شعب ابی طالب سے غزہ تک ۔ ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر نصیر احمد ناصر اپنی کتاب” پیغمبر اعظم و آخر“ میں لکھتے ہیں کہ ”مسلمانوں کی ہجرت ثانی کے بعد قریش اور بھی تلملائے اور اپنی چیرہ دستیوں میں بہت دور نکل گئے، لیکن نہ تو وہ انقلاب پسند مسلمانوں کو اسلام سے منحرف کرسکے اور نہ ہی اُن کی تحریک انقلاب کو دبا سکے، یہ درست ہے کہ تحریک جب تک حرکی رہتی ہے جمود اور تعطل کا شکار نہیں ہوتی، وہ زندہ و توانا رہتی اور آگے بڑھتی رہتی ہے، اگرچہ اُس کی رفتار سست ہی کیوں نہ ہو، تحریک اسلام کے قائد چونکہ پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے، اسلیئے قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز کو دبانے اور خاندان بنی ہاشم کی حمایت سے محروم کرنے کیلئے ایک سفاکانہ منصوبہ ترتیب دیا، اِس منصوبے کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے خانوادے بنوہاشم کو شہر بدر اور محصور کر کے اُن کا معاشرتی مقاطعہ کرنا تھا، چنانچہ ایک معاہدہ طے پایا، جسے منصور بن عکرمہ نے لکھا اور اُسے خانہ کعبہ کی دیوار پر لٹکا دیا، اِس معاہدے میں بنوہاشم میں سے صرف ابو لہب عبدالعزٰی بن عبدالمطلب شریک تھا، اِس معاہدے کی بڑی بڑی شقیں یہ تھیں،”اگر بنو ہاشم (حضرت) محمد ( مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کو قتل (نعوذباللہ)کیلئے ہمارے حوالے نہ کریں تو اُن کا مکمل معاشرتی مقاطعہ کیا جائے، اُن کے ساتھ رشتے ناطے اور شادی بیاہ کے تعلقات منقطع کرلئے جائیں، اُن سے خرید و فروخت اور لین دین ہر گز نہ کیا جائے، انہیں کھانے پینے کی چیزیں مہیا نہ ہونے دی جائیں، انہیں گلی بازاروں میں گھومنے پھرنے نہ دیا جائے، وغیرہ وغیرہ“

چنانچہ داعی انقلاب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ آپ کے خانوادہ بھی، بجز ابو لہب بن عبدالمطلب کے ایک کٹھن، صبر آزما بلکہ شکیب رُبا آزمائش زندگی میں مبتلا ہوگیا، تحریک اسلام کیلئے یہ ایک انتہائی نازک وقت تھا، بنو ہاشم شہر چھوڑنے اور پہاڑ کی گھاٹی میں، جسے شعب ابی طالب (جو دراصل شعب بنی ہاشم ہے) کہتے ہیں سکونت پزیر ہونے پر مجبور ہوگئے، اگرچہ انہوں نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا لیکن وہ اِس اعتبار سے تحریک اسلام کے معاونین و مددگار ضرور تھے کہ انہوں نے محض پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر تین برس تک، جس کا ایک ایک دن اُن کیلئے کسی قیامت سے کم نہیں تھا، انہوں نے شہر بدری، محصوری اور معاشرتی مقاطعہ کے صدمات اٹھائے اور مصائب جھیلے، لیکن اُن کے پائے عزم و ثبات میں کسی لمحے بھی لغزش نہ آئی، وہ شہر جس کی بنو ہاشم زینت تھے، جس میں اُن کی عظمت کے جھنڈے گڑے تھے، جس کے معامالات میں اُن کی آواز وزن رکھتی تھی، اُس شہر میں اُن کو قدم رکھنے کی اجازت نہ تھی، وہ لوگ جن کے وہ سادات تھے، جو اُن کے مشوروں کے متمنی رہتے تھے اور اُن کی دوستی کو سرمایہ افتخار سمجھتے تھے، بیگانہ ہی نہیں اب دشمن بھی بن چکے تھے، بنو ہاشم کا جرم یہ تھا کہ وہ پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت سے دست بردار نہیں ہوتے تھے اور اِس جرم کی پاداش میں اُن پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا، انہیں بھوکا رہنا پڑا، درختوں کے پتے، چھالیں کھانی پڑیں اور اپنی بے بسی و بے کسی پر دشمنوں کو قہقہے لگاتے اور آوازے کستے بھی دیکھنا پڑا، انہوں نے مسلسل تین برس تک سب کچھ دیکھا، سنا اور سہا، لیکن داعی انقلاب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قریش کے حوالے نہیں کیا، بنو ہاشم اِس شکیب رُبا تجربے سے گزرے اور کامیاب رہے۔

یہ حقیقت ہے کہ انقلاب کی راہیں بڑی کٹھن، دشوار گزار اور ہمت شکن ہوتی ہیں اور انہیں عزم و ایمان صبرو استقلال اور تدبرو حکمت سے گزارنا پڑتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اِن مراحل سے گزرے، معاشرتی مقاطعے کے شکیب رُبا تجربے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رویہ بطریق سایہ خداوندی و رحمت تھا، اِس کے برعکس قریش کا طرز عمل ظالمانہ تھا، لہٰذا اِس کا فطری ردعمل مظلوموں کے حق میں ہوا اور وہ دن آگیا، جب قریش کے ہی افراد نے ابوجہل وغیرہ کی مخالفت کے باوجود اپنے ہاتھوں سے معاشرتی مقاطعے کا عہد نامہ چاک کردیا۔“ بالکل اسی طرح آج کا غزہ جو دور جدید کی شعب ابی طالب ہے کی چار سال بعد اسرائیلی ظلم و بربت اور محاصرے سے نجات کے دن جلد آنے والے ہیں اور ترکی کی جانب سے اہل غزہ کی امداد کیلئے روانہ کیے گئے چھ بحری جہازوں پر مشتمل فریڈم فلوٹیلا (قافلہ آزادی)پر وحشیانہ حملے میں بیس امدادی کارکنوں کی ہلاکت نے اسرائیلی وحشت و درندگی کو بے نقاب کر کے عالمی ضمیر کو جگانے میں جو کردار ادا کیا ہے اُس کے بعد وہ دن دور نہیں جب دنیا اسرائیل کی جانب سے عائد غزہ پر پابندیوں کے حکم نامے کو خاک میں ملا دے گی۔

قارئین محترم یہ وہی غزہ ہے جو پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد امجد حضرت عبدالمطلب کے والد جناب ہاشم بن عبدمناف کی جائے آرام گاہ ہے اور اُن کی قبر آج بھی غزہ کے محلے ”الدرج“ میں موجود ہے، جس کے پڑوس میں ایک شان دار تاریخی مسجد” مسجد سید ہاشم “واقع ہے، غزہ کو اسی حوالے سے غزہ ہاشم کہہ کر بھی پکارا جاتا ہے، مصر کی وادی سینا سے منسلک اور بحر متوسط کے ساحل پر پھیلی ہوئی 40 کلومیٹر لمبی اور 10کلومیٹر چوڑی غزہ کی پٹی میں 15 لاکھ فلسطینی مسلمان بستے ہیں،1948ء میں سرزمین فلسطین پر قبضہ کر کے جب صہیونی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تو غزہ کی پٹی مصر کے زیرانتظام آ گئی جو 19 سال تک رہی،1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں دیگر وسیع علاقوں کے ساتھ ساتھ غزہ پر بھی صہیونی افواج نے قبضہ کرلیا اور غزہ ہاشم پر ابتلاء کا ایک نیا دور شروع ہوگیا،1948ءکے بعد دیگر فلسطینی علاقوں سے بھی مہاجرین کی بڑی تعداد غزہ منتقل ہوگئی تھی، آٹھ مہاجر خیمہ بستیاں وجود میں آئیں، یہودیوں نے بھی یہاں اپنی 25 جدید بستیاں تعمیر کیں اور غزہ کی یہ مختصر سی پٹی دنیا کی سب سے بڑی گنجان انسانی آبادی بن گئی، یہ مفلوک الحال آبادی سسک سسک کر جی رہی تھی کہ وہاں جہاد و مزاحمت سے آشنا ایک نئی نسل نے جنم لیا۔

شیخ احمد یاسین، ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی اور انجینیر یحییٰ شہید جیسے راہ نماؤں نے اِس نسل کی تربیت کا بیڑا اٹھایا، اسلامی یونی ورسٹی غزہ جیسے شان دار تعلیمی ادارے قائم کیے اور بالآخر 1987ء میں اسلامی تحریک مزاحمت ”حماس “وجود میں آگئی، ابتداء میں پتھروں اور غلیلوں سے ٹینکوں کا مقابلہ کیا گیا، معصوم بچوں نے کنکریوں سے دیوقامت ٹینکوں اور جدید ترین ہتھیاروں کا مقابلہ کیا، ابابیل صفت بچے گھروں سے نکلتے ہوئے باوضو ہوکر مساجد میں نوافل ادا کرتے اور صہیونی درندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نکل آتے، بظاہر صہیونی اسلحے کے انباروں اور بے وسیلہ بچوں کا کوئی تقابل نہیں تھا، لیکن دنیا نے دیکھا کہ ہزاروں شہداﺀ، زخمیوں اور قیدیوں کا نذرانہ دینے کے بعد بالآخر بے وسیلہ تحریک انتفاضہ ہی کامیاب ہوئی اور 1967ء سے غزہ پر قابض صہیونی افواج 2005ء میں انخلا پر مجبور ہوگئی۔

جبکہ صہیونی اور امریکی منصوبہ یہ تھا کہ اسرائیلی انخلا کے بعد غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی آپس ہی میں لڑتے لڑتے ختم ہوجائیں، صہیونی استعمار کے ساتھ مذاکرات و مصالحت کرنے والی الفتح تحریک جو خود کو فلسطینی عوام کا اکلوتا نمائندہ قرار دیتی رہی ہے، وہی1993ء کے بعد سے لے کر غزہ اور مغربی کنارے میں قائم فلسطینی اتھارٹی کے سیاہ و سفید کی مالک تھی، صہیونی اور امریکی منصوبہ ساز اس اتھارٹی کے ذریعے فلسطینی مجاہدین کو فلسطینی ”حکمرانوں“ کے ہاتھوں نیست و نابود کروانا چاہتے تھے، اس مقصد کیلئے اربوں ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا، مزید امداد کے لیے شرط یہ رکھی گئی کہ دہشت گردوں، یعنی مجاہدین کا قلع قمع کرو، یہ منصوبہ اور سازش شاید کامیاب ہوجاتی، لیکن جنوری 2006ء میں وہاں کا پورا نقشہ ہی بدل گیا، انتخابات ہوئے اور حماس نے پہلی بار انتخابات میں شرکت کا فیصلہ کیا، گو کہ امریکہ، اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی نے لاکھ دھمکیاں دیں کہ اگر حماس کو منتخب کیا گیا تو امداد بند کردی جائے گی، لیکن فلسطینی عوام نے بھاری اکثریت سے حماس ہی کو اپنا نمائندہ منتخب قرار دیا، حماس کی اس کامیابی سے اسرائیل اور اس کی پسندیدہ فلسطینی اتھارٹی مخمصے کا شکار ہوگئی کہ حماس کو حاصل دو تہائی اکثریت تسلیم کرے یا سب کچھ لپیٹ کر واپس 1993ء سے پہلے کی پوزیشن پر واپس چلی جائے، بہر حال طویل لیت و لعل کے بعد صدر محمود عباس کو پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے، منتخب ارکان اسمبلی اور ارکان حکومت سے حلف لینے کی ہدایات دی گئیں اور وزیراعظم اسماعیل ھانیہ اور ان کے ساتھیوں نے کام کرنا شروع کردیا، گو بظاہر ایک منتخب حکومت اور پارلیمنٹ وجود میں آگئی اور صہیونی انخلا کے بعد غزہ سے اسرائیلی قبضہ ختم ہوگیا تھا، لیکن عملاً پورا علاقہ نہ صرف صہیونی گھیرے میں تھا، بلکہ غزہ کے اندر بھی اسرائیلی افواج کی نمائندگی کرنے والے دندناتے پھرتے تھے، امریکہ اور اسرائیل نے منتخب حکومت کو ایک دن بھی سکھ کا سانس نہیں لینے دیا اور حماس کی حکومت آتے ہی تمام بیرونی امداد یکسر بند کردی گئی، اسرائیلی انتظامیہ نے تعاون کے بجائے عداوت کے نئے مورچے کھول لیے، حماس نے چیلنج قبول کیا اور کہا کہ امداد بند ہے تو بند رہے ہم اپنا جہاں خود پیدا کریں گے، پورے عالم اسلام کے عوام نے ان کے لیے مالی امداد جمع کرنا شروع کی، ایک خطیر رقم جمع ہوگئی، بعض حکومتوں نے بھی دست تعاون بڑھایا، جس سے دنیا کو خطرہ لاحق ہوگیا کہ حماس حکومت کامیاب ہوجائے گی، چنانچہ مسلمان ملکوں کے بینکوں پر پابندی عائد کردی گئی کہ کوئی بینک فلسطینی حکومت کے اکاؤنٹ میں ایک پیسہ بھی منتقل نہیں کرے گا، جس کی وجہ سے کئی بینکو ں نے منتخب فلسطینی حکومت کے لیے جمع شدہ رقوم ضبط کرنے کا اعلان کردیا۔

لیکن حماس نے پھر بھی ہمت نہ ہاری اور ذمہ داران حکومت خود مالی اعانت لے کر غزہ جانے لگے، واضح رہے کہ غزہ کو باقی دنیا اور خود فلسطین کے دیگر مقبوضہ علاقوں سے ملانے والے راستوں کی تعداد سات ہے، ان میں سے چھ تو براہ راست اسرائیلی انتظام میں ہیں جو غزہ کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے ملاتے ہیں جبکہ ایک راستہ ”رفح گیٹ “ غزہ کو مصر سے ملاتا ہے، تقریباً ڈیڑھ برس کا عرصہ یونہی گزرا، عالمی امداد بند، تمام بری راستے جزوی طور پر بند، صہیونی فوجی کاروائیوں کا وسیع پیمانے پر دوبارہ آغاز اور سب سے بڑھ کر یہ کہ الفتح تنظیم اور صدارتی افواج کے ذریعے حماس کے ساتھ باقاعدہ مڈبھیڑ کا اہتمام، آئے روز ذمہ داران قتل، مجاہدین گرفتار صہیونی دشمن کے ہاتھوں نہیں بلکہ اپنے ہی بھائی بندوں کے ذریعے، اس دوران کئی مصالحتی کوششیں ہوئیں، حماس اور الفتح کے درمیان خانہ کعبہ میں ایک تفصیلی معاہدہ بھی طے پایا، لیکن ابھی اس معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ صدارتی افواج اور الفتح کے مسلح عناصر کے ذریعے منتخب حکومت اور حماس کے خلاف جارحانہ کاروائیاں پھر شروع ہوگئیں، اغوا، قتل اور جلاﺅ گھیراﺅ کی یہ کاروائیاں عروج پر پہنچیں تو 14 جون 2007ء کو حماس کے جوانوں نے غزہ سے صدارتی کیمپ کے تمام دفاتر خالی کروا لیے، چند گھنٹوں کے اندر اندر غزہ میں صرف حماس ہی کی عوامی و عسکری قوت باقی رہ گئی، اس کے باوجود حماس نے اعلان کیا کہ یہ صرف ایک عارضی اور انتظامی کاروائی ہے، ہم معاہدہ مکہ کی اصل روح کے ساتھ اپنے تمام فلسطینی بھائیوں سے اشتراک عمل چاہتے ہیں، لیکن 14 جون کے واقعات کو بنیاد بنا کر غزہ کو مکمل گھیرے میں لے لیا گیا، آج اس محاصرے کو چار سال ہو رہے ہیں، غزہ جانے کے تمام راستے مکمل طور پہ بند ہیں، کوئی گاڑی، کوئی سواری اور کوئی شخص غزہ آ سکتا ہے، نہ وہاں سے جاسکتا ہے، اس مکمل بندش کی وجہ سے غزہ میں زندگی معطل ہو کر رہ گئی، ایندھن، پانی، ادویات، سامان خوردنوش فلسطینی مقبوضہ علاقوں سے آتا تھا، وہ بند ہوگیا، غزہ سے کچھ سامان تجارت خصوصاً فرنیچر ملبوسات اور زیتون کی مصنوعات باہر جاتی تھیں وہ بھی بند ہیں، غزہ سے لاکھوں افراد روزانہ محنت مزدوری کے لیے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جاتے تھے، ان کے جانے آنے پر پابندی ہے، غرض کہ اس وقت غزہ چاروں طرف سے سیل بند اور مقفل ہے، چالیس کلومیٹر طویل اور دس کلومیٹر عریض پٹی بستے والی پندرہ لاکھ کی آبادی کیلئے جینے کا ہر سامان حرام قرار دے دیا گیا ہے، 27 دسمبر2008ء کو اسرائیل نے ان پر 24 روزہ مہیب جنگ مسلط کی، سفید فاسفورس بم سمیت، جلا کر بھسم کر دینے والا ہر نوع کا بارود ان پر برسایا گیا۔

لیکن انہیں ان کے مؤقف سے دست بردار نہیں کرایا جاسکا، اہلِ غزہ نے امریکا و یورپ کی مکمل سرپرستی اور اکثر پڑوسی عرب ملکوں کی خیانت و معاونت سے حملہ آور ہونے والے صہیونی دشمن کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا، گو کہ غزہ کا حصار اور ناکہ بندی جنگ سے پہلے بھی جاری تھی لیکن 24 روزہ تباہ کن جنگ کے بعد محاصرہ شدید تر کر دیا گیا، ایسے میں اہلِ غزہ کے سامنے زیر زمین راستوں کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا، تین اطراف میں تو ”اہلِ ایمان کے بدترین دشمن“ یہودیوں کا گھیرا ہے، چوتھی جانب مصر کی وادیِ سینا ہے، غزہ اور مصر کے درمیان 10کلومیٹر کی سرحد، اونچی اونچی باڑیں لگا کر بند کر دی گئی ہے، اس صوتحال میں فلسطینی اور مصری رفح کے شہریوں نے لمبی لمبی سرنگیں کھود کر 15لاکھ انسانوں کے جسم و جان کا رشتہ بحال رکھنے کی کوششیں شروع کر دیں، عالمی طاغوت اور اس کے پالتو حکمرانوں کو یہ بات سب سے زیادہ دکھ دینے لگی، چنانچہ امریکی صدر بش نے جاتے جاتے اسرائیلی اور ملت فروش مصری حکمرانوں کے ساتھ مل کر ایک منصوبہ تیار کیا، جو شاید انسانی تاریخ کا انوکھا تعمیراتی منصوبہ تھا جس کے تحت 10کلومیٹر لمبی اور20 سے 30میٹر گہری ایک فولادی دیوار زمین کے اندر تعمیر کی جارہی ہے، یعنی تقریباً 5 یا6منزلہ عمارت کی بلندی جتنی گہری دیوار، بحالی مہاجرین کے لیے قائم کردہ اقوامِ متحدہ کے ادارے انروا (UNRWA) کی مصر میں نمائندہ کیرین ابوزید نے اس فولادی دیوار کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ”یہ انتہائی مضبوط فولاد ہے جسے خصوصی طور پر امریکا میں تیار کیا گیا ہے، اس پر مختلف دھماکا خیز مواد چلا کر اس کی مضبوطی کا تجربہ بھی کیا جاچکا ہے۔“ یعنی اس میں نقب لگانا یا بم دھماکے سے اس میں سوراخ کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں، پھر مزید حفاظتی اقدامات کرتے ہوئے اس زیر زمین پوری آہنی فصیل کو برقی رَو سے جوڑ دیا گیا ہے، ساتھ ہی مزید ایسے آلات لگا دیے گئے ہیں کہ کہیں سے اگر اس میں شگاف ڈالا جائے تو فوراً اس کا سراغ لگایا جاسکے، اس فولادی دیوار کے علاوہ فلسطینی علاقے کی جانب ایک خطرناک آبی دیوار قائم کی جارہی ہے، یہ بھی اپنی نوعیت کا ایک اور ناقابلِ یقین اور ہلاکت خیز منصوبہ ہے، اس منصوبے کے مطابق بحر متوسط سے ایک زمین دوز موٹا پائپ فولادی دیوار کے ساتھ ساتھ بچھایا جا رہا ہے، اس پائپ سے ہر 30سے 40 میٹر کے فاصلے پر تقریباً 35میٹر گہرا، چھے انچ موٹا پائپ زمین میں اتارا جارہا ہے، ان عمودی پائپوں میں لاتعداد سوراخ کیے گئے ہیں، طاقت ور پمپس کے ذریعے جب سمندر سے بڑے افقی پائپ اور وہاں سے گہرے عمودی پائپوں میں پانی چھوڑا جائے گا تو پورا علاقہ دلدل کی صورت اختیار کرجائے گا اور وہاں کسی کے لیے سرنگیں کھودنا ممکن نہ رہے گا۔

ستم ظریفی دیکھئے کہ عالمی اقتصادی بحران اور دنیا میں بڑھتی ہوئی غربت کا رونا رونے والوں کے پاس، مفلوک الحال، بھوکے اور محصور فلسطینیوں کو سرنگیں کھودنے سے روکنے کے لیے شیطانی ذہنیت ہی نہیں اربوں ڈالر کا وافر خزانہ بھی موجود ہے، چونکہ فیصلہ امریکی اور اسرائیلی دباؤ پر ہوا ہے، اس لیے مصر اسے قومی مصلحت قرار دیتے ہوئے تیزی سے پایہ تکمیل تک پہنچا رہا ہے، اس بارے میں سب سے زیادہ تکلیف دہ مؤقف مصر کی جامعہ ازہر کا ہے جس کے درباری مفتیوں نے فولادی اور آبی دیوار کو جائز قرار دیا ہے کہ یہی حکم آقا تھا، امر واقعہ یہ ہے کہ جب سے اسرائیل نے غزہ میں تباہی و بربادی کا مکروہ کھیل کھیلا ہے، تب سے اُس نے غزہ پر متعدد پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، حتیٰ کہ باہر سے کھانے پینے کے سامان کی بھی ایک حد مقرر ہے اور اس سے زیادہ سامان غزہ میں نہیں لے جایا جاسکتا، غزہ میں تعمیر نو کے لئے تعمیراتی سامان کی اشد ضرورت ہے، لیکن اسرائیل نے اس طرح کے سامان پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے، غزہ کی مسلمان آبادی ایک محصور شہر کا منظر پیش کر رہی ہے اور وہاں کا ہر دن اذیت ناک ہے۔

قارئین محترم غزہ میں زندگی کی آخری رمق بچانے کی خاطر کھودی گئی سرنگیں بند ہو رہی ہیں لیکن اس کے باوجود اہلِ غزہ کو یقین ہے کہ اللہ اُن کے لیے کوئی دوسرا راستہ کھول دے گا، ان کا یہ یقین عنقریب حقیقت میں بدلنے والا ہے، کیونکہ ترکی اور دنیا کے کچھ اہل جرات افراد نے کمر ہمت کس لی اور طے کرلیا ہے کہ وہ اہل غزہ کو اسرائیل کے ظلم و بریت سے نجات دلاکر ہی رہیں گے، چنانچہ یہ لوگ اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر عازم غزہ ہوئے، یہ وہ لوگ تھے جنہیں اسرائیلی خطرے کا بالکل درست اندازہ تھا، یہ وہ لوگ تھے جنہیں پہلے سے معلوم تھا کہ اسرائیل درندگی کے کس مقام تک جاسکتا ہے، لیکن اس کے باوجود اُن سے اپنے بے بس بھائیوں اور بہنوں کی مظلومیت دیکھی نہیں گئی اور یہ لوگ بحری جہازوں کے قافلے فریڈم فلوٹیلا (جس پر پاکستان، آسٹریلیا، آذربائیجان، اٹلی، انڈونیشیا، آئرلینڈ، الجیریا، امریکا، بلغاریہ، بوسنیا، بحرین، بیلجئم، جرمنی، جنوبی افریقہ، ہالینڈ، برطانیہ، یونان، اردن، کویت، لبنان، ماریطانیہ، ملائیشیا، مصر، مقدونیہ، مراکش، ناروے، نیوزی لینڈ، شام، سربیا، اومان، چیک ری پبلک، فرانس، کوسووا، کینیڈا، سویڈن، ترکی اور یمن کے سات سو سے زائد شہری سوار تھے) فلسطینیوں کے لیے دس ہزار ٹن امدادی سامان لے کر غزہ روانہ ہوئے، گو کہ ان کی یہ کوشش اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوسکی، لیکن ان کے اس اقدام نے دنیا کے سامنے امریکا کی اولاد سرائیل کا مکروہ چہرہ اور ننگی جارحیت ضرور آشکارہ کردی۔

اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ اسرائیل نے امریکہ کی شہ اور اسکی سرپرستی میں اسرائیلی ریاست عربوں کے قلب میں قائم کر کے فلسطینی عوام کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے جس کا مقصد فلسطینی عوام کی جدوجہد آزادی کے آگے بند باندھ کر فلسطین کی آزاد ریاست کو دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے سے روکنا ہے، امریکی شہ پر اسرائیل کی جانب سے غزہ کے بے بس اور محصور شہریوں کی امداد کیلئے جانے والے قافلے پر دھاوا بولنا، درحقیقت اُن امریکی عزائم کو بے نقاب کرنے کے مترادف ہے جو پوری مسلم امہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے اسکے دل میں موجود ہیں، اس صورتحال میں کیا اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی اور اسلامی کانفرنس کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ امریکہ بھارت، اسرائیل کے ہاتھ روکنے کیلئے متحرک کردار ادا کرے اور اپنی روایتی غفلت کا لبادہ اتار پھینکے، اسرائیلی بحریہ کی جانب سے غزہ کے شہریوں کو امداد سے محروم کرنے کی خاطر پورے امدادی قافلہ کی لوٹ مار اور قتل عام ایسا واقعہ ہے جس کی صرف مذمت پر اکتفا کرنا ہی کافی نہیں، یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ دنیا میں دہشت گردی کا آغاز اسرائیل ہی کی وجہ سے ہوا، بڑی طاقتوں کی پشت پناہی کی وجہ سے اسرائیل نے فلسطینیوں کے حقوق کو ہمیشہ نہایت بے دردی سے پامال کیا اور کبھی کسی قاعدے قانون کی پروا نہیں کی، جہازوں کا اغوا اور خودکش حملے اسرائیلی ظلم و بربریت ہی کا نتیجہ ہیں، امریکا اور اس کی اتحادی بڑی طاقتوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس قسم کے اندوہناک واقعات فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم ہی کی وجہ سے ظہور پذیر ہوئے، بین الاقوامی سمندر میں جارحیت کا تازہ ترین واقعہ اسرائیلی بربریت اور درندگی کا کھلا ثبوت ہے۔

ہمارے خیال میں یہی مناسب وقت ہے کہ خطہ میں ایک الگ اسلامی بلاک تشکیل دے کر طاغوتی طاقتوں کا راستہ روکا جائے، اس وقت اتفاق سے ترکی اور ایران بھی اس اتحاد کے خواہاں ہیں، دیکھا جائے تو اسرائیل کے تازہ ترین حملے کا اصل شکار تو ترکی بنا ہے، ہم سے زیادہ صاحب ایمان ترکی والے نکلے، اس خطرے کے باوجود کہ اسرائیل فوجی کاروائی کرے گا، غزہ کے محصور فلسطینی باشندوں کی امداد کے لیے بحری جہازوں میں خوراک اور دوائیں بھر کر بھیج دیں، ساتھ ہی سینکڑوں امدادی کارکن بھی روانہ کئے اور استنبول کی بندرگاہ پر لاکھوں ترک باشندوں نے اس قافلے کو الوداع کہا، اس کے باوجود کہ مسلم ممالک میں ترکی وہ واحد ملک ہے جس کے اسرائیل کے ساتھ بہت قریبی تعلقات تھے اور ترکی ہی مسلم دنیا کا وہ پہلا مسلم ملک ہے جس نے 1948ء میں اسرائیل کو تسلیم کر کے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کیے تھے، لیکن 2008ء کی غزہ کی تباہ کن جنگ اور ظالمانہ محاصرہ کے بعد ترکی کے اسرائیل سے تعلقات پر کشیدگی کے بادل چھا گئے ہیں، ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردگان نے2009 ءمیں ڈاووس میں ورلڈ اکنامک فورم میں غزہ پر اسرائیل کے حملہ اور مظالم کی سخت مذمت کی تھی، اب غزہ کے عوام کے لیے ترکی کے امدادی بحری بیڑہ پر اسرائیل کے حملہ کے بعد ترکی نے اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے اور سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں اسرائیل کے اس حملہ کو دہشت گردی قرار دیا ہے، ترکی کے اس اقدام کے بعد یورپی یونین نے بھی اسرائیل کے حملہ کی سخت مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ غزہ کا محاصرہ ختم کیا جائے۔

اسی دباؤ کی وجہ سے فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس نے اسرائیل کے اس حملہ کو قتل عام قرار دیا ہے اور اب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جس طرح اسرائیلی حملہ کی مذمت کی ہے اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اس نے اسرائیل کی شکست پر تصدیق کی مہر ثبت کردی ہے، دوسری طرف ترک وزیراعظم نے “قونیہ” شہر میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ” بیت المقدس کا مستقبل استنبول اور غزہ کا انقرہ سے وابستہ ہے، ترکی کے لیے جہاں استنبول اور انقرہ کا دفاع ضروری ہے، وہیں غزہ اور بیت المقدس کا بھی ضروری ہے، انہوں نے عہد کیا کہ وہ فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے چاہیں انہیں اس سلسلے میں پوری دنیا کی طرف سے تنہائی کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے، انہوں نے حماس کو فلسطینیوں کی نمائندہ، مزاحمتی اور وطن کی دفاع میں سرگرم تنظیم قرار دیتے ہوئے کہا کہ حماس کو دہشت گرد قرار دینے والوں کے اپنے دامن بے گناہوں کے خون سے لتھڑے ہوئے ہیں“ قارئین محترم یہ وہی ترکی ہے جس کی فوج ملک کی سیکولر پہچان کی نگہبان سمجھی جاتی ہے اور اس نے ملک میں اسلامی طرز زندگی کو بدلنے میں اہم ترین کردار ادا کیا، لیکن حالیہ سالوں میں سیکولر ترکی نے ایک نئی انگڑائی لینی شروع کی ہے اور اب یورپی یونین میں شرکت کے لیے بھیک مانگتا ترکی ایک نئے روپ میں سامنے آنا شروع ہو گیا ہے، وزیر اعظم طیب اردگان اور صدر عبداللہ گل کی اسلام پسند پارٹی ترکی کی سیاست پر حاوی نظر آتی ہے، فوج کی جانب سے تشویش کے باوجود عوام میں اسلامی تشخص مقبولیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اب عالمی منظر نامے میں اس کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے، اس صورحال میں ہم دعا کرتے ہیں کہ ترکی اسلام دشمنوں کو پیغام دینے کا سلسلہ جاری رکھے اور خلافت عثمانیہ کے دور میں اسلام کا یہ مرکز ایک پھر اسلامی قوت کا گڑھ بن کر ابھرے، آج اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ترکی نے غزہ کے 15لاکھ فلسطینی مسلمان جو شعب ابی طالب میں محصور بنو ہاشم کی طرح روٹی، پانی اور دیگر بنیادی ضروریات کیلئے ترس رہے ہیں، کیلئے زہیر بن اُمیہ(جنہوں نے بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے عہد کیا تھا کہ ہم تو انواع و اقسام کے کھانے کھائیں، طرح طرح کے کپڑے پہنیں اور بنوہاشم ہلاک ہوتے رہیں، اُن سے ہر طرح کی خرید و فروخت بند رہے، نہیں.... خدا کی قسم..... نہیں، میں تب تک چین سے نہیں بیٹھوں گا، جب تک کہ بنوہاشم سے بائیکاٹ کی ظالمانہ دستاویز پھاڑ نہیں دی جاتی) کا کردار ادا کر کے اہل غزہ کیلئے اسرائیلی ظلم و بریت سے نجات کی نئی راہیں متعین کردی ہیں۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 314120 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More