ماں ۔۔۔ لازوال محبت کا دوسرا نام
(Malik Muhammad Shahbaz, Kot Radha Kishan)
ایک شخص حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا
اور عرض کیا کہ اے اﷲ کے رسول ﷺ آپ کا فلاں ساتھی موت و حیات کی کشمکش میں
ہے اور اپنی زندگی کی آخری سانسیں پوری کر رہا ہے۔وہ شخص بہت زیادہ تنگی کے
عالم میں ہے ۔ اس کی روح پرواز نہیں کررہی اور اسی وجہ سے حد درجہ تکلیف نے
اس کو گھیرا ہوا ہے۔وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات بہت پریشانی کے عالم میں
گزار رہا ہے۔حضور اکرم ﷺ صحابہ کرام کی معیت میں اس شخص کے گھر تشریف لے
گئے وہاں اس کی حالت دیکھ کر پوچھا تو بتایا گیا کہ اس کی ماں اس شخص سے
کسی وجہ سے ناراض ہے اور معاف بھی نہیں کرنا چاہتی۔ آپ ﷺ نے اس کی ماں کو
بلوایا اور اسے معاف کرنے کو کہا مگر وہ بڑھیا معاف نہیں کرنا چاہتی تھی ۔
حضور اکرم ﷺ نے اس اماں کے معاف کرنے پر رضامند نہ ہونے کی وجہ سے صحابہ
کرام ؓ کو حکم دیا کہ جنگل میں جا کر لکڑیا ں اکٹھی کر کے لاؤ۔ اس اماں نے
جب لکڑیوں کے بارے میں سنا تو پوچھا کہ لکڑیوں کی کیا ضرورت؟ اس اماں کے
پوچھنے پر حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تیرا بیٹا بہت زیادہ تکلیف میں
ہے اور تیرے معاف نہ کرنے کی وجہ سے اس کی روح پرواز نہیں کر رہی اور بہت
زیادہ تکلیف میں اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ جب تک اس کو معافی نہ ملے گی
اسی طرح ہی تکلیف میں رہے گا ۔لہذا جنگل سے لکڑیاں اس لیے منگوا رہے ہیں کہ
تمہارے بیٹے کو جلادیں گے تا کہ اس کی جان نکل جائے اور آگ کی تکلیف برداشت
کرنے کے بعد اس کی ان تمام تکلیفوں سے آزادی مل جائے گی۔اس شخص کی ماں نے
جب یہ سنا تو اس کا دل لرز گیا ، فوراً ہی پکار اٹھی کہ میرے بیٹے کو آگ
میں نہ جلایا جائے معاف کرنے کے لیے تیار ہوں، میں اپنی ضد چھوڑ سکتی ہوں
مگر اپنے بیٹے کو جلتا ہوا برداشت نہیں کرسکتی ۔ ماں نے جیسے ہی بیٹے کو
معاف کیا اس کی زندگی کی تمام تکالیف ختم ہوگئیں اور اس کی روح پرواز کرگئی۔
ماں کے دل کی یہ کیفیت ہے کہ اپنے بیٹے سے سخت ناراض ہونے کے باوجود بھی
اپنے بیٹے کے بارے میں آگ کے متعلق سن کر چلا اٹھی اور فوراً اے معاف کردیا
۔ یہ تو ایک ماں تھی کہ اس کا پیار اس کے غصے پر غالب آگیا اور ہمارا خالق
و مالک تو ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے ۔ ماں کے بغیر یہ زندگی
ویران ہو جاتی ہے اور گھر سے رونق ختم ہو جاتی ہے۔ ایک بار جب ماں اس فانی
دنیا سے خالق حقیقی کے پاس چلی جائے تو دوبارہ کبھی نہیں ملتی۔ دنیا میں ہر
نقصان پورا ہوسکتا ہے مگر ماں کی کمی کبھی پوری نہیں ہوسکتی۔اور ساری دنیا
میں تلاش کرنے سے بھی ماں جیسی کوئی ہستی نہیں ملتی۔پنجابی کے ایک شاعرنے
کیا خوب ترجمانی کی ہے :
ماں اک ایسی ہے عظیم ہستی
لگے ماں باہجوں اپنی ، بیگانی بستی
لب جائے ماں جتھوں ایسا کوئی بازار نیئں
ودھ ماں دے پیار نالوں کسے دا پیار نیئں
ماں جیسی ہستی اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ماں اپنا سب کچھ قربان کردیتی ہے
مگر اپنی اولاد کو گرم ہوا تک نہیں لگنے دیتی۔جب گھر میں کھانا چار افراد
کا موجود ہو اور کھانے والے پانچ ہوں تو ایسے میں صرف ماں ہی کہتی ہے کہ
اسے بھوک نہیں ہے۔سردیوں کی ٹھٹھرتی راتوں میں بچے کو خشک جگہ پر لٹا کر
خود گیلی جگہ پر سونے والی ہستی صرف ماں ہی ہے ۔بیٹا کام سے رات کو دیر سے
لوٹے تو ایسے میں صرف ایک ہستی ماں ہی جاگ کر انتظار کر رہی ہوتی ہے اور
کبھی بھی غم و غصے کا اظہار نہیں کرتی کہ تم نے دیر سے آنے کا تماشا بنایا
ہوا ہے، کبھی بھی سختی سے پیش نہیں آتی بلکہ یہ ہی کہتی ہے کہ بیٹا تھوڑا
جلدی آجایا کرو۔ ساتھ ہی کہتی ہے بیٹا منہ ہاتھ دھولو میں کھانا لگا دیتی
ہوں۔بیٹے کے پیٹ بھر کر کھالینے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ابھی ماں نے نہیں
کھایا تھا اور اب بچا ہوا کھانا کھائے گی۔دنیا کی کوئی بھی شخصیت ماں کے
پیار و محبت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔یہ صرف ماں ہی ہے جو اپنا تن ، من ،
دھن تو قربان کرسکتی ہے مگر اپنی اولاد کو تکلیف میں برداشت نہیں
کرسکتی۔خود بھوکی رہ کر بھی اپنے بچوں کو پیٹ بھر کر کھلاتی ہے۔بچہ بیمار
ہو تو رات کو سونا بھول جاتی ہے ، کھانا پینا بھول جاتی ہے اور اس وقت تک
چین سے نہیں بیٹھتی جب تک بچہ شفایاب نہ ہوجائے۔ماں کی دعاؤں کی مدد سے
انسان کامیابی کی منازل طے کرتا ہے۔حضرت امام بخاری ؒ کے بارے میں آتا ہے
کہ آپ نابینا تھے۔ اور ماں کی دعا کی وجہ سے اﷲ پاک نے ایسی باکمال اور بے
مثال نظر والی آنکھیں عطا کیں کہ رات کو چاند کی روشنی میں بخاری شریف جیسی
معتبر کتاب لکھی جس پر تمام آئمہ کرام اور تمام مکاتب فکر کا مکمل اتفاق
ہے۔ جس انسان پر اس کی ماں راضی ہوجائے اﷲ راضی ہوجاتا ہے۔ کبھی بھی ماں کا
دل نہیں دکھانا چاہیے اور ہمیشہ ماں کو خوش رکھنا چاہیے۔قرآن کریم میں بھی
ماں باپ سے حسن اخلاق سے پیش آنے کا حکم دیا گیا ہے۔چنانچہ ارشاد گرامی ہے:
اور اپنے والدین کے ساتھ احسان ( نیک سلوک ) کرو اور ان کو اف تک نہ کہو۔ (
القرآن)
ہمیشہ والدین کی قدر کرنی چاہیے اور ہر حال میں ان سے اخلاق سے پیش آنا
چاہیے۔ان کے سامنے کبھی اونچی آواز میں نہیں بولنا چاہیے۔ ہمیں ماں باپ
جیسی عظیم نعمتوں کی ہمیشہ قدر کرنی چاہیے۔ زندگی میں والدین کی خدمت کرنی
چاہیے اور جب اس دنیا سے چلے جائیں تو ان کے لیے بطور صدقہ جاریہ اﷲ کی راہ
میں خرچ کرنا چاہیے۔ اﷲ ذوالجلال سے دعا ہے کہ میرے سمیت جن کے والدین حیات
ہیں ان کی قدرو عزت اور خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور ان کا سا یہ ہمارے سر
پر ہمیشہ رکھے اور ان کو صحت و تندرستی ، ایمان و عمل والی لمبی عمر عطا
فرمائے اور جن کے والدین اس فانی دنیا سے انتقال کرگئے ہیں ان کی مغفرت
فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام
عطافرمائے۔آمین
|
|