ہم بے بس یا بے حس

کچھ مہینے پہلے میرا بھائی ملازمت کی غرض سے دوبئی گیا۔تین مہینے دوبئی کی آسائشوں سے بھرپور زندگی ، پر آسائش رہن سہن، اونچی اور خوبصورت عمارتوں سے لطف اندوز ہو کر وہ وطن واپس لوٹ آیا۔ وہ وہاں کی تیز رفتار اور پر آسائش زندگی سے بہت متاثر دکھائی دیتا تھا لیکن ساتھ ہی ایک بات ایسی تھی جو اسکو بالکل پسند نہیں آئی اور وہ بات تھی وہاں کے قانون کی بے حسی اور اس قانون کی وجہ سے لوگوں کی بے بسی۔وہ کہتا ہے کہ وہاں کے لوگ کسی کی مدد کرنے سے کتراتے ہیں۔وہاں کے قانون نے لوگوں کو اس طرح جکڑا ہواہے کہ وہ کسی کی مدد کرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں۔ قانون کے ہاتھوں بے بس ہو چکے ہیں۔جیسے کہ اگر کوئی شخص سڑک کنارے کسی حادثے کا شکار ہو جائے تو کوئی اس کی مدد کے لئے آگے نہیں آئے گا۔ چاہے اس زخمی کی حالت دیکھ کر آپکو کتنا ہی دکھ کیوں نہ ہو رہا ہو،آپ حقیقت میں کتنے ہی خداترس کیوں نہ ہوں آپ کے پاؤں اسکی مدد کے لئے اسکی طرف نہیں بڑھ سکیں گے۔کیونکہ اگر وہ زخمی آپکی موجودگی میں جان کی بازی ہار گیا تو اسکیقتل کیالزام میں آپکوسزا کاٹنی پڑے گی۔ اور پھر جب بھی بات انسان کی اپنی جان کی آتی ہے تو کوئی بھی اپنی جان کو اس طرح کے عذاب میں مبتلا کرنے کاخواہشمند نہیں ہوتا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے قانون میں بھی ایسی کوئی شِق ہے؟ کیا ہمارے ملک کے قانون نے بھی ہمیں بے بس بنا دیا ہے؟ لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے۔ ہمارے ہاں اگر کوئی بھی حادثے کا شکار ہو جاتا ہے تووہ تواپنے آپ کودنیا کا سب سے بدنصیب شخص تصور کرنے لگتا ہے۔ عام طور پر تو کسی کے پاس وقت نہیں ہوتا لیکن جب بھی کسی کی تکلیف پر تبصروں کا وقت آتا ہے سب کے پاس وقت ہی وقت ہوتا ہے۔کسی کو آپ سے کوئی کام ہو تو آپ کے پاس کبھی بھی وقت نہیں ہوگا لیکن اکر کوئی تکلیف میں ہے ہمیں یہ معلوم ہو جائے تو ہمارے پاس اس کی تکلیف کے چسکے لینے کے لئے بہت وقت اآجاتا ہے۔اب ذرا اس حادثے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ حادثے کا شکار اس شخص کے گرد پہلے تو لوگوں کا ہجوم لگے گا۔ سب پہلے اس شخص کا جائزہ لیں گے۔ مکمل طور پر اسکا سکین کیا جائے گا۔ پھرہجوممیں موجود لوگ ایک دوسرے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھیں گے۔کہ جناب آپ مدد کریں گے یا میں آگے بڑھوں۔ دوسری جانب سے نظروں ہی نظروں میں جواب موصول ہو گا کہ جناب آپ ہی آگے بڑھ کر مدد کیجئے اور ثوابِ دارین حاصل کیجئے۔ پھرہجوم کی طرف سے تبصرے شروع ہوں گے۔ کوئی کہے گا کہ بیچارہ بڑی بری طرح زخمی ہوا ہے۔ کسی کی طرف سے گاڑی والے کی غلطی تھی کی صدا سنائی دے گی۔ کوئی تو اسحد تک کہہ دے گا کہ بھئی یہ تو بہت زخمیہے بچے گا نہیں ۔ارے جناب! ابھی تماشا ختم نہیں ہوا ۔ ہجوم میں سے کچھ شوقین افراد آگے بڑھ کر زخمی کی ویڈیوز بنائیں گے۔ آخر یہ ہمارا قومی فریضہ بھی تو ہے۔ ہر اینگل سے زخمی کی ویڈیو بنے گی ۔ کیونکہ ویڈیو اپلوڈ کرکے سبکو یہ بھی تو بتانا ہے کہ میں کتنا خدا ترس اور باقی کتنے بے حس لوگ ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اگر یہ زخمی مر گیا تو اسکے گھر والوں کے پاس اسکی آخری سانسوں کی ویڈیو تو ہوگی۔ اور وہ یہ بھی دیکھ لیں گے کہ ا ٓخری وقت میں وہ اکیلا نہیں تھا۔ اتنے خدا ترس لوگ اسکے گرد موجود تھے۔اب ان حالات میں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کسی شخص کو وقت پر ہسپتال پہنچا دیا جاتا ہو اور وہ بچ جاتا ہو۔کتنی مرتبہ ہمارے لوگوں کی بے حسی کی بدولت کسی کی جان چلی جاتی ہے۔

ہم لوگ بے حسی اور بے بسی کی اس حد پر آچکے ہیں کہ اب ہمیں واقعی میں کچھ محسوس نہیں ہوتا ۔ درد تو بہت دور کی بات ہے ہم تو اب شرم سے بھی عاری ہو چکے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کتنی ہی ایسی مثالیں موجود ہیں جن کو یاد کر کے روح تک کانپ جاتی ہے۔وہ واقعات ہماری بے حسی کی ایسی مثالیں ہیں جو ہمارے معاشرے کی بھیانک اور بدصورت شکل کو عیاں کرتے ہیں۔ بات کسی ایک ادارے یا فرد کی نہیں بلکہ بات بحیثیت ِ مجموعی ایک باشعور معاشرے کی ہے۔ ہمارے ہاں جس کے پاس طاقت ہے وہ اس طاقت کا ایسا دل دہلا دینے والا استعمال کرتا ہے کہ روح تک کانپ جاتی ہے۔ سیالکوٹ میں قتل ہونے والے دو بھائیوں کی بے بسی آج بھی ہمارے ذہنوں پرنقش ہے۔ کس بے رحمی اور بے دردی سے ان دونوں کو سب کے سامنے مارا جا رہا تھا اور سب بے حس و حرکت کھڑے تھے۔ کسی نے آگے بڑھ کر ان ظالموں کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ کسی کے دل میں رحم نہ آیا۔ کسی نے ان ماں باپ اوربہن کا نہسوچا جن کی کل کائنات وہ دونوں لڑکے تھے۔ چند لمحوں میں ان دونوں کی زندگی کا چراغ گل کرنے والے تو انسان تھے ہی نہیں پر وہ لوگ جو خاموشی کی تصویر بنے سب دیکھ رہے تھے وہ بھی انسان کہلانے کے لائق نہیں ۔ اس دن انسانئیت بہت تڑپی ہوگی۔ ہر ایک کا گریبان پکڑ پکڑ کر منتیں کی ہوں گی کہ ان کو بچا لو کوئی تو اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دو۔ پر سب مردہ ضمیر تماشا دیکھتے رہے۔انسانئیت ایک طرف گھٹنوں میں منہ چھپائے روتی بلکتی رہی۔ہر اینگل سے تصاویر اور ویڈیوز بھی بنی پرپھر بھی کسی نے آگے بڑھ کر ان ظالموں کو نہیں روکا۔ وہ مارنے والے کم پر تماشا دیکھنے والے زیادہ تھے۔ اگر چند لمحوں کے لئے بھی کوئی یہ سوچ لیتا کہ ان لڑکوں کی جگہ ان میں سے کسی کا اپنا بیٹاہوتا تب بھی وہ یوں ہی خاموش رہتے تو میں یقین سے کہہ سکتی ہوں وہ واقعہ نہ ہوا ہوتا۔ میں اس بحث میں نہیں جانا چاھتی کہ وہ گناہگار تھے یا نہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا میرا مذھب یا میرے ملک کا قانون کسی کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کسی کو جرم ثابت ہوئے بغیر اس طرح بے دردی اور درندگی کے ساتھ مار دیا جائے؟ میرے مذھب میں کسی کو یہ اجازت کب دی گئی ہے کہ مرنے والے کی لاش کو یوں سارے شہر میں گھمایا جائے؟ہمارا دین تو دشمن کی بھی لاش کی بے حرمتی سے روکتا ہے پھر مسلمان کی لاش کے ساتھ یہ سلوک کیوں؟

رینجرز کے ہاتھوں قتل ہونے والے سرفرازکو بھی ہم میں سے کوئی نہیں بھولا۔ وہ ہاتھ جوڑ جوڑ کر منتیں کر رہا تھا کہ اس نے کچھ نہیں کیا پر انھوں نے ایک نہیں سنی۔ ااسکو گولی مار کر تڑپنے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ وہ تب بھی روتا رہا۔ تڑپتا رہا کہ میں مر جاؤں گمجھے ہسپتال لیجاؤ۔پر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔وہ وہیں تڑپ تڑپ کر زندگی کی بازی ہار گیا۔ سوالاب بھی وہی ہے کہ آخر کیوں؟

میں صرف لوگوں سے سوال کرنا چاہتی ہوں، میں کسی ادارے کی بات نہیں کرنا چاھتی ۔جو طاقت ور ہے وہ طاقت کے نشے میں چور ہے۔میرا سوال یہاں پر عام لوگوں سے ہے کہ کیاہم اتنے بے بس ہیں کہ سیالکوٹ جیسے واقعات کو ہم روک نہیں سکتے؟ یا ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ ہمیں دوسرے کا درد محسوس ہی نہیں ہوتا؟ ہم کیوں دوسریکی تکلیف پر اپنی آنکھیں اور کان بند کر لیتے ہیں کہ اسکے زخم ہمیں دکھائی نہ دیں اورسسکیاں ہمیں سنائی نہ دیں۔ ہم کیوں اس بات کا انتظار کرتے ہیں کہ درد تب ہی محسوس کریں گے جب خدانخواستہ اگلا ظلم کا شکارگھرانہ ہمارا ہوگا۔کیوں احساس کے لئے بڑا حادثہ درکار ہوتا ہے۔ کیوں قوم کو اکٹھا کرنے کے لیئے اے پی ایس جیسے حادثات کا انتظار کیا جاتا ہے۔ کیوں درد اپنا ہو تب ہی محسوس ہوتا ہے؟ ہم جس دین کے پیروکار ہیں وہ ہمیں سکھاتا ہے کہ مسلمان ایک جسمِ واحد کی مانند ہیں ،جسم کا ایک حصہ بھی درد میں مبتلا ہو تو سارا بدن بخار میں تپنے لگتا ہے۔ تو ہم احساس سے کیوں ناآشنا ہیں ،ہم الگ الگ کیوں؟

جب سے پاکستان آزاد ہوا ہے اس وقت سے اب تک ہم ایک نہیں ہو سکے۔ پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچی، کشمیری،مہاجر،اب تک اسی پہچان کو سینے سے لگائے گھوم رہے ہیں۔کبھی ایک محبت، بھائی چارے کا تعلق جوڑا ہی نہیں۔ کبھی کسی کے غم کو اپنا سمجھا ہی نہیں۔ہمارے ملک میں غربت کا یہ عالم ہے کہ غریب اپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور ہے اور ہم لوگ بس اپنے ڈرائینگ رومز میں بیٹھ کر اس بحث میں الجھے رہتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے یا ڈرامہ۔ فیس بک اور ٹوئٹر پر تصاویر اور چند کمٹس پوسٹ کر کے ہم اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں کہ ہم نے سب کے غم کا احساس کیا ہے۔ یہ بے حسی ہماری رگوں میں خون بن کر دوڑنے لگی ہے اور آہستہ آہستہ ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم فیصلہ کر لیں کہ کیا واقعی ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اس بے حس معاشرے کا تحفہ دینا چاہتے ہیں۔ یا ایک ایسے معاشرے میں پروان چڑھاناچاہتے ہیں جہاں کا ہر فرد ایک دوسرے سے محبت کے رشتے میں بندھا ہوا ہو۔ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اپنی قسمت بدل سکتے ہیں۔ صرف احساس بیدار کرنا ہے۔دوسرے کے درد کو محسوس کرنا ہے۔ دوسرے کے درد کو محسوس کرنے سے اسکے ساتھ کھڑے ہوجانے سے، کسی کی مدد کرنے سے،ایک با شعور اور ذمہ دار شہری بننے سے ہم معاشرے کو بدل سکتے ہیں ایک نئی تاریخ لکھ سکتے ہیں تو یہ سوداکسی صورت مہنگا نہیں ہے۔
Fizza Imtiaz
About the Author: Fizza Imtiaz Read More Articles by Fizza Imtiaz: 4 Articles with 2502 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.