شکست کا دُکھ اپنی جگہ کہ ہار کسے برداشت
ہوتی ہے، لیکن جب یہ حقیقت سامنے آئے کہ یہ شکست اپنوں کی سیاست، باہمی
عداوت اور اپنے لوگوں کے مفادات کی وجہ سے ہوئی ہے، تو ایسی ہار سانحہ بن
کر حوصلہ توڑ دیتی ہے۔ اب اپنوں سے کوئی کیسے لڑے، پشت پر مارے جانے والے
تیر سے کیسے بچے، پہلو سے کیے جانے والے وار کا کس طرح دفاع کرے۔ یہی صورت
حال ہوتی ہے جب اس طرح کے شعر وجود میں آتے ہیں،
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
اور ایسے ہی المیے ’’بروٹس تم بھی‘‘ جیسے تاریخی اور شہرۂ آفاق فقرے جنم
دیتے ہیں۔ لیکن ان المیوں سے فن کو ادب کے لاکھ شاہ کار جنم لیکن، لیکن یہ
رویے افراد سے لے کر قوموں تک کی زندگی تباہ کر ڈالتے ہیں۔
کرکٹ کے میچز اور ایونٹس میں تواتر سے شکست کھاتی ہماری قومی کرکٹ ٹیم کی
ٹوئنٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شرم ناک ہار نے پوری قوم کو غم وغصے سے بے حال
کر رکھا تھا، لیکن اس کے بعد ٹیم کے کھلاڑیوں کی باہمی رنجشوں اور ہماری
کرکٹ میں ’’پارلیمینٹ سے زیادہ‘‘ سیاست ہونے کے انکشافات نے قوم کو مزید
افسردہ اور بددل کردیا ہے۔
کرکٹ ٹیم کی صورت حال تو محض ایک عکس ہے، ورنہ ہمارے گھروں اور گلیوں سے لے
کر اداروں اور ایوانوں تک رنجشیں، کدورتیں، خودغرضی، حسد اور عداوت پر مبنی
رویے انفرادی سطح پر لوگوں کی شخصیتوں اور کیریر کو تباہی کے گڑھے میں
دھکیل رہے ہیں، تو قومی سطح پر یہ رویے ہر شعبے میں ملک کو نقصان پہنچا رہے
ہیں۔
جب معاملہ سیاست یا کرکٹ کا ہو تو ہم ایسے رویوں کا تذکرہ اور ان کی دل بھر
کے مذمت کرتے ہیں، لیکن اس وقت ہم اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ ہمارا
پورا معاشرہ یہ رویے اپنا ہوئے ہے۔
ان رویوں کے پیچھے احساس کمتری اور حسد کی نفسیات چھپی ہوتی ہے، جس کے تحت
دوسروں کو نیچا دکھانے کے لیے اس نفسیات میں مبتلا لوگ کسی بھی حد سے گزر
جاتے ہیں۔ آپ جسے اپنا مخلص ترین دوست سمجھ رہے ہوتے ہیں، ایک دن اچانک آپ
پر کھلتا ہے کہ وہ بڑی خاموشی سے آپ کو کوئی بہت بڑا نقصان پہنچا چکا ہے۔
جو لوگ آپ کے لیے بے حد قابل احترام ہوتے ہیں، کسی روز یہ حقیقت آپ کے
اعتماد اور دل کو کرچی کرچی کردیتی ہے کہ انھوں نے آپ کی پیٹھ میں چھرا
گھونپ دیا ہے۔
درس گاہوں کی مثال لیجیے۔ کون نہیں جانتا کہ یہ مقدس اور پاکیزہ ادارے ان
گھناؤنے رویوں سے کس قدر آلودہ ہیں۔ کسی طالب علم کی ذہانت، حاضر جوابی،
صلاحیت اور کارکردگی، اس کے طلبہ ساتھیوں ہی نہیں استاد کے دل میں بھی حسد
کی آگ بھڑکا سکتی ہے، جسے نفرت بننے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ اور اس کے بعد
اس طالب علم کو ’’اوقات میں‘‘ رکھنے کے لیے زہریلے جملوں سے نمبر کاٹ لینے
تک کسی بھی طرح نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔
صورت کے حُسن سے ذہانت اور صلاحیت کی خوب صورت تک ہر دل کش روپ ہمارے یہاں
تعصب، حسد اور احساس کمتری کا نشانہ بنتا ہے۔ ہم خوب صورت پھول کو ٹہنی پر
کِھلا دیکھ کر خوش ہونے کے بہ جائے اسے توڑ لینے میں فرحت محسوس کرتے ہیں،
کسی سرسبز پارک کی گھانس توڑ توڑ کر پھینکنے میں ہمیں لطف آتا ہے، کسی گھر
کی صاف ستھری دیوار پر پان پیک ماردینا ہمارے لیے مسرت کا تحفہ لاتا ہے،
کہیں کیے گئے تازہ رنگ کو کھرچ کر نشان ڈال دینا ہمیں بہت راحت دیتا ہے۔
ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے پاس علم اور صلاحیت کی کمی کیوں ہے، ہمارے
مالی وسائل کم کیوں ہیں، ہمارا گھر صاف کیوں نہیں، ہمیں کام یابی کیوں نہیں
مل رہی․․․․ہمارا مسئلہ تو یہ ہے کہ دوسرے کے پاس علم اور صلاحیت ہے تو کیوں
ہے، کسی کے مالی حالات اچھے ہوگئے ہیں تو ایسا کیوں ہوا، دوسرے کا گھر صاف
کیوں دکھائی دیتا ہے، ہمارے ہم سائے، پڑوسی یا رفیق کار کو کام یابی ملی تو
کیوں ملی․․․پھر یہ دعا اور خواہش ہوتی ہے کہ جو کچھ دوسرے کو میسر ہے وہ اس
سے چھن جائے، اور اگر توفیق ملے تو ہم خود دوسروں کو کسی بھی نعمت اور خوشی
سے محروم کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرجاتے ہیں۔
ہمارے یہاں لوگ کسی کو کام یابی سے ہم کنار ہونے سے روک نہیں پاتے تو اسے
نیچا دکھانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ کبھی اس پر طنزیہ فقرے اچھالے جاتے
ہیں، کبھی کوئی الزام لگاکر اور اسے پروپیگنڈے کی صورت دے کر دل کی آگ
بجھانے کا سامان کیا جاتا ہے، کبھی یوں ہوتا ہے کہ آپ کا برسوں کا شناسا
کسی موقع پر آپ کو یوں نظر انداز کردے گا جیسے جانتا ہی نہیں۔ اس طرح یہ
پیغام دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ’’تمھاری کوئی حیثیت نہیں۔‘‘
یہ تکلیف دہ اور مکروہ رویے کام یابی سمیٹ لینے والے افراد کا تو کچھ نہیں
بگاڑتے، بل کہ آسمان پر تھوکنے کی کوشش کی طرف ان رویوں کے حامل لوگوں کے
اپنے چہروں کو خراب کردیتے ہیں، لیکن جو لوگ اپنے بل بوتے پر، اپنی صلاحیت
اور اہلیت کی بنیاد پر خود کو منوانے اور کام یابی کے لیے نکلے ہوں، ان کے
سفر کو ختم کردیتے یا مشکلات سے پُر کردیتے ہیں۔
اپنی پہچان بنانے، اپنی زندگی کو آسان کرنے اور اپنی صلاحیتیں اور ہنر
منوانے کے لیے جدوجہد کرنے والے ہر شخص خاص طور پر نوجوانوں کو حوصلے،
اعتماد اور خلوص کی ضرورت ہوتی ہے، یہ سب وہ ان ہی لوگوں میں تلاش کرتا ہے
جنہیں وہ اپنا سمجھتا ہے، جیسے دوست، کلاس فیلو، استاد، خاندان کے افراد،
لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہی وہ کمیں گاہیں ہیں جہاں سے تیر اور آتے ہیں
اور اس کے حوصلے، ہمت اور عزم کو چھلنی کرجاتے ہیں۔ کبھی یہ سب زہرآلودہ
فقروں، طنزیہ مسکراہٹ اور نظروں، نظرانداز کردینے کے عمل، حوصلہ شکن الفاظ
اور رویوں کے ذریعے کیا جاتا ہے، تو کبھی باقاعدہ عملی صورت میں سازش اور
حکمت علی کے تحت ایسا ہوتا ہے۔
ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ یہ رویے لوگوں کی زندگی سے کھیل جاتے ہیں، یہ
پورے پورے خاندان کا مستقبل تاریک کردیتے ہیں، ان کی وجہ سے کبھی کبھی ملک
ذہانت اور صلاحیتوں میں کمال افراد کی اہلیت سے فائدہ اٹھانے سے محروم
ہوجاتا ہے۔
ہم کسی کے لیے اچھا نہیں کر سکتے تو کم ازکم بُرا نہ کرکے ہی بہت اچھا
کرسکتے ہیں، لیکن کیا کیا جائے کہ جب زندگی کا کوئی مثبت مقصد نہ ہو تو
منفی مقاصد ہی جینے کا سہارا بن جاتے ہیں۔
ہم انفرادی طور پر شاید ان گھناؤنے رویوں کو بدل نہ پائیں، لیکن اتنا تو
کرسکتے ہیں کہ اپنے اردگرد زندگی بدلنے اور خود کو منوانے کی جدوجہد میں
مصروف کسی شخص، کسی نوجوان کا ذرا سا حوصلہ بڑھا دیں، اسے تھوڑی سی ہمت دے
دیں، کوئی ایک جملہ ستائش کا اس کی جھولی میں ڈال دیں۔ |