروں کے متوازی ایسی طاقت ہوتے ہیں جو آئین اور قانون سے بالا تر ہوتے ہیں اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لیکر معاشرے میں کسی طرح کابھی جبر اور ظلم کرنے کی اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ انہیں مکمل طور پر حکومتی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ ہم اس انتہای پسندانہ رویے کو ہر اس حکومت کا جرم گردانتے ہیں جس میں ایسے لوگوں کو ریاستی طاقت فراہم کرکے مشتبہ طور پر نہیں بلکہ یقینی طور پر قابل تعزیر ٹہرایا جانا بہت ضروری ہونا چاہئے تاکہ حکومتی سر پرستی میں چلائے جانے والے ایسے جرائم پیشہ اور طاقت ور گروہوں اور جتھوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے انکے گھناؤنے جرائم اور انتہای پسندانہ رویے سے معاشرتی زندگی متاثر اور تہہ و بالا نہ ہو اور قانون اور انصاف کی عملداری بلا تخصیص ہو۔

پاکستان وہ واحد ملک ہوگا جہاں پر حکومتی نظام کے متوازی ایک اور نجی نظام بھی معرض وجود میں آ چکا ہے جس میں غنڈہ او ر طاقتور عناصر کا قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیکر از خود فیصلے صادر کرنا ہے جو ہمارے معاشرے میں انتہائی خطرناک اور لا قانونیت کی طرف بڑھتا ہوا ایک سنگین اقدام ہے ۔ دوسرے الفاظ میں ہم اگر یوں کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ ہم شطر بے مہار کیطرح ایک ایسی اندھی گلی کیطرف جا رہے ہیں جہاں آنے والے وقتوں میں اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دے رہا ہے۔ اور ہمارے اداروں کی یہ بے حسی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدلیہ نہ صرف بے بس اور ناکام ہو چکے ہیں بلکہ وہ ایک عام آدمی کو انصاف فراہم کرنے میں مخلص ہی نہیں ہیں۔ ہمارے ملک میں ہونے والے روز مرہ کے دل دہلا دینے والے شر مناک واقعات جن میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لیکر بزور طاقت اور غنڈہ گردی، بلا تحقیق عام ، غریب اور لا وارث عورتوں اور مردوں کو غیرت کے نام پر، چوری چکاری کے نام پر اور اسی طرح دوسرے الزامات کی ذد میں لا کر انہیں بے عزت کرنا، انکے سر کے بال کاٹ کر انہیں گنجا کرنا، انکی چٹیا کاٹ دینا اور منہ کالا کرکے بازاروں اور گلیوں میں پھرایا جانا، انہیں آگ پر چلا کر انکے پاؤں جلا کر پوری عمر کیلئے اپاہج بنا دینا، انہیں ننگا کرکے انتہائی بے دردی سے انکی مار پیٹ ، ڈنڈے پر سرسوں کا تیل لگا کر انکی مقعد میں دے دینا ، ٹانگیں اور بازو توڑ دینا، انکی ننگی ویڈیو بنا کر الیکٹرانک میڈیا پر پوسٹ کر دینا وہ شرمناک واقعات ہیں جو ہر روز ہمارے معاشرے میں انتہائی سرعت سے پھیل رہے ہیں۔ اسطرح کی پر تشدد اور نا قابل یقین ویڈیوز ہر روز ہزاروں کی تعداد میں موبائل سے بنا کر نیٹ کے ذریعے بنت حوااور بے گناہ لوگوں کو زلیل و رسوا کیا جاتا ہے ۔ مگر ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے، ہماری عدلیہ ، ہمارے حکمران و سیاستدان اور ہمارے خفیہ ادارے نہ جانے ان ہولناک اور دل دہلا دینے والے واقعات کو منظر عام پر آنے کے با وجود کسی قسم کی کارروائی کیوں نہیں کرتے تاکہ غنڈہ گردی اور قانون کی تذلیل کرنے والوں کے قدم آگے بڑھنے سے روکے جا سکیں اور بدمعاشوں اور پتھاریداروں کے تیزی سے بڑھتے ہوئے اس سیلاب کیلئے قانون کا بند باندھ کر انہیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سبق سکھایا جائے کہ آئیندہ انہیں ایسا کرنے کی جرات نہ ہو۔ جب ہم اسطرح کے دلدوز اور خونچکاں واقعات دیکھتے اور سنتے ہیں اور انکے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی کو عمل میں آتی ہوئی نہیں دیکھتے تو یہ بات صاف طور پر عیاں ہو جاتی ہے کہ انکے پیچھے وہ مضبوط ہاتھ ہیں جو انہیں تھامے ہوئے ہیں اور وہ مضبوط ہاتھ ان سیاسی جماعتوں کے وہ ونگ ہیں جو مسلح گروہوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور ایسے گروہ نہ صرف قانون کو اپنے ہاتھ میں لیکر اپنی مرضی سے اپنی عدالتیں قائم کرکے عدالتوں کو مذاق اڑاتے ہیں بلکہ یہ لوگ معاشرے میں بد امنی، بدمعاشی، غنڈہ گردی، زناہ، چوری، ڈکیتی، موٹر سائیکل کی وارداتوں اور عورتوں سے پرس چھیننے کے علاوہ دوسرے جرائم میں بھی ملوث ہوتے ہیں اور یہ لوگ سیاسی جماعتوں کی سرپرستی میں کام کرتے ہیں ۔ انہوں نے مختلف وزراء اور سیاستدانوں، ایم پی اے اور ایم این ایز کے ساتھ اپنی سیلفیاں بنائی ہوئی ہیں جنہیں یہ شریف لوگوں کو دکھا کر خوفزہ کرتے ہیں اور لوگوں سے بھتہ وصول کرتے ہیں جس سے ہمارے موجودہ حکومت کے وزراء ، ایم پی اے اور ایم این ایز لوگوں کی تضحیک کا نشانہ بن رہے ہیں اور انکی بد نامی کا باعث بھی بن رہے ہیں ۔ یہ لوگ دھڑلے سے کہتے پھرتے ہیں کہ ہمیں انکی حمایت اور پناہ حاصل ہے اور کوئی بھی انکا بال بیکا نہیں کرسکتا ۔ کہیں بھی مخالف جماعت کا کوئی جلسہ یا میٹنگ ہو ان غنڈون پر مشتمل گروہوں کا کام وہا ں پر اپنی سیاسی پارٹی کے مفادات کیلئے گڑ بڑ مچا کر خوف اور دہشت پھیلانا ہو تا ہے اور انتخابات کے دوران مخا لف پارٹی کے بینرز اتارنا اور انتخابات میں گڑ بڑ پھیلانا بھی ہوتا ہے اسکے بدلے میں انہیں ہر طرح کے جرائم کرنے کی پشت پناہی اور آشیرباد حاصل ہوتی ہے۔ یہ لوگ مختلف مواقعوں پر ریلییوں کا انعقاد کرتے ہیں اور شہر بھر میں موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر سر شام سڑکوں گلیوں اور بازاروں میں جتھوں اور ٹولیوں کی شکل میں نکلتے ہیں ایک طوفان بدتمیزی کا سا سماں ہوتا ہے۔ مخالفیں کو مادر زاد گالیاں دیتے ہوئے اور فحش نعرے بازی کرتے ہوئے ایک طوفان بدتمیزی مچاتے ہوئے انتہائی تیز رفتاری سے لوگوں کو کچلتے ہوئے انہیں زخمی کرتے ہوئے اور مارتے ہوئے نکل جاتے ہیں انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔کیونکہ ان لوگوں کو حکمران پارٹی کی مکمل سپورٹ حاصل ہوتی ہے اور پولیس والے بھی ان سے خوفذدہ ہوتے ہیں ۔ حال ہی میں اسطرح کے دلدوز اور شرمناک واقعات پورے پنجاب میں رونما ہوئے ہیں جن میں لاہور، ملتان، گجرات، گجرانوالہ، سیالکوٹ، فیصل آباد اور حال ہی میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ رحیم یار خان میں بھی منظر عام پر آیا ہے جسے دیکھ کر ایک عام آدمی اسے برداشت نہیں کر سکتا ۔ اس واقعہ کی ویڈیو منظر عام پر آ چکی ہے اور نیٹ پر بھی دستیاب ہے مگر تا حال ہمارے عسکری ادارے، ہمارے انٹیلی جنس کے ادارے ، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدلیہ نے چپ سادھ رکھی ہے اور یہ واقعات بجائے کم ہونے کے اب چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی دھڑلے سے جاری ہیں ۔ حکمران پارٹی نے اپنی خود غرضی اور مذموم مقاصد حاصل کرنے کیلئے قانون اور انصاف کو اپنے ان غنڈہ عناصر کے ہاتھوں میں دیکر جہاں قانون شکنی ، ظلم اور ذیادتی کو ہوا دی ہے وہیں ایک عام شخص کیلئے اب جینا بھی مشکل ہو گیا ہے اور ایک شریف شہری ایسے دگر گوں حالات میں اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے ہیں اور وہ لوگ جو ان غندہ عناصر کی ذیادتیوں کا شکار بنتے ہیں وہ اپنے ساتھ ہونے والی ذیادتیوں کو خاموشی سے برداشت کرکے قانون کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے بھی خوف ذدہ ہوتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں انہیں انصاف نہیں ملیگا اور ان غنڈوں اور بدمعاشوں سے انکا ہمیشہ کا بیر ہو جائیگا۔ ہمارے یہ حالات ان لوگوں کو جو انصاف کے متلاشی اور قانون سے خوفزدہ ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ مجبوراً انصاف حاصل کرنے کیلئے اور اپنی ناموس اور عزت کی حفاظتوں کیلئے موجودہ حکمرانوں کے ان پالتو غنڈوں اور بد معاشوں کے خلاف ہتھیار اٹھا کر از خود انصاف حاصل کرنے کیلئے میدان میں اتر آئیں اور ہر طرف قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو یہ صورتحال انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے جسے روکنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ مگر ہماری حکومت، قانون نافذ کرنے والے ادارے، خفیہ ادارے، عدلیہ اور عسکری اداروں کی یہ خاموشی جہاں انکی خود غرضی کی غماز ہے وہیں شریفوں کو بدمعاش بنانے کا سہرہ بھی انہیں اداروں کے سر جاتا ہے اور اسکی تمام تر ذمہ داری انہیں اداروں کی ہے کیونکہ جب کوئی شریف آدمی اپنے ہاتھوں میں اسلحہ اٹھا کر اپنا بدلہ خود لینے پر مجبور ہو جائے تو وہ ایسے بپھرے ہوئے سمندرکی مانند ہوتا ہے جسکی لہروں پر قابو پانا نہ صرف مشکل بلکہ نا ممکن ہو جایا کرتا ہے اور انہیں حالات کو خانہ جنگی کہا جاتا ہے۔ جہاں پر سب ادارے نا کام ہو جائیں اور وہاں کے لوگ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیکر اپنی مرضی اور اپنے فائدے کیلئے از خود فیصلے صادر کرکے قانون اور عدلیہ کو بے بس کر دیتے ہیں۔ جہاں پورے پاکستان میں آپریشن کلین اپ ہو رہے ہیں وہیں تمام شہروں میں ایسے غنڈہ ، بدمعاش اور سیاسی جماعتوں کے ان غنڈہ ا ور بدمعاش عناصر کیخلاف بھی بلا تخصیص آپریشن کرکے شریف شہریوں کو ان غنڈہ اور بد معاش عناصر کے ظلم و ستم سے بچایا جائے ۔ رحیم یار خان میں مختلف اوقات میں راتوں کو تیس سے پینتیس لڑکے موٹر سائیکلوں پر ون وہیلنگ کرتے ہوئے اور شور و غوغا کرتے ہوئے، انتہائی تیز رفتاری سے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے اور مختلف نعرے لگاتے ہوئے موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر سڑک پر چلنے والے لوگوں اور خاص طور پر خواتین کو پریشان کرتے ہوئے شہر کی مین شاہراہ پر موجود تھانے کے سامنے سے گزر کر جاتے ہیں اور کئی حادثات بھی ہو چکے ہیں مگر کسی کی جرات نہیں ہوتی کہ انہیں روک کر ان سے انکی اس بدمعاشی اور غنڈہ گردی کے بارے میں پوچھا جائے۔ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہئے کہ وہ اپنی پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے مایوس اور خوفزدہ عوام کے اعتماد کو بحال کرتے ہوئے ایسے عناصر کیخلاف قانون چارہ جوئی عمل میں لائیں اس سے پہلے کہ حالات انکے بس سے باہر ہو جائیں اور عوام اپنے فیصلے سڑکوں پر خود کرنا شروع کر دیں۔قومی سلامتی اور بقا کیلئے ضروری ہے کہ شہریوں کو ان غنڈہ عناصر کی غنڈہ گردی سے بچایا جائے اور شہریوں کو اعتماد میں لیکر انکے مسائل پر غور کرکے انہیں حل کیطر ف لے جایا جائے تاکہ شہریوں کا اعتماد ہمارے قانون نافذ کرنے والے اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں پر بحال ہوسکے اور مختلف سیاسی جماعتوں کے ان گروہوں اور جتھوں کی غیر قانونی طور پر از خود فیصے صادر کرنا، اپنے عقوبت خانوں میں لوگوں پر ظلم و تشدد اور انکی شرمناک ویڈیو بنا کر نیٹ کے ذریعے انسانیت کی تذلیل کو روکا جائے اور انکے کیخلاف جتنی جلد ممکن ہو سکے مناسب آپریشن کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
Syed Anees Bukhari
About the Author: Syed Anees Bukhari Read More Articles by Syed Anees Bukhari: 136 Articles with 155602 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.