سُپریم کورٹ کا فیصلہ سر آنکھوں پر مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

آ خر کا ر سپریم کورٹ کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں آ ہی گیا اور ریاست میں جو بیف کھانے پر پابندی عائد کی گئی تھی وہ اب اُاتھالی گئی۔سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی فیصلہ ضرور ہوتا ہے۔دیر آید درست آید کے عین مطابق جہاں بیف پر پابندی ختم کر لی گئی ہے اب ہماری بھی یہ ذمّہ داری ہے کہ اس پابندی کو پابندی ہی تصور کر کے اس کی تجارت کریں تا کہ کسی اور مذہب کے ماننے والوں کے جذبات مجروح نہ ہوں۔اس پابندی کے اُٹھنے جانے کے بعد کوئی شرارت بھی ہم سے شوشل میڈیا پر نہیں ہو جانی چاہئے جو ہمارے اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لئے پریشان کُن ہو۔کوئی ایک ایسی چیز جس کے لوگ باگ عادی ہوتے ہیں مثال کے طور پر گٹکھا خوری بھی خطرناک اور جان لیوا لت ہے۔مہاراشٹر میں بھی اس پر پابندی عائد کی گئی ہے مگر وطنِ عزیز میں آج بھی گٹکھا دستیاب ہے مگر قدرے ہو سکتا ہے کہ وہ گٹکھا خوروں کو دگنی قیمت پر دستیاب ہوتا ہو۔دوسری طرف نتیش حکومت میں شراب پابندی عائد کی گئی ہے لیکن ایسا محسوس نہیں کیا جا سکتا کہ اس پر مکمل پابندی لگ چُکی ہو کیوں کہ میخوار تو اتنی آسانی سے جینے والی قوم تو ہے نہیں۔بعض میخواروں میں ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جب تک وہ پی کر اپنی طبیعت کو تروتازہ نہیں کرتے کوئی بھی کام کرنے کے اہل نہیں ہوتے۔بعض ڈرائیور بھی میخوار ہوتے ہیں مگر جب تک وہ پی نہیں لیتے گاڑی سکون و اطمینان سے چلا نہیں سکتے۔پھر یہ تو شوق کے لئے اپنی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔گٹکھے پر پابندی کے باوجود بھی آج بھی اخبارات میں کبھی کبھی خبریں آ ہی جاتی ہیں کہ اتنا ٹن گٹکھا ضبط کر لیا گیا یہ ایک خوش آئند امر ہے تا ہم شراب پر پابندی کے با وجود بھی اب تک کوئی شراب ضبطی کی خبر نظر سے نہیں گزری۔مہاراشٹر بھی کچھ البیلوں کی ریاست نہیں،یہاں پانی کے فقدان پر شراب بنانے والوں کو پانی کی قلّت کا بھی خیال دلوایا جاتا ہے۔بہر ِ حال ابھی سگریٹ پر بھی پابندی کی بات کہی جا رہی ہے تا ہم یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ چاہے بیف خوری،گٹکھا خوری،شراب نوشی اور سگریٹ نوشی ہو ان پر مکمل پابندی لگانا نا ممکن ہی نہیں دُشوار گزار بھی ہے۔ ابھی تقریباً ایک سال تک ریاست مہاراشٹر میں بیف خوری پر پابندی عائد کر لی گئی تھی نیزعیدِ قرباں کے موقعے پر بھی ذبیحہ پر پابندی لگانا گویا شریعت میں بے جا مداخلت ہی تھا مگر ہم لوگوں نے بھی اس فیصلے کو صبر و قرار کے ساتھ تسلیم کیا اور ریاست میں گزشتہ برس عید ِ قرباں کے موقعے پر ذبیحے کی پابندی ریاست گیر طور پر لگا دی گئی جو آج بھی بر قرار ہے اور بیٖف خوری کے ساتھ ساتھ اگلے لوک سبھا انتخابات کے بگل تک یقینی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ذبیحہ پر پابندی بھی اُٹھ جا ئے گی۔ہو بھی سکتا ہے کہ آج جو بیف خوری پر پابندی اُٹھالی گئی ہے اُ سکے مثبت اور منفی اثرات کیا ہیں؟ اس کا بھی جائزہ لیا جائے۔اب ریاست کے انتہائی ذمہ دار اور آر ایس ایس کے وفادار دیویندر فرنویس نے سُپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنی خفگی کا اظہار بر ملا کیا ہے ہم ا خفگی کو اُن کی وفادار ی کا صرف صدقہ ہی سمجھ لیتے ہیں۔اس سے قبل بھی اُنہوں نے بھارت ماتا کی جئے پر ایک متنازعہ بیان دیکر اپنے آپ کو غیر ذمہ داری کے کٹہرے میں لا کھڑا کر دیا تھا۔اس بار بھی اُن کے بیان کو متنازعہ یا غیر ذمہ دارانہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ بھی کسی کی وفاداری کا عہد لے چُکے ہیں جس کے لئے اُنہیں اقتدار سے ہاتھ بھی دھونا پڑ جائے تو کوئی بعید نہیں۔بہرِ حال بیف خوری کی پابندی کے بعد اس کی تجارت کرنے والوں،جانوروں کو پالنے والوں،کسانوں اور ہوٹلوں کے مالکان کو بھی کافی صوبتیں برداشت کرنی پڑی ہوئی ہونگی۔اب ایک شخص جس کی اقتصادی حالت جواب دے چُکی ہے،غیر تعلیم یافتہ بھی ہے مگر اُس نے معاش کے لئے اگر بیف کے گوشت کی تجارت شروع کردی معاََ حکومت کی بیف خوری پر پابندی کے بعد اُس شخص کا معاشی نظام تو درہم بر ہم ہی ہو کر رہ گیا۔اب ایسی صورتِ حال میں وہ اس قابل بھی نہیں ہے کہ وہ کوئی دوسرا پیشہ اختیار کرے۔آج گٹکھے پر پابندی ہونے کے باو جود بھی لوگ چیونگم کی طرح گٹکھا چباتے نظر آتے ہیں تو کیا بیف خوری پر پابندی کے بعد بھی ہو بھی سکتا ہے کہ پوشیدہ طور پر اس کی تجارت ہوتی ہو تا کہ گھر کا معاشی نظام بھی اطمینان و سکون کے ساتھ چل سکے۔آج بیف خوری پر پابندی کے اُٹھ جانے کے بعد بھی ہمیں جوش میں ہوش کھونے کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی اس امر کو شوشل میڈیا پر اُچھالنے کی کی قطعاََ ضرورت نہیں بلکہ ہمیں تو اس بات کا احساس ہی دِلانا ہے کہ جو ہو ا اچھا ہی ہوا ۔اس سے زیادہ جوشیلا ہونے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والے دنوں میں جب عیدِقرباں پر ذبیحہ کی پابندی اُٹھنے کو ہوگی اور ہمارا بیف خوری کی پابندی پر اُٹھنے کا تماشہ ہی ہمارے لئے رُخنہ ثابت ہو جائے۔ابھی ابھی مالیگاؤں اور جئے پور دھماکوں کے ملزمین بھی با عزّت بری اس لئے قرار دیے گئے تھے کہ اُن کے خلاف ایسے شواہد تھے ہی نہیں جو اُنہیں سزا کا مستحق قرار دیتے۔جو ملّتِ اسلامیہ کے لئے خوش آئند امر ہے۔ابھی دوسری خوش خبری یہ کہ بیف خوری پر پابندی عائد کی گئی تھی اُس پر بھی فیصلہ آہی گیا اب دھیرے دھیرے ہی سہی نصرتِ خداوندی ہمارے ساتھ ساتھ ہے بس صبر کا دامن تھامنے کی اشد ضرورت ہے اور تخریبی کاروائیوں سے بھی خود بچیں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں۔اور ایک انتہائی اہم بات یہ بھی ہے کہ جہاں سُپریم کورٹ کا فیصلہ بیف خوری کی پابندی کے ختم کیے جانے پر آگیا ہے تو ہماری بھی یہ ذمہ داری ہے کہ بیف تجارت یا گوشت کی رسد میں اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ ہماری تجارت اور رسد سے کسی اور مذہب کے ماننے والوں کے جذبات مجروح نہ ہوں۔سُپریم کورٹ کے فیصلے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اب کورٹ کا فیصلہ ہے جو جی میں آ ئے کیا جائے ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ اس فیصلے کے پس پُشت ہمیں اور بھی احتیاط سے کام لئنے کی ضرورت ہے کہ اگلا مہینہ رمضان المبارک کا ہو گا پھر اس کے ڈھائی مہینے بعد عید قرباں کی آمد آمد ہوگی اس لئے ہمارا بھی یہ ملّی فریضہ ہے کہ وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اور جدید حالات کے تقاضوں کے پیش ِ نظر ہمیں بھی دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے مذہبی جذبات کی بھی قدر کی جانی چاہئے۔تاکہ اس سے ذبیحہ پر جو پابندی عائد کی گئی ہے اُس پابندی کے اُٹھنے کے لئے راہیں ہموار ہو جائیں۔حکومت کی اب تک کی کار کردگی پر ہر اخبار میں مضامین اور سیاسی مبصرین کے تبصرے اور تجزیے شائع ہو چُکے ہیں اب اس پہلو پر مزید روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے بس اسی بات پر اکتفا کیا جا سکتا ہے کہ حکومت کے ابتدائی دو سال تو محض مسلمانوں کو ہراساں،پریشاں اور سازشوں میں ہی کٹ گئے ہیں۔مگر ہم لوگوں نے جو صبر کا دامن تھاما ہے یہی ہماری کامیابی ہے ورنہ حالات تو کب کے قیامت خیز ہو جاتے۔بیف خوری اور اس پر پابندی دونوں پہلو ہندوستانی شہری کے بنیادی حقوق کے زمرے میں آتے ہیں۔بیٖف خوری کی اجازت سے ایک طبقہ خوش ہو جاتا ہے تو دوسری طرف ایک طبقے کے مذہبی جذبات بھی مجروح ہو جاتے ہیں ۔ایسے میں آئین اور مذہبی جذبات کی پاسداری بھی ناگزیر ہو جاتی ہے اور ایسا نہ کیے جانے سے حالات کی کشیدگی کا بھی احتمال ہو تا ہے تا ہم کچھ ہمارے بھی سماجی فرائض ہوتے ہیں کہ ایسی پیچیدہ صورت ِ حال میں جب سُپریم کورٹ نے فیصلہ صادر کیا ہے تو ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ اس فیصلے کی بھی لاج رکھ لی جائے اور کوئی ایسی حرکت ہم سے سرزد نہ ہو جائے جو خود مذہب کے نام پر ہی سہی ہمارے لئے وبالِ جان نہ بن جائے۔آج ذبیحہ پر پابندی عائد کی گئی ہے اس کے کچھ حد تک ہم بھی ذمہ دار ہیں۔اور ہماری ہی خصلتوں کی باعث ہی اس پر پابندی عائد کی گئی ہے۔اس ضمن میں ہم نے بیلوں اور گایوں کی تصاویر کی بے جا تشہیر کے لئے شوشل میڈیا کی بھی خدمات حاصل کی تھیں!یہ شوشل میڈیا کی شرارتیں ہی ہمارے لئے وبالِ جان بن گئی ہیں۔ماحول کی تخریب کاری کے کچھ حد تک ہم بھی ذمہ دار ہیں اس لئے ہمیں بھی اس تخریب کاری ک خول سے باہر نکلنا ہو گا۔آج ایک فیصلہ ہماری حما یت میں آیا ہے اور دوسرا زیرِ غور ہے اس لئے ہماری طرف سے کوئی ایسا قدم نہ ہو جس سے آخر الذکر امر پر کوئی حرف آ سکے۔ایسے نازک اور حساس معاملات میں ہماری جانب سے جتنا بھی احتیاط کیا جائے گا اُتنا کم ہی ہو گا اور یہی اھتیاط ہمارے لئے مستقبل میں شعاع نو کا ضامن ہو گا۔اور اسی میں سب کی بھلائی ہے۔
Waris Tudilvee
About the Author: Waris Tudilvee Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.