ہندو جنونیت اور سیکولر ہندوستان

گزشتہ دنوں اخبارات کی زینت بننے والی ایک خبر ”ہندوستان نے انسانی حقوق پر بات کرنے سے انکار کر دیا ہے“پڑھ کر بچپن میں پڑھی ایک حکایت یاد آگئی۔ حکایت کچھ یوں ہے کہ ایک بکری چرتے چرتے ریوڑ سے دور نکل گئی۔ چرواہے نے ایک بکری کم دیکھی تو ڈھونڈنے لگا۔ وہ سمجھا کوئی بھیڑیا اٹھا کر لے گیا ہوگا۔ بکری کو تلاش کرتے کرتے وہ کافی دور نکل گیا تو دیکھا کہ وہی بکری بڑے مزے سے ہری ہری گھاس کھا رہی ہے۔ چرواہے کو بکری پر بڑا غصّہ آیا۔ لاٹھی تانے دبے پاؤں اس کے پاس پہنچا اور غصّے میں بکری کو لاٹھی دے ماری جس سے بکری کا ایک سینگ ٹوٹ گیا اور خون بہنے لگا۔ بکری کو بری طرح زخمی پا کر سوچوں میں پڑ گیا کہ بکری کے مالک کو کیا جواب دوں گا۔ اب وہ بکری کی منت سماجت کرنے لگا کہ دیکھو مالک سے کچھ مت کہنا۔ بکری بولی!یہ بات ہی ایسی ہے کہ چھپائے نہ چھپے گی۔ تم نے مجھ پر بڑا ظلم کیا ہے۔ چلو میں نے تمہیں معاف کیا۔ میں اتنا کر سکتی ہوں کہ اپنی زبان بند رکھوں مگر ٹوٹا ہوا سینگ سارا حال بیان کر دے گا۔ ہندوستان کا انسانی حقوق پر بات نہ کرنا اور سیکولرازم کا دعویٰ اس کی منافقانہ روش کے کئی پہلوؤں کو بے نقاب کرتا ہے۔

بہرحال بات چاہے انسانی حقوق کی ہو یا دہشت گردی کی، ہندوستان کا دوغلا کردار سب پر واضح ہو چکا ہے۔ سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں آبرو ریزی، ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیاں اب معمول بن چکی ہیں۔2008ء میں کولیشن آف سول سوسائٹیز نامی انسانی حقوق کی تنظیم نے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں سینکڑوں کی تعداد میں گمنام قبروں کی موجودگی کا انکشاف کیا تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بھارتی قوانین کے تحت فوج کو قانون کی گرفت میں نہیں لایا جا سکتا۔ فورسز کو حاصل خصوصی اختیارات کی وجہ سے انسانی حقوق کی پامالیاں بڑے پیمانے پر رونما ہوتی رہتی ہیں جن میں فورسز کے ہاتھوں دوران حراست ہلاکتوں، اجتماعی عصمت دری، اجتماعی قتل، بلاجواز گرفتاریاں اور املاک کا اتلاف جیسے واقعات شامل ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے وفد نے جن کا تعلق بھارت سے تھا 17تا22مئی سری نگر کا دورہ کیا۔ تنظیم کے ارکان نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی وزارت داخلہ نے اس کے نمائندوں کے ساتھ بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایک نمائندہ کے مطابق ”ہم نے کشمیر آنے سے پہلے وزارت داخلہ کے اعلیٰ اہلکار سے ملاقات کی درخواست کی تھی لیکن انہوں نے کسی قسم کی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہاں تک کہ ہم نے مذکورہ وزارت کے سیکرٹری سے بھی رابطہ کیا لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔“ ایمنسٹی ارکان کے مطابق ” حکومت ہند نے انہیں اس بار بھی کشمیر آنے کی اجازت نہیں دی لیکن بھارتی شہری ہونے کی وجہ سے وہ ہمیں نہیں روک سکی۔ یہ ان کی مجبوری ہے کہ ہم بھارتی شہریت رکھتے ہیں اس لیے وہ ہمیں وہاں جانے سے روک نہیں سکتے جہاں ہم جانا چاہتے ہیں۔“یہ بات یاد رہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے گزشتہ بیس برسوں کے دوران بھارت سے کئی بار اپنے نمائندوں کو کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت طلب کی لیکن انہیں ویزا دینے سے انکار کیا گیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق دیگر کئی عالمی تنظیموں نے بھارت سے اجازت طلب کی تھی لیکن ابھی تک کسی بھی تنظیم کو ریاست کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی حالانکہ کئی تنظیمں وقتاً فوقتاً ریاست میں انسانی حقوق کی صورتحال کے متعلق تشویش کا اظہار کر چکی ہیں۔

حکومت ہند اپنے سیکولرازم کے نعرے میں کس حد تک مخلص ہے اس کا اندازہ ملک میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ہندوؤں نے 2002ء میں تقریباً ایک ہزار مسلمانوں کو گجرات میں ذبح کر دیا۔ بڑوں کی مرضی سے مساجد اور گرجا گھر جلائے جاتے ہیں۔ جبکہ سیکولر ہندوستان میں ورن گاندھی انتخابی جلسہ میں سرعام مسلمانو ں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سنا اور دیکھا گیا کہ جو ہاتھ ہندو پر اٹھے گا وہ کاٹ دیا جائے گا۔ ایک بھارتی صحافی کپل کومریدی کے مطابق ہندوستان کے سیکولرازم کی تشریح کا دارومدار اب ہندوؤں کی منشاء پر ہے یعنی جو وہ چاہیں گے وہ ہوگا۔ ہندوستان میں ہونے والے بم دھماکوں میں تقریباً ہر جگہ مذہبی انتہا پسند ہندوؤں کا ہاتھ رہا ہے۔ یہ طاقتیں ملک میں جمہوری نظام کی جگہ مذہبی نظام قائم کرنا چاہتی ہیں۔ عوام کو ہندو توا کے فریبی جال میں پھنسا کر منووادی نظام(اس نظام میں برہمنوں کے سوا سارے ہندو نیچ اور شودر بن کر انسانی حقوق سے محروم ہو جائیں گے)اور سمرتی نظام(طبقہ واریت، اونچ نیچ، چھوت چھات)رائج کرنے کا منصوبہ تیار کر رکھا ہے۔ یہ ساری معلومات بم دھماکوں کے مجرم پرگیہ سنگھ ٹھاکور، دیانند پانڈے کے ساتھ حراست میں لیے گئے سابق کرنل پروہت کے لیپ ٹاپ سے حاصل ہو چکی ہیں جو فی الوقت عدالت کی تحویل میں ہیں۔ سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس مہاراشٹر ایس ایم مشرف نے اپنی کتاب Who Killed Kerkare میں جہاں ہندوستان کا فرضی سیکولر چہرہ دکھانے کی کوشش کی ہے وہاں ملک میں ہونے والے بم دھماکوں اور ان کے ساتھ جڑے ابھینو بھارت، سناتن سنستھا پربھات،آر ایس ایس جیسی تنظیموں کی سازشوں کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔

مسلمانوں کی شدت پسندی کا دنیا بھر میں ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے مگر ہندوؤں کی جنونیت اور شدت پسندی کا تذکرہ تک نہیں کیا جاتا۔ سیکولرازم ایک نقاب ہے جس کے پیچھے ہندو مذہبی طبقہ اپنی جنونیت چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو ہندو مذہبی طبقے کی جنونیت اور شدت پسندی مسلمانوں کی حریت پسند تحریکیوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔
Hafiz Mansoor Jagiot
About the Author: Hafiz Mansoor Jagiot Read More Articles by Hafiz Mansoor Jagiot: 22 Articles with 18566 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.