یوم شہادت( 13مئی)کی مناسبت سے خصوصی تحریر
’’ اب احتجاجی بیانات جاری ہوں گے، تعزیت کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھ
جائے گا، تفتیشی ٹیمیں تشکیل دی جائیں گی، سرکاری کارندے مجرموں کے ساتھ
آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا اعلان کریں گے پھر چند دنوں یا چند ہفتوں بعد کسی
کو شاید یاد ہی نہ رہے کہ کوئی سانحہ بھی پیش آیا تھا۔ نہ مستقبل کے لیے
منصوبہ بندی ہوگی، نہ منتشر صفوں میں اجتماعیت کی کوئی سنجیدہ کوشش۔ سکوت
اور مصلحت کوشی کی ایک طویل چادر ہوگی جو عوام اور خواص سب کو ڈھانپ لے گی
تا آنکہ کسی دوسرے مفتی عتیق الرحمن کو نشانہ نہ بنالیا جائے۔ حیرت ظالموں
پر نہیں، تعجب تو مظلوموں اور مقتولوں کے ورثا پر ہے جو ظلم پر ظلم سہے
جاتے ہیں مگر دستِ گلچیں کو مروڑنے کے لیے منظم نہیں ہوتے۔ اگر مشام جاں کو
معطر کرنے والے پھول یکے بعد دیگرے یونہی مسلے جاتے رہے تو ایک وقت آ ئے گا
جب چمن پر خزاں کا تسلط اور ظلمتوں کا بسیرا ہوگا۔ جو قوم یا جماعت ظلم
سہنے کی عادی ہوجائے اسے مرگِ مفاجات سے کوئی نہیں بچا سکتا، قانونِ فطرت
میں انہی کی مدد کی جاتی ہے جو خود اپنے مددگار ثابت ہوتے ہیں‘‘۔
یہ وہ پردردکلمات ہیں،جومفسرقرآن حضرت مولانامحمداسلم شیخوپوری ؒنے داعی
قرآن حضرت مولانامفتی عتیق الرحمن ؒکی دردناک واندوہ ناک شہادت پراپنے کالم
میں تحریرفرمائے تھے۔افسوس وہ خود بھی دشمنان اسلام کی تیغ ستم
کاشکارہوکرہم سے جداہوچکے اوراپنی مساعی جمیلہ کااصل انعام پانے کے لیے
اپنے رب غیورکے حضورپہنچ چکے ہیں،یہ کلمات دل ودماغ اورقلب وجگرمیں ایک
طوفان برپاکیے ہوئے ہیں۔آپ بھی مفتی عتیق الرحمن کے نام کی جگہ
مولانامحمداسلم شیخوپوریکانام لگائیں اوران سطروں کوایک
بارپھرپڑھیں۔کیاقلندرکی ایک ایک بات سوفیصددرست نہیں ؟کیاہمیشہ سے یہی کچھ
نہیں ہوتاآیاہے؟تفتیشی ٹیموں کی تشکیل،قاتلوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے
حکومتی بیانات،رسمی وزبانی جمع خرچ ۔مجھے بتلایئے!کیااس کے علاوہ بھی اب تک
کچھ ہواہے؟مولاناحق نوازجھنگوی اورعلامہ احسان الہی ظہیرؒ کی شہادتوں سے
شروع ہونے والی خونی لہراب تک مشام جاں کومعطرکرنے والے کتنے پھول اب تک
مسلے جاچکے ہیں؟کتنے علما،حفاظ،قرائے کرام،شیوخ حدیث ،علم وعمل کے کتنے
پہاڑ،تقوی وﷲیت کے کتنے مجسم نمونے اب تک قاتلوں کی سفاکیت کانشانہ بن چکے
ہیں؟کیازمانہ ان میں سے کسی ایک کی بھی مثال پیش کرسکتاہے؟نہیں
اوریقینانہیں مگرقاتل کاہاتھ روکنے والا،اس کے ہتھیارکوتوڑنے والاآخرکوئی
بھی کیوں نہیں ٹھیک ہے یہ افرادکانہیں اداروں کاکام ہے،عوام کانہیں حکومت
کاکام ہے،عدلیہ ومقننہ اورپولیس کافریضہ ہیمگرمجھے ہرسواندھیرے کی
دبیزچادرکے سواکچھ نظرنہیں آتا۔کیوں اس قدرنے حسی ،بے بسی وبے کسی چھائی
ہوئی ہے؟قانون سے لیکرحکومت تک،پولیس سے لیکرارباب سیاست وسیادت تک،مریدین
سے لیکرعقیدت مندوں اورعقیدت کیشوں تکمیں جس طرف دیکھتاہوں،سکوت مرگ کا سا
منظر نظر آتا ہے۔ آخر کیوں؟؟
مولانامحمد صدیق جالندھری تو اپنی خدمات کا صلہ پانے رب قدیر کے حضور حاضر
ہوگئے۔لیکن اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کی رحلت سے ملک بھر کے دینی
حلقے ایک مشفق استاد، ایک مربی و شیخ اور پیکر علم و عمل ہستی سے محروم ہو
گئے۔، آپ نے زندگی بھر قال اﷲ وقال الرسول کی صدابلند کیا۔ سیکڑوں علما نے
ان سے حدیث پڑھی اور ہزاروں مسلمانوں نے ان کے مواعظ و بیانات سے استفادہ
کیا۔وہ ایک عالم دین ہی نہیں ، ایک شفیق استاذ اور امت مسلمہ کے لئے ہمدردی
اور محبت رکھنے والے عظیم انسان بھی تھے۔آپ کے انتقال سے پیدا ہونے والا
خلا صدیوں پر نہیں کیا جاسکے گا۔ آپ کے انتقال سے دین اسلام ایک مدبر اور
جید عالم دین جبکہ ہزاروں طلبہ ایک شفیق استاذ سے محروم ہوگئے۔آپ کی وفات
سے ملک وبیرون ملک کے اربوں مسلمان یتیم ہوگئے ۔ مولانا کی دینی و علمی اور
تدریسی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی اوران کا فیض صدیوں جاری و ساری رہے
گا۔ان شا اﷲ!
میراشہید سے ابتدائی تعارف یوں ہواکہ میں نے جامعہ بنوریہ عالمیہ میں عالم
کورس کے لیے داخلہ لیاتومیں اورایک دوسرے ساتھی مولانامحمد اسلم شیخوپوری
سے ملنے ان کے مکتبے میں گئے،وہ مکتبہ بھی تھا اور شہدومسواک سینٹر
بھی،مولاناعصر اورعشاکے بعد اس میں بیٹھاکرتے تھے ،ان کا حلیمی شہد یہیں
پیک ہوتاتھا،یہیں سے اس کی سیل پر چیزنگ ہوتی تھی،مسواکیں بھی یہیں تراشی
اور پیک کی جاتی تھیں،اس کام میں حضرت کا ہاتھ بٹانے والوں میں اکثر توبڑے
درجات کے طلبہ ہوتے تھے جوحضرت کے باقاعدہ شاگرد تھے اور کبھی یہ سعادت ہم
جیسے ابتدائی درجات کے طلبہ کو بھی میسر آجایاکرتی تھی۔ہم ان سے ملاقات کے
لیے مکتبے میں حاضر ہوئے،نام بتایاتوفرمانے لگے:ماشاء اﷲ! اچھا لکھتے
ہو،تمھاری تحریریں’’ جنگ‘‘ اخبار کے بچوں کے صفحات میں دیکھتارہتاہوں،اس سے
ہمار اڈھیروں خون بڑھ گیااور ہم نے جامعہ میں بھی تعلیم کے ساتھ ساتھ یہ
سلسلہ بھی جاری رکھا۔ان کی حوصلہ افزائی سے ہم نے الحمدﷲ!دینی رسائل وجرائد
اور جامعہ بنوریہ کے اپنے ماہ نامہ البنوریہ میں بھی لکھناشروع کیا۔ان کی
تحریروں کی پروف ریڈنگ کے ذریعے پروف ریڈ نگ کی دنیا میں قدم رکھا۔وہ جامعہ
اشرفیہ سکھر کاماہ نامہ’’الاشرف‘‘یہیں سے تیار کرتے تھے،اس کی بھی پروف ریڈ
نگ کی،پھرانھوں نے مولانامحمد ابراہیم صادق آبادی کے توجہ دلانے پر قرآنی
نسخوں میں اغلاط کی نشان دہی پر کام شروع کیاتواس میں بھی ان کے تفویض کردہ
کام کیے،حافظ قرآن نہ ہونے کے باوجود ان کے اعتماد پر پورااترنے کی کوشش
کی،اسی طرح قرآن نمبر کی تمام اشاعتوں میں یہ سعادت حاصل رہی۔ایک طالب علم
کے لیے یہ بہت بڑے اعزازکی بات تھی کہ وقت کی ایک عظیم ہستی اس کو کوئی کام
دے رہی ہے،سودل وجان سے ان کے اعتمادپر پورااترنے کی اپنی سی کوشش رہی۔
مجھے مولاناشہید سے باقاعدہ شرف تلمذ توحاصل نہ ہوسکا،البتہ ان کی راہ
نمائی میرے اب بھی کام آرہی ہے،ان کی ترغیب وتشویق ہی نے جامعہ آنے کے بعد
بھی تحریری دنیا سے رشتہ استوار کیے رکھنے پر ابھارا،ورنہ یہ ایک نئی دنیا
تھی اور اگر بروقت راہ نمائی نہ ہوتی تو شاید میں اس میدان کو خیرباد ہی کہ
دیتا،جس طرح کہ ایک غلط فہمی کی وجہ سے کہانیاں لکھنا چھوڑدیں کہ ان میں
جھوٹ ہوتاہے،جب آنکھیں کھلیں توکافی دیر ہوچکی تھی ،پھر کوشش کے بعد بھی
اپنے اندر موجود کہانی کار کونہ جگاسکا،حالاں کہ میٹرک تک جنگ اخبار میں
میری شایع شدہ کہانیوں کی تعدادکاجوریکارٖڈ میں محفوظ کرسکاتھا وہ بھی سو
سے متجاوز کہانیوں پر مشتمل تھا۔بہر حال،حضرت سے باقاعدہ شاگردی کا تعلق نہ
ہونے کے باوجود الحمدﷲ!کافی استفادہ کیااور مجھے اس حقیقت کے اعتراف میں
کوئی باک نہیں کہ ان کا میری کردار سازی میں کردار ہے۔
یادوں کے دریچے اگر وا کرنے بیٹھوں توبات کافی لمبی ہوجائے گی،جس کایہ
مختصر مضمون بھی متحمل نہیں اور اس کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں،لہٰذاآمدم
بر سر مطلب۔۔
مولانامحمداسلم شیخوپوری ؒکا آبائی تعلق پنجاب کے شہر ضلع شیخوپورہ کے گاؤں
لدھڑکے محمد حسین کے زمیندار گھرانے سے تھا،وہ پیدائشی تومعذور نہیں تھے
تاہم دو تین سال ہی کی عمر میں دونوں ٹانگوں سے معذور ہوگئے تھے جب ان پر
فالج کا حملہ ہواتھا ،علاج معالجے کی کوشش کے باوجود جسمانی طورپر معذوری
دور نہ ہوسکی۔ ابتدائی عصری تعلیم اپنے ہی گاؤں کے قریبی اسکول میں حاصل کی
، اورنو سال کی عمر میں چوتھی جماعت میں عصری تعلیم کو ترک کرتے ہوئے قرآ ن
پاک حفظ کرنا شروع کیا صرف گیارہ ماہ کی مختصر مدت میں یہ سعادت حاصل ہوئی
، ابتدائی دینی تعلیم اپنے علاقے اور جامعہ نصرت العلوم گجرانوالہ میں حاصل
کی ،تاہم مختصر عرصے کے بعد اعلی دینی تعلیم کے لیے جامعۃ العلوم الاسلامیہ
علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کا رخ کیا اورپھر اپنی باقی تعلیم یہیں سے مکمل کی
، ان کے اہم اساتذہ میں شیخ الحدیث حضرت مولانا سیدمحمد یوسف بنوری
،مولانامحمد یوسف لدھیانوی شہید، مولانا مفتی احمد الرحمان ،مفتی ولی حسن
خان ٹونکی،مولاناڈاکٹر حبیب اﷲ مختارشہید رحمھم اﷲ اوردیگر جید علما شامل
ہیں۔
تعلیم سے فراغت کے بعد ایک مرتبہ پھر اپنے گاؤں کا رخ کیا لیکن کچھ ہی عرصے
بعد واپس کراچی آئے ،اورتقریبا پچیس سال تک جامعہ بنوریہ العالمیہ سائٹ
ٹاؤن میں بطور مدرس خدمات انجام دیں، اس دوران درس قرآن کا اہتمام بھی
رکھا، قرآن کریم کے درس کا ذوق انھوں نے اپنے دو بزرگ اساتذہ حضرت مولانا
محمد سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی ؒسے پایا اور
وہ اس کا مختلف مواقع پر تذکرہ بھی کرتے تھے۔مولانا محمداسلم شیخوپوری ؒنے
قرآن پاک کے ساڑھے سترہ پاروں پر مشتمل ’’تسہیل البیان‘‘ کے نام سے تفسیر
بھی لکھی جس کی چارجلدیں شائع ہوچکی ہیں۔ انھوں نے متعدد کتابیں بھی تصنیف
کیں ،ان کی دوکتابیں ’’ندائے منبر ومحراب‘‘ اور’’پچاس تقریریں‘‘ علما
بالخصوص خطبا اورطلبا میں نہایت مقبول ہیں، ۔ ایک محدود اندازے کے مطابق
مولانا محمد اسلم شیخویوری ؒکے مختلف موضوعات پر دروس قرآن وحدیث ،کی
مجموعی تعداد دوہزار سے زائد بتائی جاتی ہے جن میں سے اکثر ریکارڈنگ
اورتحریر کی شکل میں موجود ہیں۔
آپ کااندازخطابت نہایت نرالااوردل نشین تھا،آپ کی زبان سے نکلنے والے الفاظ
لوگوں کے دلوں پراس قدراثراندازہوتے تھے کہ لاکھوں کامجمع آپ کی ایک
آوازپردینِ اسلام اورتحفظ ِختم نبوت کیلئے جان کی بازی لگانے تک کے لیے
تیارہوجاتاتھا۔جس کی ایک واضح مثال غازی علم دین نا می گاڑی بان کاراج پال
جیسے بااثرگستاخ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کوواصل ِجہنم کرنابھی ہے۔ان کی
خطابت پربلامبالغہ''ازدل خیزدبردل ریزد''کامصداق ِاتم تھی ااوریہ شعران کی
خطابت پرمکمل صادق آتاتھا
دیکھناتقریرکی لذت،کہ جواس نے کہا
میں نے یہ سمجھاکہ گویایہ بھی میرے دل میں تھا
مولاناشہیدؒ کاایک حوالہ ان کی روحانی عظیم نسبت بھی تھی،وہ ایک سچے عاشق
ِرسول صلی اﷲ علیہ وسلم اورایک عالمِ ربانی توتھے ہی،ساتھ ہی وہ ایک عارفِ
ربانی بھی تھے،آپ حصول ِعلوم ِظاہری سے فارغ ہونے کے بعدتزکیہ باطن کی طرف
متوجہ ہوئے،چناں چہ وقت کے ابن حجر شیخ الاسلام ولی کامل حضرت مولانا مفتی
محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم العالیہ کی خدمت اقدس میں تصوف وسلوک کی
منازل طے کیں ۔ان کی طرز پر مسلم شریف کی شرح بھی تالیف کی اور ان کے
مشوروں کی روشنی میں تاحیات عملی زندگی گزاری اور جنازہ بھی اپنے شیخ سے
پڑھوانے کی وصیت کی،جو پوری بھی ہوئی۔
مولانا شہیدؒکو تحریر وتقریر اوردرس وتدریس میں یکساں اورقابل تحسین مہارت
حاصل تھی ،یہی وجہ ہے کہ انتہائی مختصرعرصے میں وہ ان تمام شعبوں میں
انتہائی مقبول ہوئے وہ گذشتہ دس سال سے ہفت روزہ ’’ضرب مومن ‘‘کے لیے’’
پکار ‘‘کے نام سے مستقل کالم بھی لکھتے رہے ہیں،جو بعد ازاں کتابی شکل میں
شائع ہوئے اورانتہائی مقبول ہوئے۔مولانا شہید ؒ نے اپنی باقی ماندہ زندگی
خدمت قرآن کے لیے وقف کر دی تھی ،اس سلسلے میں ان کی فکر کی ترجمانی کرتے
ہوئے مولانا زاہد الراشدی نے درست فرمایا:’’مولانا محمد اسلم شیخوپوری
شہیدؒ آج کے دو رمیں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی اس
تعلیمی وفکری جدوجہد کا اہم کردار تھے جو حضرت شیخ الہندؒ نے مالٹا کی قید
سے رہائی کے بعد ہندوستان واپس پہنچنے پر شروع کی تھی کہ مسلمانوں میں
اجتماعیت کے فروغ کی محنت کی جائے اور قرآنی تعلیمات عام مسلمانوں تک
پہنچانے کی جدوجہد کی جائے۔ مولانا شیخوپوری ؒنے قرآن کریم کے درس کے لیے
جو اسلوب اختیار کیا، وہ آج کے نوجوان علما کرام کے لیے مشعل راہ کی حیثیت
رکھتا ہے‘‘۔
حضرت مولانامحمداسلم شیخوپوریؒ ایک مسلمہ حیثیت رکھنے والے جیدعالم دین
تھے،جوسیاسی وجماعتی وابستگیاں توایک طرف ۔۔۔مسلکی اختلافات کے بھی علمی
حدودسے آگے لے جائے جانے کے خلاف اورہرقسم کے تفرقے کوسمِّ قاتل تصورکرتے
تھے۔وہ صرف قرآن کے داعی تھے اوران کی دعوت وہی تھی جوقرآن کی دعوت ہے
یعنی:تحاد،اتحاداورصرف اتحاد۔وہ اہل حق کے باہمی اختلاف کوحصول منزل کی راہ
کاکانٹاسمجھتے اورنجی محفلوں میں اس حوالے سے اپنی مخلصانہ تشویش
کااظہارکرتے رہتے تھے۔وہ صرف حق کے ساتھی تھے اورتمام اہم حق کواپناسمجھتے
تھے۔راقم کوان کی صحبت ایک عرصے تک حاصل رہی مگرانہیں ہمیشہ حق
کاپرستاراوربے لوث وبے خوف پایا۔اﷲ تعالی ان کی شہادت کواپنی بارگاہ میں
قبول ومقبول فرماکردعوت قرآنی کے پرچارکاذریعہ بنائے۔آمین!!
اﷲ تعالی ان کی خدمات کواپنی بارگاہ میں شرف قبول عطافرماتے ہوئے ان کافیض
تاقیام قیامت برقراررکھے اوراہل سنت کوان کامطالعہ کرکے اہل رفض وباطل کی
دسیسہ کاریوں کامنہ توڑجواب دینے اورناواقف ونادان عوام کالانعام کے ایمان
کی رفض وباطل کی کالی بھیڑوں اورزہریلی سنڈیوں سے حفاظت کرنے کی توفیق
عطافرمائے۔
ان کاقاتل کون ہوسکتاہے؟افراد،شخصیات،اندارونی یابیرونی سازش کاراس سے قطع
نظریہ بات طے ہے کہ ان کوشہیدکرنے والاکوئی مسلمان نہیں ہوسکتا،زمانے کے
انحطاط سے انکارنہیں،تاہم ایسی حرکت کوئی مسلمان نہیں کرسکتااورجوکوئی ایسی
حرکت کرے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔قاتل اوراس کے سرپرست خوش نہ ہوں،کہ ہم نے
ایک راہ کاروڑاہٹادیاہے،لہذاااس پاک دھرتی کی پشت پروہ اپنے بیرونی آقاں کے
مغربی تہذیب کورایج کرنے کے منصوبے پرآزادی سے عمل پیراہوسکیں گے،نہیں
اورہرگزنہیں ،کہ اہل حق کی تاریخ ہی قربانیوں سے عبارت ہے،شہیدکاخون ہی
توہے جس سے اس دین کی آبیاری ہوئی ہے ۔تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے
اوربوڑھاآسمان بھی اس حقیقت پرشاہدعدل،کہ شہیداپنی جان تودے دیتاہے،مگراس
کی قربانی سے اس کے مشن وموقف میں کم زوری واضمحلال نہیں آیاکرتا،بل کہ
جوشہیدہوتاہے وہ بیج بن کرابھرتاہے،بیج بہ ظاہرزمین میں غایب ہوجاتاہے
،مگرگل گلزاربن کرنکلتاہے۔ایک بیج سے پھلوں، پھولوں، کلیوں اوربیل بوٹوں
کاایک سلسلہ شروع ہوجاتاہے ،جوایک کیاری،ایک باغ ،ایک گلشن کی شکل
اختیارکرجاتاہے۔
کون پوچھے گاسفاک قاتلوں اوران کے پشتی بانوں سے ،آخرمولانامحمداسلم
شیخوپوری ؒکاجرم کیاتھا،جوتم نے ان کے معصوم خون سے اپنے ہاتھ رنگین
اوراپنانامہ اعمال سیاہ کردیا؟وہ شخص،جس نے خودکوصرف اورصرف قرآن مجیدکی
عالمگیردعوت اتحادوامن کے پرچارکے لیے وقف کردیاتھا،سفرہویاحضر،وعظ وبیان
ہویامضمون وکالم،درس وتدریس ہویاعوامی اجتماعات سے خطاب اس کی ایک ہی دعوت
تھی :بتان رنگ وخوں کوتوڑکرملت میں گم ہوجانہ تورانی رہے باقی ،نہ ایرانی
نہ افغانی۔
جوملک اسلام کے نام پرحاصل کیاگیا،کیااس ملک میں اتحادبین المسلمین
کاپرچارقابل گردن زدنی جرم ہے؟کیاقرآن مجیدکاحیات افزاپیغام انسانیت تک
پہنچانے کے لیے اپنی صلاحیتیں بروئے کارلانا اورخودکواس مقصدرفیعہ کے لیے
وقف کردینے کی سزایہی ہے کہ اسے خاک وخون میں تڑپادیاجائے؟آخرکوئی
توہوجوقاتل سے پوچھنے کاجگراوراسے کیفرکردارتک پہنچانے کاجگررکھتاہو!!
مولانامحمد اسلم شیخوپوری ؒ کی شہادت کے حقائق اب تک سامنے نہیں لائے
جاسکے،حالاں کہ اس وقت وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے کہا تھاکہ ان کے قتل کی
تحقیقات میں خود کراؤں گا۔جانے سائیں وہ تحقیقات کب کرائیں گے اور ان کے
نتائج کب نکلیں گے؟اس ایک ماہ میں تین معروف علمائے کرام مولانا نصیب خان،
مولانا سید محمد محسن شاہ اور مولانا محمد اسلم شیخوپوری ؒ شہید کیے گئے
تھے،جس کے حوالے سے تجزیاتی اداروں کایہی کہنا تھاکہ ان حضرات کوفرقہ واریت
ولسانیت کامشترکہ ملغوبہ ہم سے جد اکرگیاہے ۔اﷲ کرے سانحہ صفوراکی طرح اس
گتھی کو بھی ہمارے ادارے سلجھاسکیں کہ علمائے کرام کے خون ناحق سے کس بدبخت
نے اپنے ہاتھ رنگین کیے اور اپنابخت سیاہ کیا؟ملک بھر میں علمائے کرام کی
شہادتیں ایک طرف،ایک شہر کراچی ہی کولیجیے تویہاں مولانا ڈاکٹر محمد حبیب
اﷲ مختار و مفتی عبدالسمیع رحمہما اﷲ کی شہادت سے شروع ہونے والا سفاکانہ
سلسلہ علمائے کرام کی دور اندیشی، امن پسندی، اداروں اور حکومت سے بے لوث
تعاون کے باوجودنہ تھم سکااورالٹا علما اور مذہبی طبقے کو اس امن پسندی
کاصلہ لاشوں، زخمیوں اور الزام تراشیوں ہی کی صورت میں ملا۔ ایسے ایسے
علمائے کرام، جن کی ذات اتحاد کا سمبل، جن کی مساعی کا مرکز و محور اتحاد
بین المسلمین تھا، جو ہر قسم کی مسلکی، جماعتی، عسکری سرگرمیوں کو اپنے ہی
نہیں اپنے حلقہ اثرکے لیے بھی شجرِممنوعہ سمجھتے رہے، جن کی زندگی کاایک
ایک لمحہ مسلمان کوحقیقی معنوں میں مسلمان اوراہل وطن کو سچا پاکستانی
بنانے کے لیے وقف رہا، جو رب کاقرآن سکھاتے اوراسلام کے اس مضبوط حلقے کو،
جو نہ کبھی ٹوٹنے والاہے اورنہ ہی چھوٹنے والا تھامنے کی دعوت دیتے رہے، جو
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر، ہر قسم کی مسلکی و سیاسی، لسانی و علاقائی
نسبتوں کوتج کر ملت میں گم ہونے کا درس دیتے رہے، انھیں دن دھاڑے بھری پری
سڑکوں پر اس بے دردی سے نشانہ بنایا گیا کہ انسانیت منہ چھپانے پر مجبور
ہوگئی، اس روح فرساظلم در ظلم کے بعدبھی دینی طبقے نے اشتعال انگیزی اور
قانون کو ہاتھ میں لینے سے گریز کیا، مگر ملا پھر بھی کچھ نہیں۔ قابل گردن
زدنی انہی کو ٹھہرایا گیا، حوالات میں انہی کو ڈالا گیا، سرزنش انہی سے کی
گئی کہ تمہارا یہ جرم ہے کہ تم روئے کیوں؟
عدالت نے شہیداسلام مولانامحمدیوسف لدھیانوی، امام المجاہدین ڈاکٹر مفتی
نظام الدین شامزئی، شہید ختم نبوت مفتی محمد جمیل خان، شہید ناموسِ رسالت
مولانا سعید احمد جلالپوری، شہید مظلوم مفتی عبد المجید دینپوری، داعی قرآن
مولانا مفتی عتیق الرحمن، مفسر قرآن مولانا محمد اسلم شیخوپوری، مولانا
محمد امین اور مفتی عبد الصمد سومرو سمیت متعدد علمائے کرام کے قاتلوں کو،
جب وہ تختہ دار سے چند قدم کے فاصلے پر رہ گئے تھے بری کردیا۔ کراچی کے
تقریبا ًتمام ہی قابل ذکر دینی مدارس کی گاڑیوں پر حملے ہوئے، جن کے مجرم
اوران کے پشت پناہوں کو تاہنوز آئین کا آہنی شکنجے میں کسنے کی کوئی
مؤثرکوشش نہ کی جاسکی۔
ہم بڑی ذمے داری سے آج یہ بات لکھ رہے ہیں کہ فرقہ واریت مذہبی ومسلکی
نہیں، سیاسی مسئلہ ہے۔ کیا پاک فوج جو بلاشبہ آج اس ملک کے عوام اور
بالخصوص شہر قائد کے عوام کے لیے مسیحا اور ابرِرحمت بن چکی ہے، وہ اس
مسئلے کے اس پہلو پر غور کرے گی؟ فرقہ واریت کی روک تھام کے لیے نیشنل
ایکشن پلان سر آنکھوں پر، لاؤڈ اسپیکر ایکٹ کی پابندی قابل تحسین، ایک
دوسرے کی تکفیرپر قدغن بہت خوب، مگر ان سیاست دانوں کی بیٹھکوں، اوطاقوں
اورفارم ہاؤسز تک رسائی کب ہوگی، جہاں فرقہ واریت کوہوادینے کے منصوبے
ترتیب دیے جاتے، انھیں روبہ عمل لانے کے مشورے اور اسکرپٹ کے مطابق کردار
ادا کرنے کے لیے فنکار تلاش کیے جاتے ہیں۔ اصل یہ فنکار نہیں، ان کے اسکرپٹ
رائٹر اور اسپانسرز ہیں، ان کی بیخ کنی کے بغیر ماضی کی طرح اب بھی ہر
اقدام بے اثر و بے ثمرہی رہے گا۔ کیااصحابِ اختیار اس جانب بھی توجہ دیں
گے؟پہلے بیرونی مداخلت کی بات کی جاتی تو اسے مسلکی منافرت قراردے کر رد
کردیاجاتاتھا،اب تو غلام رضانقوی کی ایران میں موت،عزیربلوچ اور کل بھوشن
یادیوکے ایران ہندوستان گٹھ جوڑ کے حوالے سے انکشافات کے بعدسب عیاں
ہوچکاہے،کاش کہ اہل اختیار کوئی عملی قدم اٹھائیں،کوئی نیا سانحہ جنم لینے
سے پہلے،کسی اور ہیرے کے ظالموں کی سفاکیت کی نذر ہونے سے پہلے۔یہ ضروری
ہے،مگر کب؟قوم منتظر ہے۔ |