’’ تمھارے پاس ڈھنگ کے کپڑ ے نہیں؟
۔‘‘
نماز ادا کرنے بعد مسجد کے باہر گھروں کو جانے والے کچھ لوگوں میں سے ایک
نو جوان کو ایک باریش ،سفید اجلے کپڑوں میں ملبوس ، سر پر ٹوپی پہنے اور
ہاتھ میں بزرگوں والی اسٹک پکڑے ایک بزرگ نے پوچھا۔
نوجوان نے فوراََ اپنے لباس کا جائزہ لیا کہ کپڑے تو میں نے پہنے ہوئے ہیں۔
اس نے نیلے رنگ کا ایک میلاسا ٹراوٗزر اس کے اوپر ایک شرٹ اور پاوٗں میں
چپل پہنی ہوئی تھی۔
بزرگو! کپڑے تو میں نے پہنے ہوئے ہیں اور پھر نماز ہی تو پڑھنی ہے ،کونسا
دفتر یا ڈیوٹی پر جانا ہے ۔نوجوان نے ایک ہی سانس میں یہ جملے بول دیے۔ بز
رگ نے اپنی کھنڈی ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں لے کر پہلو بدلا اور قریب سے
گزرتے ایک اور صاحب کو روکا ۔
بزرگوں نے نوجوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ! دیکھو نو جوان ! ان صاحب کو
دیکھو ! کیا خوش پوشی ہے ؟ کیا خوش لباس ہے ؟
مزہ آ گیا ۔ نو جوان کو یہ سب کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔اس نے جھنجلانے کے
انداز میں ماتھے پر تیوری چڑھا کر کہا، بزرگو! اچھّا خدا حافظ !
میں نے کہیں جانا ہے ،تیاری کرنی ہے ،نہانا بھی ہے، کپڑے بھی تبدیل کرنے
ہیں ۔۔۔۔۔
بزرگ نے شفقت سے نو جوان کا ہاتھ پکڑا اور بولے !
بیٹا۔ یہی بات تو تمھیں سمجھانا چاہتا ہوں ۔
بزرگ ، نو جوان اور تیسرے شخص کی گفتگو کے دوران وہاں پر مسجد سے جانے والے
کچھ اور لوگ بھی جمع ہو گئے۔
ان میں بھی اکثر نے اسی نو جوان سے ملتے جلتے کپڑے پہنے تھے۔
بزرگ بولے ! بیٹا ! ابھی تم نے کہا کہ میں نے کہیں جانا ہے ،تیاری کرنی ہے
کپڑے تبدیل کرنے ہیں ۔۔۔۔ کہا ہے ناں؟۔ بزرگ کی اس تکرار پر نو جوان کی
پیشانی پر تیوریوں کی تعداد ذیادہ ہونے لگی ۔اس نے کہا۔۔۔۔۔جی۔۔۔جی میں نے
کہا ہے۔نوجوان جلد از جلد وہاں سے جانا چاہتا تھا ۔مگر بزرگ اپنی بات مکمل
کرنا چاہتے تھے۔کہنے لگے تو پھر سنو! تُم دفتر جاتے ہو نا تو نہا کر ،اچھے
کپڑے پہن کر ، جوتا پالش کر کے، اچھّی سی خوشبو لگا کر جاتے ہو ۔کسی شادی
یا کسی فنگشن میں جاتے ہو تو بھی تیار ہو کر جاتے ہو ۔۔۔۔۔۔۔
لیکن بیٹا ! نماز میں تیار ہو کر کیوں نہیں آتے ؟ وہ اﷲ جو ہمیں سب کچھ
دیتا ہے ہم اس سے ملاقات کے لئے آتے ہیں تو میلے کچیلے کپڑوں میں ،بستر سے
نکل کر آجاتے ہیں۔
بیٹا ! نماز مومن کی معراج ہے اور تمھیں معلوم ہے معراج کیا ہے؟ اﷲ سے
ملاقات۔ بیٹا ! ہم دنیا کے کسی افسر سے ملنے جاتے ہیں تو بن ٹھن کر جاتے
ہیں پھر بھی بعض اوقات اس کا پی ۔اے صاحب سے ملاقات نہیں کرواتا ، دفتر کے
باہر انتظار کرنا پڑتا ہے اﷲ کے ہاں تو کوئی پی۔اے نہیں جو روک سکے۔اﷲ تو
ملاقات کے لئے دن میں پانچ بار ہمیں مسجد میں بلاتا ہے ،کوئی دروازے پر
روکتا نہیں چاہے ہم جس بھی حلیے میں آجائیں۔
لیکن بیٹا ! اگر اﷲ سے ملاقات کے لئے ہم ایک اجلا صاف ستھرا کپڑوں کا جوڑا
الگ کر لیں جو ہر نماز کے وقت پہن لیں تو اﷲ بہت خوش ہو گا کہ میرا بندہ
میری ملاقات کے لئے تیاری کر کے آتا ہے یہ ہمارا سب کچھ اسی کا دیا ہوا ہے۔
یہ گھر ، یہ گاڑی، یہ جسم ، یہ شکل کچھ بھی ہمارا نہیں ۔اﷲ ہمیں دیتا ہے تو
ہمیں شکر کرنا چاہیے۔
بیٹا ! جاوٗ تمھیں دیر ہو رہی ہے۔تم نے کہیں جانا ہے ۔تیاری کرنی ہے۔ بَس
آج کے بعد ہم سب جب نماز کے لیے آئیں تو صاف ستھرے ،اجلے کپڑوں میں ،اﷲ سے
ملاقات کی تیاری کے ساتھ آئیں ۔اﷲ کو بہت اچھا لگے گا۔ بزرگ کھڑے کھڑے تھک
گئے تھے مگر اس ساری گفتگو کے دوران نو جوان کی تیوریاں غائب ہو گئی تھیں۔
اس کی بیزاری ،خوشگواری میں بدل گئی تھی۔اس نے بزرگ سے معذ رت کی اور کہا ۔بابا
جی آپ کا حکم سر آنکھوں پہ ۔۔۔نماز کا جوڑا اب الگ ہی رہے گا ۔
اگر کسی دفتری مجبوری کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکتا تو اس ٹریک سوٹ میں
دوبارہ نماز پڑھنے نہیں آوٗں گا ۔
اﷲ تیرا بھلا کرے پترا جی خوش کر دیا تو نے ۔بزرگ اپنا خوش باش نورانی چہرہ
لئے وہاں سے چلے گئے اور وہاں موجود باقی لوگوں کو بھی یہ پیغام دے گئے کہ
اﷲ سے ملاقات کے لئے صاف ستھرے کپڑوں میں آیا کریں۔ |