بدانتظامی سے بدنامی اور ناکامی تک

کس بھی قوم کی ناکامی اچانک ہوتی بلکہ اس کے پیچھے کئی محرکات کارفرماہوتے ہیں ،اگران محرکات کابغورجائزہ لیا جائے تو ایک قوم کی ناکامی ،بدنامی اوربدانتظامی میں ملوث کرداربھی بے نقاب ہوجاتے ہیں جوبظاہراشرافیہ کے سرخیل ہوتے ہیں۔ ناکام ہونیوالی اقوام کی بعض مخصوص عادات،خصائل، اور طرز عمل انہیں ناکام بناتا ہے اوریہ اقوام زندگی کی دوڑمیں پیچھے رہ جا تی ہیں۔ہر آنیوالے کو نجات دہندہ سمجھ کراس کی غیر معمولی عزت ا فزا ئی کر نا اور پھر جلد ہی اسے ڈی گریڈ کر کے نا قدری کی سولی پرلٹکا دینا ان کاخاص وطیرہ ہوتا ہے۔ ان کی شامت اعمال کے باعث اﷲ تعالیٰ ان پر ایسس قسم کے حکمران مسلط کر دیتاہے جو انہیں مارتے بھی ہیں اور رونے بھی نہیں دیتے۔احتجاج تک کرنے کاحق ان سے چھین لیا جاتاہے ان کے حکمران ان کی آنے والی نسلوں تک کا رزق ہڑپ کر جاتے ہیں۔حکمرانوں کی بد اعمالیوں اور عیاشیوں کے سبب پیدا ہو نے والے بچے بھی ناحق مقروض ہوتے ہیں۔ اس قرض کابوجھ ان کے کندھوں پرڈال دیا جا تا ہے جو ان بیچاروں نے لیا بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کے ماں باپ اس قرض سے مستفید ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کے حکمران قومی مفادات کو نجی مفادات پرقربان کردیتے ہیں۔ اگر من حیث القوم اپنا جائزہ لیاجائے تو یہ تمام برائیاں ہمیں اپنے اندر کوٹ کوٹ کربھری نظر آئیں گی۔ہمارے ہاں جمہوریت کو ایسا مقدس لفظ بنا دیاگیاہے کہ شاید اگر جمہوریت نہ ہو تو خدانخواستہ ہم سب کے سب برباد ہو جائیں، خدانخواستہ ہماراملک ٹوٹ جائے۔ ہمیں باور کروایا جاتاہے کہ ہم سب کی بقاء اور سلامتی جمہوریت میں ہی مضمر ہے۔ ہماری جمہوریت ایسی جمہوریت ہے جس سے ہزاروں آمریتیں بہتر ہیں یہ بھلا کس قسم کی جمہوریت ہے جس میں بیس کروڑ عوام کے حقوق پر دوچارسرمایہ دارسیاسی چند خاندانوں او ر مٹھی بھر افرادکاغاصبانہ قبضہ ہے اور یہ لوگ ملک وقوم کے سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ ا ن پر کسی قانو ن کاا طلاق نہیں ہوتا اوریہ عناصر قوم کے ٹیکسوں پرکسی مقدس گائے کی طرح پل رہے ہیں۔
جمہوریت اک یسا طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولانہیں کرتے

ہماری جمہوریت کا دائرہ کار شریف خاندان ،بھٹوخاندان،مولانافضل الرحمن اور عمران خان کے گرد ہی کیوں گھومتا ہے۔ تمام اہل عقل و دانش اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں آنے والی تمام حکومتوں میں پرویز مشرف کادور اقتدار ان کے پیشرواوربعدمیں آنیوالے حکمرانوں سے ہزارگنابہترتھا۔جس کو غدارثابت کرنے کیلئے ہمارے نا م نہا د جمہور ی حکمران اور ان کے طبلہ بردار درباری ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔بلا شبہ اور بلا مبالغہ پرویز مشرف ایک قابل حکمران اور قابل لیڈر ہیں،ان کی ناقدری کی سزا ہمیں آف شورکمپنیوں کے مالکان شریف خاندان، آصف زرداری اور اسحاق ڈارکی شکل میں ملی،اگرحکمران اشرافیہ کابس چلے تو نادارومفلس پاکستانیوں کو روٹی کے نوالے سے بھی محروم کردیں ۔گھر گھر میں بھوک اوربیروزگاری کے باوجودان بیچاروں سے ٹیکس کے نام پر جگا ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ آج کے حکمران بھی رنجش اورعداوت کے باوجودمحض زمینی حقائق کی مجبوریوں کے تحت پرویز مشرف کی تاریخی پالیسیوں کو اپنا نے پرمجبور ہیں جن پر وہ اتنی تنقیدکرتے تھے ۔آج مولوی عبدالعزیز کو انتہا پسندوں کا سب سے بڑ اہمدرداورسہولت کار سمجھاجاتاہے جس نے سانحہ اے پی ایس کی مذمت کرنے سے صاف انکار کرکے قوم کا دل چھلنی کر دیا تھا، دبے لفظوں میں ان کی لگا م کھینچنے کی باتیں کی جا رہی ہیں لیکن پرویز مشرف کے دورحکومت میں ریاست نے اس وقت ان کیخلاف آپریشن کیاتھا جب وہ لوگ طاقت کے نشے میں چور ہوکر ریاست میں ریاست بنانے کے درپے تھے ۔پرویزمشرف نے انتہاپسندوں اور عسکر ی گروہو ں کے خلاف جس کاروائی کی داغ بیل ڈالی آج اسی کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہمارے محبوب سپہ سالار جنر ل ر احیل شریف قوم کی دعاؤں اوروفاؤں کامحورومرکز بنے ہوئے ہیں۔ جنرل راحیل شریف قوم کے نجات دہندہ بن کرابھرے ہیں ۔قوم نے انہیں اپنامسیحااور ہیرومان لیا ہے ۔ لیکن کبھی کسی نے سوچ بچارکرنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ اس کارروائی کاآغاز کس نے کیاتھا ،پرویزمشرف پہلے حکمر ان تھے جنہوں نے صاف صاف کہاتھا کہ ا فواج پاکستان کے متوازی کسی مسلح ونگ کاوجود ہر گز برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ریاست کی رٹ چیلنج کرنیوالے مسلحہ انتہاپسندعناصر کی سرکوبی اور حکومتی رٹ کو قائم کرنے کیلئے پرویز مشرف نے گرانقدرخدمات انجام دیں۔ میاں نوازشریف، افتخار چودھری اورایک مخصوص گروپ کاگٹھ جوڑ اب جاکر قوم پر ا ٓشکارہوا ہے ۔

اس ملک میں افتخار چودھری کے بیٹے ارسلان افتخارکی بدعنوانیوں پربھی خوب چورمچا یاگیا اور سابق چیف جسٹس نے معصومیت سے کہہ دیاکہ انہیں اپنے بیٹے کے کاروبارتک کا علم نہیں، انہی صاحب کو بلوچستان میں معدنیات کے شعبہ کا سربراہ بنا دیاگیا وہ تو اﷲ تعالیٰ بھلا کرے آزاد میڈیاکا جس کے بروقت اورموثر اقدامات سے ساراپروگرام چوپٹ ہوگیا۔ پرویز مشرف ہی وہ حکمران تھے جنہوں نے ان تمام بد عنوان عناصر کولگام ڈالی تھی۔ ان کے دور میں عام آدمی مہنگائی کی چکی میں نہیں پس رہاتھا، لوگ خوشحال تھے، کاروباری افراد کو بینکوں سے کاروبارکیلئے باآسانی قرض مل جاتاتھا جو اب صرف حکمرانوں کو ملتا ہے اور وہ بھی قابل معافی ہوتاہے۔پرویزمشرف دور میں پاکستان کو کو مغربی ممالک اور سرمایہ کاروں کا جو اعتماد حاصل تھا اس کی نظیر نہیں ملتی ،اس وقت کے امریکی صدرجارج بش سمیت جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل تک سب نے پاکستان کا دورہ کیا۔ انہیں غدار کہنے والوں کو شاید فوجی تربیت کے اس نکتہ کا علم نہیں کہ پاکستان سے والہانہ محبت فو جی حکام اورجوانوں کی رَگ رَگ میں خون بن کردوڑتی ہے اور پرویز مشرف کا تو تعلق ہی ایس ایس جی کمانڈوز سے تھا جنکانعرہ ہی فتح یا شہادت ہے۔غدار وہ ہوتاہے جو ملکی ،قومی اور عسکری راز چندسکوں کے عوض دشمن کو فروخت کر دے، دنیا کی تما م لغات میں غدار کی یہی تعریف لکھی ہوئی ہے ۔اﷲ تعالیٰ ان حکمرانوں اور ان کے درباریوں کو پوچھے جنہوں نے پاک فوج کے سابق سربراہ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سابق صدر پرغداری کا مقدمہ چلادیا،''شرم تم کو مگر نہیں آتی''۔
خرد کانام جنوں رکھ دیا جنوں کاخرد
جو بھی چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

بڑے لوگوں کے ساتھ کچھ ٹریجڈیز بھی ہو جاتی ہیں، پرویز مشرف کے پاس جہاں باوفااورباصفا لوگ بھی بڑی تعدادمیں تھے وہاں چند اقتدارپرست عناصر نے بھی انہیں انے حصارمیں لے لیا تھا جو آج میاں نوازشریف کے ساتھ وفاکادم بھرتے ہیں،ان مفادپرست اوراقتدار پرست عناصر نے اس صاف ستھرے ،بااصول ،باوقار لیڈر کی ساکھ کومتاثرکرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،یہی لوگ گلا پھاڑ پھاڑ کرپرویزمشرف کو ہزار بار وردی سمیت صدرمملکت منتخب کروانے کا دعویٰ کیا کرتے تھے ۔ پرویز مشرف کی ایوان صدرسے آبرومندانہ رخصتی کے بعد یہ اصحاب جاتی امراء کاطواف کرتے رہے اورمیاں نوازشریف نے اپنے سینے سے لگالیا۔ آج حکمرانوں کے پروٹوکول کے نا م پر معصوم بچوں سمیت لوگوں کی اموات ہو رہی ہیں،حکمرانوں کی شاہی سواری آنے پرشاہراہیں بند کر دی جاتی ہیں اور بیچارے ''اچھوت'' عوام بھوکے ننگے سڑکوں پر کھڑے رہ جاتے ہیں۔ پرویز مشرف دور میں کسی ناداراورمفلس نے گردے نہیں بیچے ، کسی نے غربت سے تنگ آ کر خود کشی نہیں کی اورنہ کوئی ادویات کی عدم دستیابی کے سبب جان کی بازی ہاراتھا۔دعاہے پاکستان کے عوام ہو ش کریں، انہیں سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا آ جائے ورنہ ہونی کو کو ن روک سکتاہے شاید ہماری نسلیں بھی حکمرانوں کے بچوں کی غلامی کرتی رہیں کیونکہ اقتداراور قومی وسائل پر ان کاقبضہ ہے۔
 
Muhammad Altaf Shahid
About the Author: Muhammad Altaf Shahid Read More Articles by Muhammad Altaf Shahid: 11 Articles with 7701 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.