فضائی جیب کترا:سب سے پہلے پاکستان

خبر کچھ اس طرح ہے کہ دبئی سے کراچی آنے والی ایک پرواز سے جیب کترا، ایک مسافر کی جیب کاٹتے ہوئے گرفتار ہوا ہے۔ اور اس کا تعلق کراچی پاکستان سے ہے۔لو جی جناب عالی یہ “عزت افزائی “ “ نیک نامی “ اور عالمی ریکارڈ “ سب سے پہلے پاکستان “ کے حصے میں آیا ہے کہ وہاں کے لوگوں نے فضائی جیب تراشی کی ابتدا کی اور اب جب بھی جیب تراشی کی تاریخ لکھی جائے تو اس میں سنہری لفظوں میں پاکستان کا نام لکھا جائے گا کہ اس ملک کے “ کاریگر اور ذہین “ لوگوں نے دنیا میں سب سے پہلے فضائی جیب تراشی کی۔ کیا خوب نام روشن کیا ہے جناب ان لوگوں نے وطن عزیز کا۔ ویسے یہ خبر سن کر ہمیں ایک بہت پرانا اور گھسا پٹا لطیفہ یاد آگیا ہے جو کہ ہم آپ سے شئیر کرلیتے ہیں کہ “ ایک ہوائی جہاز جو کہ دنیا کے گرد چکر لگا رہا تھا اس میں ایک پاکستانی، ایک چینی اور ایک فرانسیسی سفر کر رہے تھے، دوران سفر اچانک فرانسیسی چلانے لگا کہ فرانس آگیا اور پیرس آگیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ تمہیں کیسے پتہ چلا تو اس نے جواب دیا کہ جب میں نے کھڑکی سے جھانکا تو مجھے ایفل ٹاور نظر آیا اور میں سمجھ گیا کہ ہم پیرس کے اوپر پرواز کر رہے ہیں۔ کافی دیر بعد اچانک چینی باشندہ چلا اٹھا کہ لوگوں چین آگیا چین آگیا لوگوں نے پوچھا کہ تمہیں کیسے پتہ چلا تو اس نے جواب دیا کہ مجھے کھڑکی سے دیوار چین نظر آرہی تھی اس لئے میں سمجھ گیا کہ چین آگیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد پاکستانی مسافر نے اپنا ہاتھ باہر نکالا اور غصے سے چلایا کہ پاکستان آگیا پاکستان آگیا دیگر مسافروں نے پوچھا کہ تمہیں کیسے پتہ چلا کیا تم نے مینار پاکستان دیکھا؟ پاکستانی نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ جب میں نے اپنا ہاتھ کھڑکی سے باہر نکالا تو کسی نے میرے ہاتھ سے گھڑی چرا لی “۔

ہمیں کیا پتہ تھا کہ یہ لطیفہ ایک حقیقت بن جائے گا اور اب پاکستانی لوگ فضائی جیب کترے بھی بن جائیں گے۔ ویسے اس واردات کے بعد ذرا تصور کریں کہ کیا منظر ہوگا جب آپ کسی جہاز میں سفر کریں گے اور جہاز میں سوار ہونگے تو جہاز کی دیواروں پر اس قسم کی عبارت درج ہونگی “ اپنے سامان کی حفاظت خود کریں “ “ جیب کتروں سے ہوشیار رہیں “ وغیرہ وغیرہ۔ ویسے اس واردات سے ہمارے ایک خیال کی تصدیق ہوگئی۔ جب ہم اخبارات میں کسی واردات کی خبر پڑھتے تھے یا کسی گرفتار مجرم کی گفتگو پڑھتے تھے جس میں وہ غربت کو اپنے مجرم بننے کی وجہ قرار دیتا تھا تو دوستوں سے ہماری بحث ہوتی تھی کہ محض غربت کے باعث ایسا نہیں ہوسکتا کیوں کہ اگر کوئی فرد صرف غربت کی وجہ سے چوری کرے گا تو وہ ایک ہی بار کوئی بڑی واردات کرے گا اور اگر اس نے واقعی مجبوری میں چوری کی ہوگی تو اس واردات کے بعد وہ توبہ کر لے گا لیکن ہم دیکھتے ہیں عادی مجرم بھی اپنے جرم کا جواز غربت کو قرار دیتے ہیں تو یہ غلط ہے۔ اب ہمارے خیال کی تصدیق اس طرح ہوتی ہے کہ یہ جیب کترا جہاز میں سوار تھا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کوئی مجبور یا غریب شخص نہیں ہے بلکہ اچھا خاصا کمانے والا فرد ہے جب ہی تو جہاز میں سفر کر رہا تھا بالفرض کہ وہ بذات خود اتنا امیر نہ ہو بلکہ کسی ادارے کا ملازم ہو اور ادارے کی جانب سے وہ سفر کر رہا ہو تو بھی اس کی اس حرکت کا جواز نہیں بنتا کیوں کہ اس کا مطلب کہ وہ برسر روزگار ہے اور اچھا کمانے والا فرد ہے۔ مقصد یہ ہے کہ یہ اس فرد نے غربت یا مجبوری کے باعث یہ حرکت نہیں کی ہے۔

بات دراصل یہ ہے کہ ایک چینی کہاوت ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑنا شروع ہوتی ہے جب ہمارے حکمران، ہمارے وزراء ہمارے ارکان اسمبلی ہی کرپٹ اور فراڈی ہوں تو عوام کو اس بات کا حوصلہ ملتا ہے کہ ہم بھی کچھ کر گزریں۔ جہاں رکن اسمبلی سونے کا سیٹ چرانے کی کوشش کریں تو کیا ایک رکن اسمبلی غربت کی وجہ سے چوری کر رہی تھیں جی نہیں بلکہ عادتاً اور فطرتاً پیسے کی ہوس کی وجہ سے، غور کریں کہ بینکوں سے قرضے لیکر ہڑپ کرنے والے، قبضہ مافیا، بھتہ خور، فراڈ اسکیموں کے ذریعے لوگوں کی کمائیاں ہڑپ کرنے والے، چینی اور آٹے کی مصنوعی قلت پیدا کر کے عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالنے والے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے ذریعے کمیشن کھانے والے، جعلی ڈگری پر اسمبلی میں پہنچنے والے اور خزانے کو نقصان پہنچانے والے، سرکاری سودوں میں اربوں اور کروڑوں روہے کا کمیشن بنانے والے، اربوں روپے کا ٹیکس چوری کرنے والے کیا یہ سب لوگ غریب ہیں یا یہ لوگ مجبور ہیں، جی نہیں یہ سب لوگ غریب نہیں ہیں بلکہ لاکھوں روپے ماہانہ کمانے اور خرچ کرنے والے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جو کہ پیسے کی ہوس کے باعث یہ سب کام کرتے ہیں اور ان کے پیٹ کا دوزخ ہے کہ بھرتا ہی نہیں وہ ہل من مزید کی صدا لگاتا رہتا ہے۔

رہ گیا بےچارہ غریب تو وہ اگر کسی بینک سے پچاس ساٹھ ہزار روپیہ قرض لے یا کوئی رکشہ وغیرہ قسطوں پر بینک سے لیتا ہے اور اس کی قسط ادا نہ کرسکے تو بینک اپنے “ غنڈے اہلکاروں “ کو اس کے پاس بھیجتے ہیں ( ان غنڈوں اور بدمعاشوں کو “ ریکوری آفیسر “ کا رعب دار نام دیا جاتا ہے ) یہ غنڈے اور بدتمیز لوگ اس غریب کو اتنا ذلیل کرتے ہیں کہ وہ بےچارہ خودکشی پر مجبور ہوجاتا ہے۔ جب کہ یہی بینک کروڑ پتی لوگوں کو مزید کروڑوں روپے کے قرضے دیتے ہیں اور پھر یہ قرضے معاف بھی کرا لئے جاتے ہیں۔ غریب تو بے چارہ اپنے عزت نفس اور سفید پوشی کے باعث یا تو کسی دور دارز علاقے میں جہاں کوئی پہچاننے والا نہ ہو وہاں ہاتھ پھیلاتا ہے یا پھر غیرت اور خودداری کے باعث موت کو گلے لگاتا ہے لیکن چوری غنڈہ گردی پھر بھی نہیں کرتا۔ (گزشتہ دنوں لاہور میں اجتماعی خودکشی کا واقعہ اس بات کا بین ثبوت ہے)۔

بات دراصل یہ ہے کہ جب تک معاشرہ میں انصاف نہ ہوگا۔ مجرموں کو سزائیں نہ ملیں گی اس وقت تک یہ کام ہوتے رہیں گے۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1505344 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More