جب زندگی میں تمام لوازمات پورے ہوتے ہیں تو ہم اُن
چیزوں سے نگاہ پھیرے رکھتے ہیں جو ہماری ضروریات، آرائش و تزئین کو سہارا
دئیے ہوتی ہیں۔ہم انہیں بس سرسری نظر سے دیکھتے ہیں۔ سامنے ہو کر بھی وہ پس
پشت رہتی ہیں۔
ویسے تو پاکستان کے طول و عریض کی اپنی خصوصیات ہیں لیکن لاہور میں رہنے
والوں پر زندہ دلان لاہور ، مغلیہ نوردارت کا ٹیگ ایسا لگاہے کہ لاہور سے
بڑھ کر اِدھر اُدھر دیکھنا بعد کی بات لگتی ہے۔جبکہ پاکستان کے کئی اور شہر
اپنے اندر ایک بڑی ثقافت سموئے ہوئے ہیں۔جب بھی کبھی بہاولپور کی طرف سفر
کیا جاتا تو لاہور سے نکل کر رائے، ونڈ، پتوکی، اوکاڑہ تک ہم خود کو لاہور
کے باسی ہی سمجھتے لیکن جیسے ہی ٹرین ملتان پہنچتی تو لاہور کے علاوہ کسی
اور شہر کی خوبی سامنےآتی۔ ملتان کا مشہورِ زمانہ۔۔ حافظ سوہن حلوہ ۔۔! سو
گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی سوہن حلوے کے کئی ڈبے ملتان کی یادگار بن کر زاد
ِراہ بن جاتے۔ اگر کسی رشتے دار کے لیے لاہوری تحفہ لینا بھول گئے ہوتے تو
یہ حافظ حلوہ بر وقت کام آتا۔آگے بڑھتے ہوئے جیسے ہی خانیوال، لودھراں
جنکشن آتے تو بغیر کنویں میں بانس ڈالے ریلوے سٹیشن پر ہی ان شہروں کی
ثقافت نظر آنے لگتی۔مٹی کے بنے خوش رنگ پھول، بیل بوٹوں سے مزین گلدان،
پھولوں کا آرٹ سجاوٹ کی پلیٹوں میں دکھتا،پھر ایش ٹرے اور مختلف اقسام
کےڈیکوریشن پیس،چائے گرم، سموسوں، پکوڑوںاور کھانے پینے کے سٹال کے علاوہ
کسی سٹال پر اس شہر کی یہ سوغات بھی سجی ہوئی بکاؤ ملتی۔ جو اہلِ ذوق فورا
خرید لیتے۔ واپسی پر یہ چیزیں بہت سے گھروںکی زینت بن جاتیں۔ ملنے والے
احباب علیحدہ انھیں دیکھ کر مرعوب ہوتے ۔ اہل خانہ خود اپنے گھر میں اتری
اس ثقافت پر اتراتے پھرتے۔دیکھنے والوں کو الگ انتظار رہتا کہ اگلے ٹور میں
کونسی نئی ثقافت دیکھنے کوملے گی۔
بہاولپور، پاکستان کا ایک اور بڑا خاص شہر، جو چولستان صحرا کے حوالے سے
خاص شہرت رکھتا ہے۔ پَر یہ اپنے اندر ایک بڑی ثقافت، تاریخ لیے ہوئے ہے۔
زندگی کے وہ رنگ وہاں نظر آتے جو اہل لاہور کی نظروں سے اوجھل تھے۔میری
ننھیال چونکہ وہاں تھی اس لیےلا ہور کے بعد بہاولپور کی بڑی اہمیت رہی۔ امی
جان جب بھی بہاولپور جاتیںتو وہاں کے سادہ مزاج، پُرخلو ص لوگ کسی نہ کسی
طور ضرور اپنی محبت کا اظہار کرتے۔ گاؤں کی سادہ طبیعت عورتیں انھیں اپنے
انداز کے مطابق تحفے دیتیں۔ جو قیمتی تو نہ ہوتے مگر ان سے چھلکتا خلوص ہم
سب کو نظر آتا۔جن میں اکثر کھجور کے پتوں سےبنے دستی پنکھے ہوتے یا مختلف
چنگیریں ہوتیں۔اچھی بات یہ رہی کہ میں نے اور بھائی نے کبھی ان تحفوں کو
نظر انداز نہیں کیاکہ یہ اہل لاہور یا خاندان کے دئیے گئے تحفوں سے کتنے
الگ ، مختلف اور سستے ہیں۔بلکہ میرے لیے تووہ رنگ برنگے دستی پنکھے بہت
دلچسپی کا باعث بنتے۔حالانکہ پنکھے بچارے اتنے کام بھی نہ آتے۔ کیونکہ تب
لوڈ شیڈنگ کا دور دور تک واسطہ نہ تھا۔حالانکہ ایک دور میں چھوٹے شہروں اور
گاؤں میں دستی پنکھے گھریلو ضرورتوں کا اہم حصہ سمجھے جاتے تھے۔الٹے بانس
بریلی کو،دورِ
جدید نےان کی اہمیت کو ایک بار پھر بڑھا دیا ہے۔آج بھی جب بجلی جانے سے اے
سی، کولر بند ہو جاتے ہیں تو لوگ انھی کی تلاش میں پائے جاتے ہیں۔حالانکہ
بجلی والے پنکھے کی ہوا کے سامنے ان دستی پنکھوں کا کوئی مقابلہ نہ تھا ۔
پھر اسے استعمال کرنے میں بھی مشقت محسوس ہوتی کہ کون انھیں جھلا جھلا کر
اپنا بازو تھکا لے۔بلکہ اکثردیکھنے میں آیا کہ اگر کوئی خاتون چارپائی
پرلیٹی پنکھے کو آہستہ آہستہ ہلا رہی ہے تو اونگھ آتے ہی وہ دستی پنکھا
دھپ سے اُسی کے او پر گر جاتا۔ جسے دیکھ کر میری ٹین ایج پھلجڑی چھوٹ جاتی۔
بس یہی اس کا سائیڈ افیکٹ تھا۔
میری ایک تحریر ۔۔ کیسے کیسے مہربان۔۔میں اس کا ذکر کچھ یوں ہوا ہے،
(گرمی کا موسم تھا۔ اماں بپو کو بجلی والے پنکھے کی فراٹے بھرتی ہوا بہت
بُری لگا کرتی تھی۔ اسی لیے وہ دستی پنکھے کی ہوا پسند کرتی تھیں۔سو اس وقت
بھی دستی پنکھا اس گھر کی خاتون کے ہاتھ میں تھا۔جسے وہ آہستہ آہستہ ہلا
کر اماں کو ہوا دے رہی تھیں اور پھر یہ ڈیوٹی عیادت کوجانے والی ایک عورت
نے خود ہی سنبھال لی تھی۔۔۔ ایک اقتباس )
مجھے یاد ہے جب بھی گھر میں مہمان آتے تو فورا برقی پنکھے کا بٹن مروڑ دیا
جاتا۔ یاپیڈسٹل فین مہمان کی حدود میں رکھ دیا جاتا۔ واقعی رواداری کا
زمانہ تھا۔ خود ہی سوچیے اگر اس کی جگہ فی مہمان دستی پنکھے تقسیم کر دئیے
جاتے۔ وہ خود ہی جھلاتے رہتے تو ۔۔!( کتنا مزہ آتا)
ہاتھ کے بنے اس پنکھے کو اردو میں دستی پنکھا کہا جاتا ہے ۔پنجابی میں
مہربان بلا تکلف اسے پکھی کہتے ہیں۔ سادہ دستی پنکھے کو بنانے کے لیے کھجور
کے پتوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ اسے خوبصورت پیرہن دینے کے لیے ریشمی
کپڑے کی جھالر اور موتیوں سے سجا یا جاتا ہے۔میں کبھی کبھی اسے بڑے غور سے
دیکھا کرتی تھی۔ اس کی بُنائی پر غور کرتی تھی۔ویسے تو یہ عموما گرمی کے
موسم بازار میں دستیاب ہوتے لیکن یہ پنکھے سادا سے ہوتے۔ لیکن جو پنکھے
بہاولپور سے تحفے کی صورت ملتے وہ اصل میںمجھے اپنی اور متوجہ کرتے۔۔ ان پر
بہت دل لگا کر محنت کی جاتی تھی۔ بنانے والی کا ذوق اس میں نظر آتا۔پنکھے
کے ہینڈل پر خوبصورت کپڑا چڑھا ہوتا۔ پھر پنکھے کی بنائی میں سویٹر کے
نمونوں کی طرح مختلف ڈیزائن نظر آتے۔ پنکھے کے تین اطراف کناروں پر جھالر
نما کپڑا لگا ہوتا۔ جس سے مجھے لگتا کہ اس میں سے آتی ہوا بھی جیسے جھوم
جھوم کر آ رہی ہے۔۔ پنکھے کے درمیانی حصے میں کہیں کہیں موتیوں کی لڑیاں
لگی ہوتیں جو اسے مزید دیدہ زیب بناتیں۔حقیقت یہ ہوتی کہ اتنے خوبصورت
پنکھے کو کام پہ لگانا اچھا نہ لگتا ۔ دل چاہتا کہ ڈرائنگ روم میں سجا
لیں۔تا کہ آنے والے مہمان بھی اسے دیکھ کر خوشگوار سا محسوس کریں۔ویسے اس
کے بعد ہمیں جاپان کی حسینہ کے ہاتھ میں بھی یہ پنکھا نما چیز نظر آئی۔جسے
ہم پنکھی کہنا زیادہ مناسب خیال کرتے ہیں جو اس حسینہ کی خوبصورتی کو
دوبالا کرتی تھی۔
اسی طرح چنگیر روٹی پیش کرنے یا رکھنے کے لیے ہاٹ پاٹ کا زمانہ آنے تک بہت
عرصہ گھر گھر استعمال ہوتی رہی۔جو دیہی علاقوں میں بنائ جاتی تھی ۔ ھندکو
میں اسے چھبڑی کہتے اور پنجابی میں چھابیاں۔۔یہ بھی کھجور کے پتوں یا گندم
کی خشک نالیوں سے بنتی ہے ۔مختلف رنگوں، دھاگوں کا استعمال اس کو چار چاند
لگا دیتا۔ ویسے تو هہر چیز بازار سے مل جاتی هہے لیکن اتنے خلوص، اتنی محنت
سےایسی چیز بنا کر تحفہ دی جائے تو دینے والے کے خلوص کا کوئی مول نہیں۔
کھجو ر کے پتوں سےبنی چنگیریںآج بھی نظر آتی ہیں ۔بہت سے علاقوں، خطوں
میں استعمال ہوتی ہیں۔آج بھی گاؤں کی عورتیں فارغ وقت میں دستی پنکھے،
چھابیاں بنا کر اس منفرد ثقافت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔گاؤں میں مجھےبڑی
بڑی چنگیریں نظر آتیںاور شہرمیں چھوٹی چھوٹی چھابیاں۔۔گو شہروں میں وہ
ضرورت کو پورا کرتی اشیاء کی طرح بازار میں عام ملتیں لیکن ان میں وہ بات
نہ تھی جو بہاولپور سے تحفے میں ملی چنگیروں میں لگتی۔ ان میں مختلف ڈیزائن
اور خوبصورت رنگوں کی آبیاری نظر آتی۔ آنکھیں انھیں سجا ہوا دیکھنا
چاہتیںاور ضرورت ان میں روٹیاں رکھوا دیتی۔
سو جب بھی امی جان بہاولپور جاتیں تو میں منتظر ہوتی کہ اب کی بار انھیں
کونسا اچھوتاتحفہ ملنے والا ہے۔۔؟
اکثر وہ تحفہ خوبصورت دوپٹے ، شال اور سوٹ کی صورت بھی ہوتا، جس پر ملتانی
کڑھائی یا چولستانی علاقوں کی خاص دھاگے کی کڑھائی کاکمال نظر آتا ۔ امی
جان کو بھی میرے اس لگاؤ کا علم تھا۔ جس پر وہ اور بھی شوق سے وہ تحفے
مجھے دکھایا کرتیں۔اپنے شوق کے ہاتھوں مجبورایک بار جرمنی آتے ہوئے ایک
چنگیر اور ایک دستی پنکھا میں بھی ساتھ لے آئی ۔ ہاٹ پاٹ کی بدولت چنگیر
استعمال نہیں ہوئی اور پنکھا جھلانے کا موسم ہی نہیں آیا۔ہم ٹھنڈی آہیں
بھرتے رہ گئے۔۔لیکن ان دونوں تحفوں کو دیکھ کر میرے دل میں کہیں نہ کہیں ان
ہاتھوں کی عظمت اور سادہ پر خلوص دلوں کی یاد ضرور بس گئی جنہوں نے یہ
شاہکار تخلیق کیے تھے۔
ملتان، بہاولپور کے علاوہ سرگودھا کی ثقافت بھی کافی مشہور ہے۔ جہاں لکڑی
کے انواع و اقسام کے ڈیکوریشن پیس توجہ کو مرکوز کرتے ہیں۔ایک بار سرگودھا
سے میری کزن آئی تو میرے لیے خاص دیدہ زیب لکڑی سے بنے ڈیکوریشن پیس لے کر
آئی۔ جو ہم نے جرمن ڈرائنگ روم کی زینت بنائے ۔ اپنے ایشیائی احباب تو
مرعوب ہوئے ہی ، جرمن بھی دل کھول کر داد دیتے رہے۔۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ
ہم جب بھی کسی پاکستانی ثقافت کو نمایاں کرتی چیزیںرکھیں، سجائیں،کوئی
کڑھائی کا خوبصورت لباس زیب تن کریں اور وہ جرمن لوگوں کو نظر آ جائے تو
ان کا پہلاسوال یہ ہوتا ہے ،
"کیا یہ آپ نے خود بنائی ہیں ؟"
اس سوال پر ہم بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔اور بہت سے کاموں میں طاق ہوتے ہوئے
بھی آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں۔اب انھیں کیا کہیں۔۔ کملیو، مٹھائی
کھانے کے لیے خود حلوائی بننے کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔!
ثقافت ،ضرورت کا ایک اور رنگ پیڑھا کی صورت گھروں، ولا، حویلیوں،ٹی وی
ڈراموں اور خاص طور پرجاگیرداروں اور وڈیروں کے ہاں نظر آئے گا۔پیڑھی
چوکور چھوٹی سی کھٹولی کو کہتے ہیں۔سمجھ لیں کہ پیڑھا اسی کی بڑی حالت ہے
۔۔ میری ایک دوست پاکستان گئی تو اسے آبنوسی لکڑی کے بنے منقش پیڑھے نظر
آئے۔ وہ فورا متاثر ہو گئی۔ اس سے رہا نہ گیا اور اس نے فورا خرید لیے۔ اب
انھیں جرمنی لانے کا مسئلہ تھا۔ انھیں کارگو کروا دیاگیا جس پر اچھا خاصا
خرچہ ہوا۔ انھیں پہنچنے میں اک مدت لگی۔ جس کا انتظار اس سے زیادہ
پیڑھےدیکھنے کے شائقین کو تھا۔ آخر کار ایک دن پیڑھے پہنچ گئے۔ لیکن ان
میں سے ایک پیڑھا سفری صعوبت برداشت نہ کر سکا۔ اس کی اولیں چولیں ڈھیلی پڑ
گئیں۔ جرمنی میں ہاتھ کا کام بہت مہنگا ہے۔ لیکن اپنی محنت اور شوق کو
ٹھکانے لگانے کے لیے انھیں یہ کڑوا گھونٹ بھرنا پڑا۔ اب وہ پیڑھا جرمن
ترکھان کی ویسے ہی سمجھ سے باہر تھا۔ لہذا اسے بتا بتا کر پیڑھا مرمت
کروایا گیا۔ نتیجہ کار پاکستان میں خریدا ہوا پیڑھا اتنا مہنگا نہیں تھا،
جتنا اب اس کی مرمت کی صورت یورو میں انھیںچپت پڑ چکی تھی۔ اب وہ پیڑھے
میری دوست کے جرمن ڈرائنگ روم کی خوب زینت بنے ہوئے ہیں۔ اپنے ایشیائی لوگ
انھیں دیکھتے ہی فورا کہہ اٹھتے ہیں،
" ارے واہ، بہت خوب یہ پیڑھے۔آپ پاکستان کی ثقافت کو یہاں لے آئے .:
جبکہ جرمن لوگوں کے لیے وہ نئی اور انوکھی چیز ہے۔ جسے دیکھ کر وہ اپنی
نظریں سیر کرتے ہیں۔ اور کم از کم ایک بار توضرور ان پر بیٹھنے کی کوشش
کرتے ہیں۔ جبکہ میری دوست کا کہنا ہے کہ اب ان پر لگی لاگت اتنی حاوی ہو
چکی ہے کہ وہ پیڑھوں کی جگہ پڑی نظر آتی ہے۔
قصہ کوتاہ، اپنی روایتی چیزیں تو جہاں بھی نظر آ جائیں تو ان سے اِک دلی
لگاؤ ہونے لگتا ہے۔پردیس میں نظر آئیں تو دیس کے رنگ نظر آنے لگتے ہیں۔
کینیڈا کے پہلے ٹور میں ہمیں جیرالڈسٹریٹ کے میلے میں ایک جگہ سڑک پر گولڈن
تاروں سے بنی چارپائی ، حقہ ،چاندی کے تاروں سے بنا پیڑھا نظر آیا
تھا۔جنہیں دیکھتے ہی ہم صدقے واری ہو گئے تھے۔اور میزبانوں کی فرمائش پر
چاندی کے پیڑھے پر بیٹھ کر گولڈ کے حقے کی نلی تھام کرچند فوٹو کھنچوا کر
ان کی نذرکرنا پڑے تھے۔
چنگیر، پنکھا اور پیڑھا ۔۔ سرسوں کے ساگ، مکھن کے بعدپنجاب کےروایتی شاہکار
ہیں۔ جو دیہی علاقوں کی ثقافت کی بھر پور نمائندگی کرتے ہیں۔ویسے سچی بات
تو یہ ہے کہ اگر ہمیں پتہ چل جائے کہ چاندپر چرخہ چلاتی بڑھیا کا چرخہ بھئی
کوئی نایاب شہکار ہے تو اسے دیکھنے کے لیے ہم چاند پر بھی جانے کو تیار ہیں
۔
۔۔ کائنات بشیر (جرمنی۔۔
|