ماں

مجھے اس ذات کے بارے میں لکھنا ہے جس کے گرد میری ہستی گھومتی ہے جسکے ہونے سے میری دنیا مکمل ہوتی ہے وہ جس جگہ نہیں ہوتی وہاں نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور جابیٹھتی ہے وہ جو میری کامیابیوں کی وجہ ہے وہ جو میری خوشیوں کی ضمانت ہے۔۔۔

جی ہاں اسی ہستی کی بات کررہی ہوں جسکے ہوتے ہوئے گھر جنت ہے اور نہ ہوتے ہوئے کوئی ویران سا قبرستان۔۔۔ جو قدموں میں جنت رکھتی ہے تو ہاتھوں میں شفقت کا سایہ۔۔۔ سہی سمجھے آپ۔۔
محبت، عشق ، چاہت کا جو رشتہ ہے میری ماں ہے
بشر کے روپ میں گویا فرشتہ میری ماں ہے
بنا جس کے میری ہستی کے سارے رنگ پھیکے ہیں
وہی دلنشیں خوش رنگ رشتہ ہے میری ماں ہے

ماں اس کائنات کے سب سے اچھے ، سچے اور خوبصورت ترین رشتے کا نام ہے، خدائے برتر نے اس کائنات میں سب سے خوبصورت جو چیز تخلیق کی وہ ماں باپ ہیں جنکا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا ، بالخصوص ماں جیسی ہستی کو سب سے ذیادہ فوقیت حاصل ہے کہ۔۔گلاب جیسی خوشبو ، چودھویں کے چاند جیسی چاندنی ، فرشتوں جیسی معصومیت ، سچائی کا پیکر ، لازوال محبت ، شفقت، تڑپ ، قربانی، پودے کا سبزہ ، پھول کی رنگت، دریا کی روانی ، پھل کی مٹھاس ،سورج کی روشنی، آسمان کی بلندی ، زمیں کی وسعت ، گھی کی نرمی ، پرندے کی پرواز ، چکور کا عشق سب مل کرانسان کا بنے تو مرمریں ستونوں کی بہشت ماں کی تخلیق عمل میں آئی۔۔ماں کا نام سنتے ہی ایک عظمت کی دیوی سب کچھ قربان کر دینے والی ہستی کا تصور ذہن میں آتا ہے۔۔ اور مشرقی مائیں تو ہوتی ہی قربانی و ایثار کا پیکر ہیں جو اپنی اولاد کے لیئے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرتی۔۔۔

ماں اور اولاد کے بیچ ایک عجیب ، ایک کھرا سا رشتہ ہوتا ہے منافقت سے پاک۔۔ بے لوث۔ماں کی محبت اور پرورش کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔۔ ماں کے اندر ممتا کا وہ جذبہ ہوتا ہے جو کسی اور میں نہیں ہوتا۔۔۔

بچہ نظر سے اوجھل ہوجائے تو ماں تڑپ اٹھتی ہے ورد کرتی ہے دعائیں مانگنے لگتی ہے۔۔ اتنا ہی نہیں اولاد میں سے کوئی بھی پریشان ہو تو ماں کی بیقراری عروج پر ہوتی ہے اور وہ ماں ہی ہوتی ہے اپنی سب سے نکمی جو کہ اکثر چھوٹی ہی ہوتی ہے اس اولاد سے انتہا کی محبت کرتی ہے
اور وہ کہتے ہیں نا کہ
کسی کو گھر ملا حصے میں، یا کوئی دکان آئی
میں سب سے چھوٹا تھا میرے حصے میں ماں آئی
۔۔۔ اور ماں محبت کیوں نہ کرے اپنی اولاد کے لیئے بیقرار کیوں نہ ہو؟؟؟ کہ یہ وہی ماں ہوتی ہے جو اولاد کے لیئے دعائیں مانگتی ہے ، ریاضتیں کرتی ہے۔۔۔ نو ماہ کی طویل مدت اسے اپنی کوکھ میں رکھ کر نہ صرف اسے اپنے خون سے سینچتی ہے بلکہ جنم دینے والی تکلیف سے گذر کر اسے زندگی بخشتی ہے اور اتنا ہی نہیں راتوں کی نیند سے لے کر دن کا چین تک اسکے ہوش سنبھالنے تک سب تیاگ دیتی ہے۔۔۔ پھر بھی جب تک زندہ رہتی ہے اولاد کی آزمائشوں میں نہ صرف انکے ساتھ کھڑی رہتی ہے بلکہ جہاں ممکن ہو خود آزمائش دینے نکل کھڑی ہوتی ہے۔۔۔۔۔

عورت جو کردار اپنی زندگی میں نبھاتی ہے اسکا سب سے عظیم منسب ہی ماں کا ہوتا ہے خدا نے یوں ہی تو اسکے قدموں میں نہیں رکھ دی۔۔۔۔ بس کوئی سمجھنے والا ہونا چاہیئے۔۔۔۔ ماں کی عظمت کو ماننے والا ہونا چاہیئے۔۔۔

دنیا اسکے قدموں کی اسیرائی نہ پالے تو کہنا اور الحمداﷲ۔۔ خدائے برزگ و برتر و اعلی کی ذاتِ بے مثال نے مجھ ناکارہ کو بھی اس عظیم نعمت سے نوازا ہے جسکے لیئے میں اس ہستی عظیم کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے۔۔۔

میں وہ لفظ نہیں رکھتی جو میری ماں کی معراج کے شایانِ شان ہو کہ میری ماں وہ دریا ہے جسے کوزے میں بند کرنا ناممکن سی بات ہے مگر انکے بارے میں بات نہ کرنا بھی میری ذات میں تشنگی کی آمد کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔۔مشرقی ماوؤں کی طرح میری ماں نے بھی زندگی کی تمام مشکلوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے ہمیں بڑا کیا نہ صرف بڑا کیا بلکہ اخلاق کی سمجھ بوجھ ، ادب تمیز اور انسانیت جیسے سبق گھٹی میں ہی گھول کر پلا بھی دیئے۔۔

ہماری ذات کو تعمیر کرنے میں انکے زندگی صرف ہوگئی اور وہ ہمیں ابھی تک وہی درس آج بھی دیتی ہیں جو انسانیت کی خدمت کا ہے جو انسان سے محبت کا ہے جو انسان کی عزت کا ہے۔۔۔

انہیں اگر کتابوں کی آئیڈل ماں کہوں تو شاید غلط نہ ہوگا کہ میری ماں وہ عظیم ہستی ہے جو کبھی اولاد کے گھر سے باہر ہونے پر نہیں سوئی جب انکی اولاد گھر میں ہوتو وہ سکون کا سانس لیتی ہے۔۔۔

وہ ایسی ماں ہے جو کبھی روٹیاں پہلے سے بنا کر فارغ نہیں ہوتی بلکہ جب جب اسکی اولاد گھر آتی ہے تب تب وہ ہر تکلیف کو نظرانداز کیئے اٹھ کر نہ صرف روٹیاں بناتی ہے بلکہ جب تک بچہ پورا کھانا کھا نہ لے اپنی جگہ سے اٹھتی نہیں چاہے کتنی بھی رات ہو۔۔۔ بچے کی طبیعت خراب ہو، اسے تکلیف ہو تو میری ماں کی آنکھ سے گرنے والا آنسو سب سے پہلا ہوتا ہے۔۔۔

اگر اپنی بات کروں تو مجھ سا نالائق بھی شاید ہی کوئی ہو جو میرے شوق پر مجھے ڈانٹتی بھی ہے تو ایسے کہ فکر کا عنصر نمایاں رہتا ہے مگر کبھی جتاتی نہیں اور میرے بعد میری تعریفوں کے جو پل باندھتی ہے اﷲ اﷲ وہ مجھے میری ماں کے قدموں کی خاک چاٹنے پر مجبور کر دیتا ہے..
لبوں پر اسکے کبھی بددعا نہیں ہوتی
اک ماں ہے جوکبھی خفا نہیں ہوتی

میں حق سے کہہ سکتی ہوں میری ماں جنت کا نمونہ ہے کہ۔۔۔
میرے سر پر میری ماں کی شفقت کا سایہ ہے ورنہ
زمانے کی کڑی دھوپ سے میں اب تک جل چکی ہوتی

میری ماں ابر کا برستا شفاف پانی ہے میری ماں کی محبت کی پیمائش کا کوئی پیمانہ نہیں اور میری ماں وہ ہیرا ہے جسکی کوئی قیمت نہیں۔۔۔۔
یارب میری ماں کو لازوال رکھنا
میں رہوں نہ رہوں میری ماں کا خیال رکھنا
میری خوشیاں بھی لے لو میری سانسیں بھی لے لو
مگر میری ماں کے گرد سدا خوشیوں کا جال رکھنا

مشرقی مائیں محبت و ایثار کی دیوی ہوتی ہیں اسمیں کوئی شک نہیں خدا نے ماں کی عظمت کو ماں کی قدر کرنے والے کو جنت کی بشارت دے دی اس سے بڑھ کر شاید ہی کوئی اور مرتبہ ہو اور شاید ہی کوئی اور تفسیر اسے سے بلند۔۔۔۔

ماں کی معراج کو مسلمانوں کے نامور دانشوروں نے ہی نہیں بلکہ مغربی ممالک کے دانشوروں نے بھی تسلیم کرتے ہوئے اپنے اپنے انداز میں ماں کی تعریف بیان کی ہے۔۔۔۔
" مشہور مغربی دانشور جان ملٹن کا کہنا ہے کہ آسمان کا بہترین تحفہ ماں ہے۔۔۔
" شیلے نے کہا کہ دنیا کا کوئی رشتہ ماں سے پیارا نہیں ہوسکتا۔۔۔"

اسکے علاوہ بھی دنیا کے نامور دانشوروں نے ماں کی عظمت و بڑائی کو اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے مگر میرا اعتراض وہاں زور پکڑتا ہے جہاں ان لوگوں نے سات مئی کے دن کو ماں کے لیئے مختص کردیا ہے ماں سیمحبت کے اظہار کے دن کو یہ مڈرز ڈے کا نام لے کر مناتے ہیں، تقریریں کرتے ہیں ، اپنی ماوؤں کے ساتھ دن گذارتے ہیں۔۔۔ اختلاف شاید یہاں بھی نہ ہوتا کیونکہ اس دن کی انہیں ہی ضرورت ہے۔۔۔ کیونکہ وہ ماں کی عظمت کو بھول چکے ہیں یا سرے سے ہی انکا تعلق ماوؤں کے ساتھ اتنا کمزور رہا ہوتا ہے کہ انہیں مڈرز ڈے پر انکی مائیں یاد دلوانے کی روایت ہے وہ مڈرز ڈے منا سکتے ہیں کیونکہ عمر کے ایک حصے میں آکر انہیں زندگی کی گہماگہمیوں سے ریٹائرڈ کردیا جاتا ہے ہوسٹلوں اور محتاج خانوں میں قید کردیا جاتا ہے اور سال کا ایک دن نکال کر پھر ماں کی یاد دلائی جاتی ہے سو وہ منا سکتے ہیں مگر افسوس تب ہوتا ہے جب ہمارے معاشرے کے باشعور لوگ جو آزاد خیال ہونے کا دعوا کرتے ہیں وہ بھی جو مشرقی ہونے پر فخر کرتے وہ بھی اغیار کی اس روایت میں اپنا بھرپور حصہ ڈال کر ماں کی مڈرز ڈے کے نام پر بھونڈا مذاق کرتے ہیں افسوس تب ہوتا ہے جب مشرقی لاڈلے مغرب کی اندھی تقلید میں ماوؤں کو گلاب لادیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ماں کا حق ادا کردیا۔۔۔۔مغربی جالوں نے جہاں مشرقی اولاد کو بیحس کردیا ہے وہیں اپنے رنگ میں بھرپور رنگتے ہوئے اپنے تہواروں کا حصہ بھی بنا لیا ہے افسوس بس یہیں ہوتا ہے۔۔۔ لیکن میں اپنی قوم کے باشعور اور خود کے بھلے برے کی سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد سے پوچھوں گی کہ ماں کو ایک دن کے گلاب اور دوسرے دن کی تمھاری پھٹکار میں سے کیا ذیادہ یاد رہے گا اور کیا ماں جیسے مقدس رشتے کو محض ایک دن کی یاد پر مقید کیا جاسکتا ہے؟؟؟؟ کیا ماں کے انمول جذبے، قربانیوں اور ایثار کا صلہ ایک دن ماں کے نام کرکے ادا کیا جاسکتا ہے؟؟؟اگر ایسا ہے تو کیا جنت بھی ایک دن میں کمائی جاسکتی ہے۔۔۔۔۔؟؟؟؟
یقیناً نہیں اسکے لیئے تو تمام عمر کی ریاضتیں درکار ہوتی ہیں۔۔۔۔
مڈرز ڈے اغیار کی روایت ہے جہاں کاندانی نظام کا تختہ پلٹ چکا ہے مگر ہماری تو شان ہی یہی ہے کہ ہم مشرقی ہیں جہاں رشتوں کا مان تقدس ہر شے سے ذیادہ اہم ہے۔۔۔ ہمارا تو ہر دن ماں کا دن ہوتا ہے۔۔۔۔ محبت کا دن ہوتا ہے۔۔۔۔ رشتوں کی تعظیم کا دن ہوتا ہے۔۔۔

ہمارا معاشرہ تو وہ معاشرہ ہے جہاں بیٹا روزی کمانے نکلتا ہے تو ماں سے دعا لے کر نکلتا ہے بیٹی امتحان دینے جاتی ہے تو ماں پورے امتحان کے دوران بیٹھی اسے امتحان میں کامیابی کے لیئے باہت بیٹھی دعائیں کررہی ہوتی ہے ہمارا معاشرہ تو وہ معاشرہ ہے جہان بچے کی پیدائش پر اسکے کان میں آذان کہی جاتی ہے سو ہم کیسے اپنی روایت کو بھول کر اغیار کی روایت کو فروغ دے سکتے ہیں۔۔۔

دوستوں اسی ماں کی بات ہے جس نے آج مجھے اسکی شان میں یہ تحریر قلم کے سپرد کرنے کا قابل بنایا تو آپکو اسے پرکھ کر قبولیت یا رد کرنے کی تقویت بخشی ہے۔۔۔ اس ماں کا احترام تو دینِ مذہب نے جنت کے حصول کا ذریعہ لکھ دیا ہے سو اس ماں کے نام پر ایک دن کیا پوری زندگی بھی قربان ہے۔۔۔ ہمیں اپنی ماں سے محبت کے اظہار کے لیئے کسی دن جگہ یا مہینے کی ضرورت نہیں۔۔۔ اتنا کہوں گی کہ ہمیں باقی کئی روایتوں کی طرح مڈرز ڈے کی روایت کو فروغ دینے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنی روایات کو جو کہ حقیقی حسن سے آراستہ ہیں کا پرچار ایسے کرنے کی ضرورت ہے کہ باقی بھی ہماری پیروی کریں کیونکہ ماں کی ممتا کو ایک دن میں سیرابی عطا نہیں ہوا کرتی وہ اولاد کے لیئے سدا پیاسی رہتی ہے اور باحیثیت اولاد ہمیں بھی عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ ہماری ماں کا ہاتھ جب بھی کسی سہارے کی تلاش میں اٹھے کا وہ اسکی اولاد کا ہوگا وہ اپکا اور میرا ہوگا انشااﷲ کہ ماں جب چھوڑ جاتی ہے تو کوئی بے وجہ دعا دینے والا نہیں ہوتا۔۔۔آخر میں اپنی اور تمام ماوؤں کے نام۔۔۔
یہ کامیابیاں، عزت یہ نام تم سے ہے
خدا نے جو بھی دیا ہے مقام تم سے ہے
تمھارے دم سے ہے میرے لہو میں کھلتے گلاب
میرے وجود کا سارا نظام تم سے ہے
یہ میری جیت کا سب اہتمام تم سے ہے
جہاں جہاں ہے میری دشمنی میرے سبب
جہاں جہاں ہے میرا احترام تم سے ہے
Kosar Naz
About the Author: Kosar Naz Read More Articles by Kosar Naz: 18 Articles with 14888 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.