ڈاکٹر ذاکر نائیک کے نام سے کون
واقف نہیں ہے۔ بھارتی صوبے مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والے ممتاز مسلم اسکالر
ڈاکٹر ذاکر نائیک کو سب ہی جانتے ہیں۔ ان کی وجہ شہرت انکے ہندوؤں،
عیسائیوں اور یہودیوں سے مناظرے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی ایک وجہ
شہرت قرآن پاک کے علاوہ دیگر الہامی کتب کے بارے ان کا مطالعہ اور مکمل
معلومات ہیں جس کے باعث وہ عیسائیوں، یہودیوں اور ہندوؤں کو ان کے مذہب ہی
کی کتابوں سے حوالے دیکر لاجواب کردیتے ہیں۔(یہاں یہ واضح رہے کہ ڈاکٹر
ذاکر نائیک کے طریقہ کار پر میں کچھ تحفظات بھی ہیں) اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر
ذاکر نائیک اتحاد بین المذاہب کے بھی نہایت پرجوش حامی ہیں۔ اور وہ مختلف
مذاہب میں مشترکات پر بات کر کے اتحاد بین المذاہب کی بات کرتے ہیں یہ
ڈاکٹر ذاکر نائیک کی عمومی شہرت ہے۔ لیکن اب وہ میڈیا پر ایک نئے حوالے سے
موضوع گفتگو ہیں اور وہ ہے ان کی برطانیہ آمد پر پابندی۔
قارئین کرام یہ پابندی دراصل مغربی دہرے معیارات کا ایک اور واضح ثبوت ہے۔
جیسا کہ ہماری ویب کے تمام یوزرز جانتے ہیں کہ گزشتہ کچھ دنوں سے ہمارا
موضوع نام نہاد آزادی اظہار رائے اور مغربی دہرے معیار ہیں اور اللہ رب
العزت کی مہربانی ہے کہ وہ ہمیں اپنے موضوع کے حق میں مواد مہیا کردیتے ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کا دورہ برطانیہ کئی روز سے برطانوی میڈیا میں موضوع بحث
بنا ہوا تھا اور برطانوی اخبارات کئی روز سے ان کے دورے اور ان کے لیکچرز
کے خلاف مہم چلا رہے تھے۔ اور برطانوی میڈیا نے ان پر سب سے بڑا الزام یہ
لگایا ہے کہ “ وہ اُسامہ بن لادن کی تعریف کرتے ہیں اور امریکہ کو دہشت گرد
قرار دیتے ہیں“۔ قارئین کرام غور کریں کہ برطانوی میڈیا بھی اسی مغربی
میڈیا کا ایک حصہ ہے جو کہ توہین آمیز خاکوں کی نمائش کو آزادی اظہار رائے
کہہ کر حق بجانب سمجھتے ہیں۔ لیکن ایک بار پھر ان کا جھوٹ، ان کی منافقت،
ان کا دہرا معیار ننگا ہوکر سامنے آگیا ہے۔ برطانوی ہوم سیکرٹری مسٹر
تھریسامے نے جمعہ کے روز ان کے برطانیہ میں داخلے پر پابندی لگاتے ہوئے کہا
“ ان کے (ڈاکٹر ذاکر نائیک کی) جانب سے کئی مواقع پر دئے گئے ریمارکس اس
بات کے شاہد ہیں کہ ان کا رویہ برطانیہ کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ اور یہ
رویہ اس بات کا متقاضی ہے کہ ان کی برطانیہ میں داخلے پر پابندی لگائی جائے۔“
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈاکٹر ذاکر نائیک کے رویے میں کیا خرابی
ہے؟ اور وہ مغربی معاشرہ جہاں ہم جنس پرستی کو بھی بنیادی حق تسلیم کیا
جاتا ہے، جہاں انبیاء کرام کی توہین کو اظہار رائے کی آزادی کہا جاتا ہے۔
وہاں ڈاکٹر ذاکر نائیک کی آمد پر محض اس لئے پابندی لگائی جارہی ہے کہ بقول
برطانوی میڈیا کے وہ امریکہ کو دہشت گرد سمجھتے ہیں اور اسامہ بن لادن کی
تعریف کرتے ہیں۔ لیجئے صاحبان ذرا غور کیجئے کہ آزادی اظہار رائے کا حامی
معاشرہ اپنے خلاف زرا سی بھی تنقید برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے اور اس
تنقید کے جرم میں ایک عالمی شہرت یافتہ ممتاز اسکالر کے برطانیہ میں داخلے
پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ کیا یہی آزادی اظہار رائے ہے۔
قارئین کرام ڈاکٹر ذاکر نائیک پر پابندی سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مغربی
معاشرے میں انبیا کرام اور پیغبر اسلام نبی مہربان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی شان میں تو گستاخی کی جاسکتی ہے لیکن یہودیوں کے نام نہاد ہولو کاسٹ پر
بات نہیں کی جاسکتی، مغربی معاشرہ میں عیسائی ننوں اور راہباؤں کو تو
اسکارف پہننے کی اجازت ہے لیکن مسلم خواتین کے اسکارف پر پابندی ہے۔ مغربی
معاشرہ میں عیسائی تو صلیب کا لاکٹ پہن سکتے ہیں، سکھ بڑی آزادی سے اپنی
پگڑی باندھ سکتے ہیں اور داڑھی بڑھا سکتے ہیں لیکن کوئی مسلمان اللہ کے نام
کا لاکٹ نہیں پہن سکتا، وہ اگر پگڑی پہنے گا تو دہشت گرد کہہ کر مار دیا
جائے گا، مغربی معاشرہ جہاں سلمان رشدی اور تسلمیہ نسرین جیسے گستاخ رسول
اور ننگ انسانیت لوگوں کو پناہ دی جاتی ہے۔ ان دونوں کو وہاں تحریر و تقریر
کی آزادی حاصل ہوتی ہے، گستاخ کارٹونسٹ کو سامعین کی مرضی کے برخلاف
یونیورسٹی میں لیکچرز کے مدعو کیا جاسکتا ہے لیکن ڈاکٹر ذاکر نائیک کی آمد
اور لیکچرز پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ یہ ساری باتیں بہت کچھ کہہ رہی ہیں
صرف چشم بینا کی ضرروت ہے۔ یہ ساری باتیں زبان حال سے یہ کہہ رہی ہیں کہ
یہود و نصاریٰ کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے، یہ ساری باتیں چیخ
چیخ کر کہہ رہی ہییں کہ مغربی دنیا کی ساری پابندیاں صرف مسلمانوں کے لئے
ہیں اور کسی کے لئے نہیں، اب اگر کوئی نہ سمجھنا چاہے تو اس کی مرضی۔
معروف پاکستانی نژاد برطانوی سیاستدان اور سماجی شخصیت لارڈ نذیر احمد نے
ڈاکٹر ذاکر نائیک پر پابندی پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “
برطانوی حکومت نے یہ انے انتہائی غلط فیصلہ کیا ہے، برطانیہ اور دنیا بھر
میں کروڑوں لوگ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو پسند کرتے ہیں اور ان کے لیکچرز کو شوق
سے سنتے ہیں، ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ہمیشہ امن کی بات کی ہے اور انہوں نے
کبھی بھی دہشت گردی کی حمایت نہیں کی ہے ان پر پابندی کے نتیجے میں دائیں
بازو کے انتہا پسندوں کو خوشی ہوگی اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ
انگلش ڈیفنس لیگ کو خوش کرنے کے لئے کیا ہے“ برطانیہ کے پہلے مسلم رکن
پارلیمنٹ (سابق ایم پی ) محمد سرور نے کہا ہے کہ ان کو حکومت کے اس فیصلے
پر حیرت ہے اور ان پر پابندی اظہار آزادی رائے پر پابندی کے مترادف ہے،
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص دہشت گردی یا انتہا پسندی کی سرگرمیوں میں
ملوث ہو تو اس پر پابندی لگائی جاسکتی ہے لیکن پر امن مذہبی اسکالرز پر
پابندی درست نہیں ہے“۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا برطانوی حکومت عوامی دباؤ پر ڈاکٹر ذاکر نائیک کی
پابندی کو ختم کرتی ہے یا اس کے برخلاف ( جس کی امید زیادہ ہے ) ان کی
پابندی کو برقرار رکھتی ہے۔ |