قارئین کرام ! جیسا کہ آپ نے اپنے گزشتہ ہفتے شائع ہونے
والے کالم میں انکشاف کیا تھا کہ پنجاب اسمبلی کے سامنے صحافیوں کے احتجاج
اور صوبائی وزیر قانون کی جانب سے صحافیوں پر درج کیے جانے والے جھوٹے
مقدمات خارج کرنے کے اعلان کے بعد شہر راﺅ سکندر اقبال میں صحافیوں کےخلاف
انتقامی کاروائیوں کا بڑا پلان بنا لیا ہے اور پولیس کی کرپشن، جعلی پولیس
مقابلوں، جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی سمیت دیگر کارناموں کا پردہ فاش
کرنیوالے صحافیوں کی لسٹیں تیار کی گئی ہیں اور اب انہیں نئے طریقوں سے
انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنایا جانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے اوراوکاڑہ
پولیس کی جانب سے ان صحافیوں کےساتھ سابقہ رنجش رکھنے والے افراد کی تلاش
شروع کردی گئی ہے جن کو مدعی بنا کر صحافیوں کےخلاف مقدمات درج کیے جائیں
گے ۔ذرائع کے مطابق پولیس صحافیوں کیساتھ سابقہ عداوت رکھنے والے افراد کو
مجبور کررہی ہے کہ وہ مقدمات درج کروائیں۔ انتہائی معتبر و خفیہ ذرائع نے
یہ رپورٹ بھی دی تھی کہ ڈی پی او نے اپنے قریبی ایس ایچ اوز کو یہ ہدایات
بھی جاری کیں ہیں کہ پولیس کےخلاف لکھنے والے صحافیوں کے اہل و عیال کو بھی
حراساں کروایا جائے یہ انکشاف بھی ہوا تھا کہ پولیس اپنے ڈکیت گینگز کے
ذریعے ایسے صحافیوں کے گھروں میں وارداتیں بھی کروائے گی تاکہ صحافیوں کو
پولیس کیساتھ دشمنی کاسبق سکھایا جا سکے۔ صحافیوں کی جو لسٹ تیار کی گئی
تھی ان میں آر یوجے کے صوبائی سیکرٹری عابد حسین مغل(روزنامہ جہان پاکستان
)، حافظ عتیق الرحمن(روزنامہ اسلام)، ملک ظفر اقبال(دنیا نیوز)، آصف نواز
خان(دنیا نیوز)، چوہدری محمد اشفاق(روزنامہ نوائے وقت)،محمد اشفاق
چوہدری(روزنامہ دنیا)، سہیل احمد مغل(روزنامہ سما)، کاشف وٹو(روزنامہ الشرق)،
جمشید چوہدری(92نیوز)، عرفان غوری(روزنامہ ایکسپریس)، چوہدری سجاد(روزنامہ
خبریں)، فہیم افضل(روزنامہ جہان پاکستان)، مرزا اسرار بیگ(روزنامہ صحافت)،
مظہر عباس(نیوز ون)، حافظ حبیب مغل(دن نیوز)، شفیق بھٹی(ڈیلی ٹائمز)، اسلم
لودھی(روزنامہ ابتک) سمیت درجنوں صحافیوں کے نام شامل کیے گئے تھے جو حق و
سچ کی آواز بلند کرتے ہیں ۔ یہ انکشافات میں ایک ہفتہ قبل ہی اپنے کالمز
میں کرچکا تھا کہ دو روز قبل پولیس نے اپنے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کا
باقاعدہ اعلان کردیا اورپھر وہی ہوا! نجی نیوز چینل کے صحافی حافظ حبیب مغل
کیخلاف دو سال پرانے وقوعہ کا مقدمہ درج کردیا ۔ ایسا مقدمہ جس کی پٹیشن
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے بعد لاہور ہائی کورٹ لاہور سے بھی خارج ہوچکی تھی
صرف انتقامی کاروائی کانشانہ بنانے کےلئے درج کردیا گیا۔ اگر دیکھا جائے تو
یہ مقدمہ درج کرکے ڈی پی او فیصل رانا نے نہ صرف صوبائی وزیر قانون بلکہ
حکومت کی کارکردگی کا پول بھی کھول دیا ہے۔ آج سے صرف دس دن قبل صوبائی
وزیر قانون نے صحافیوں کے احتجاج کے دوران مذاکرات کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا
کہ اگر آج کے بعد کسی صحافی کےخلاف مقدمہ درج ہوا یا کسی بھی طریقے سے
انتقامی کاروائی کانشانہ بنایا تو ڈی پی او اوکاڑہ رانا فیصل کے خلاف فوری
کاروائی کی جائے گی اور اسکا تبادلہ کردیا جائے گا ۔ لیکن کچھ حلقے تب بھی
اس بیان کو سیاسی قرار دے رہے تھے کیونکہ صوبائی وزیر قانون کیساتھ رانا
فیصل کی قریبی رشتہ داری ہے۔ لیکن اس بیان کے صرف دس دن بعد ہی یہ ثابت
ہوگیا کہ واقعی بیان سیاسی ہی تھا ۔ موصوف ڈی پی او فیصل رانا نے انجمن
مزار عین کی آڑ میں نہ صرف وکلاءاور صحافیوں بلکہ عام شہریوں کو بھی
انتقامی کاروائی کا نشانہ بنانا شروع کررکھا ہے ۔ انتہائی معتبر اطلاعات کے
مطابق حافظ عتیق الرحمن(روزنامہ اسلام) اور سہیل احمد مغل(روزنامہ سما) کے
خلاف سابقہ عداوت رکھنے والے افراد کو مقدمات درج کروانے کےلئے راضی کرلیا
گیا ہے اور آنے والے دنوں میں مذکورہ دونوں صحافیوں سمیت لسٹ میں موجود
دیگر کےخلاف بھی مقدمات درج کیے جائیں گے۔ ایک طرف ضلع اوکاڑہ میں ڈاکوﺅں ،
چوروں، بھتہ خوروں، منشیات فروشوں، جواریوں، قاتلوں اور جرائم پیشہ افراد
نے اودھم مچا رکھا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر درجنوں شہری لٹ رہے ہیں اور
دوسری طرف ڈی پی او فیصل اور پولیس اپنی تمام تر قوتیں صحافیوں کی زبان
بندی کےلئے انہیں انتقامی کاروائی کا نشانہ بنانے کےلئے استعمال کرتی
دکھائی دیتی ہے ۔ جبکہ جرائم پیشہ عناصر رات کی تاریکی میں لوگوں کو لوٹتے
ہیں اور دن کے اجالے میں پولیس کے حق میں ریلیاں نکال کر پولیس کی واہ ۔واہ!
کرتے ہیں اور پولیس کی فرضی کارکردگی کے بینرز آویزاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایک طرف اوکاڑہ پولیس کے ڈاکوﺅں کیساتھ تعلقات اور سرپرستی کے شواہد سامنے
آچکے ہیں تو دوسری جانب درجنوں بے گناہ شہریوں کو جعلی و فرضی پولیس
مقابلوں میں قتل کیا جاچکا ہے۔ ڈاکوﺅں کیساتھ بیٹھ کر پولیس کے لوگ دعوت
ولیمہ کھاتے نظر آتے ہیں اور بے گناہوں کو قتل کرکے اپنی کارکردگی ظاہر
کردیتے ہیں ۔ سبحان اللہ! کیسا نرالا قانون ہے میرے شہر کا ، کوئی پوچھنے
والا ہی نہیں ہے ۔ڈاکو گھروں میں گھس کر لوگوں کا مال لوٹنے کیساتھ ساتھ
عصمتیں بھی لوٹ لیتے ہیں لیکن ڈی پی او صحافیوں کی زبان بند کروانے کے
منصوبے بناتا رہتا ہے، لوگ قتل ہورہے، اغواءہورہے ہیں، بھتے وصول کیے جارہے
ہیں، منشیات کھل عام فروخت ہورہی ہے لیکن پولیس وکلاءکے خلاف مدعی ڈھونڈتی
نظر آتی ہے، شہر پولیس گردی اور لاقانونیت کی آخری حدوں سے بھی آخرپر پہنچ
چکا ہے، افسوس ہے کہ حکومت پنجاب اور خود کو خادم اعلیٰ پنجاب کہنے والے
والے میاں شہباز شریف کس گڈ گورننس کی باتیں کرتے ہیں پنجاب کے ایک ضلع کا
یہ حال ہے باقی ضلعوں کا کیا حال ہوگا خدا ہی جانتا ہے۔ شہر سکندر کے حالات
جس خطرناک موڑ پر ڈی پی او رانا فیصل نے پہنچا دئیے ہیں آنے والے دنوں میں
کسی بڑے سانحہ کا سبب بن سکتے ہیں اگر اب بھی اس دماغی مریض کا تبادلہ نہ
کیا گیا تو آنے والے دنوں میں کشیدگی اس قدر شدت اختیار کرسکتی ہے کہ یاتو
صحافیوں اور وکلاءمیں سے کوئی پولیس کے ہاتھوں قتل ہو گا یا پھر صحافیوں
اور وکلاءکے ہاتھوں کوئی پولیس آفیسر مرے گا۔ آنے والے دنوں میں فیصل رانا
کے دیگر کارناموں اور ضلع میں کی کرپشن کے حوالے سے سنسنی خیز انکشافات
تمام شواہد کیساتھ سامنے لاﺅں گا ۔ مجھے امید ہے اب تک توفیصل رانا نے میرے
خلاف بھی چار پانچ مقدمات درج کر دئیے ہوں گے۔ آخر میں حبیب جالب کے اس شعر
کےساتھ اجازت چاہتا ہوں۔
ظلمت کو ضیا، صر صر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گوہر، دیوار کو در، کرگس کو ہما کیا لکھنا |