جیسا کرو گے ویسا بھرو گے

بے حس اولاد کا اپنے عمر رسیدہ والدین کو اولڈایج ہومز میں داخل کرنے کے رجحان میں اضافے کے باعث اولڈ ہومز میں جگہ کی قلت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔

بہت سے اولڈ ہوم کاآپ وزٹ کرلیں۔ آپ کو اندازہ ہوجائے گاکہ سہولتوں سے آراستہ زندگی بسر کرنے کے باوجود اپنی اولاد سے دوروالدین کرب زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض کیس ایسے بھی ملتے ہیں کہ ان بوڑھی خواتین کی اولاد تو عالی شان مکانات میں رہائش پذیر ہیں لیکن بوڑھی ماؤں کے لئے اِن کے پاس وقت نہیں۔اکثر خواتین کی اولاد کاروبار کیلئے بیرون ملک چلی جاتی ہے اور عالی شان محلوں میں ماں باپ کو نوکروں یا پڑوسیوں کے رحم و کرم پر چھوڑدیتے ہیں جہاں عدم توجہی سے والدین نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

محتر م قارئین !!آج میں اسپیشل اس topicکو لایاہوں ۔کہ فقط والدین ہی کی ذمہ داریاں نہیں اولاد والدین کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرتی ہے وہ بھی کوئی قابلِ اطمینان نہیں ۔

بڑھاپے میں جسمانی طور پر کمزور اور اکیلے پن کے شکار والدین عمر کے آخری حصے میں معصوم بچوں جیسی حرکتیں کرتے ہیں اور چڑچڑے پن کا شکار ہو کر اپنوں کے پیار کو ترستے ہیں لیکن اولاد انھیں اولڈ ہوم میں رکھنے کو ترجیح دیتی ہے۔ کیونکہ اِن ضعیف والدین کو گھر میں رکھنے پر اِن کے رتبے میں کمی آتی ہے۔ہولڈ ہوم میں جاکر والدین سے تاثرات لیں تو آپ کو اسی طرح کی دل کو ہلادینے والے تاثرات ملتے ہیں ۔بچپن میں اولاد گھر سے باہر ہو تو والدین کو پریشانی میں نیند نہیں آتی۔اپنی زندگی کا تمام ترسرمایہ اور بڑھاپے کی لاٹھی اپنی اولاد کو سمجھتے ہیں۔ ہم انھیں اُف تک نہیں کرتے ،جب ہماری اولاد خود والدین کے رتبے پر فائز ہوتی ہیں اور ہمارا وقت اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ کھیلنے کا آتا ہے تو ہماری قدر و منزلت اُن کی نگاہوں میں بڑھنے کے بجائے کم ہوجاتی ہے۔ وہ ہمیں گھر کا کوڑا کرکٹ سمجھ کر اولڈ ہوم میں بھیج دیتے ہیں۔

ماں کیسا رشتہ ہے۔ان ستم رسیدہ ماؤں سے پوچھیں تو وہ اس وقت بھی جھولی پھیلاپھیلاکر اپنی اولاد کے لیے دعائیں کررہی ہوتی ہیں ۔ ہماری اولاد جیسی بھی ہے آخر ہے تو ہماری، ہمارے منہ سے اب بھی بچوں کے لیے دعا نکلتی ہے۔ہماری معلومات کے مطابق بزرگ خواتین کی تعداد میں روز بروز ہوشربا اضافہ ہونے کے باعث جگہ کی قلت کا سامنا ہے۔

آپ کی اس سوشل سروس کی وساطت سے ایسی اولاد سے یہی کہوں گاکہ ہمارے بزرگ ہمیں ایک حکایت سناتے ہیں کہ کسی علاقے کا دستور تھاکہ وہ بوڑھے والدین کو کپڑے میں لپیٹ کر پہاڑ سے پھینک دیاکرتے تھے ۔ایک گھر میں ایک بوڑھے باباجی تھے ۔ان کے بیٹے نے وہی کام کرنے کا عزم کیا۔جووہاں رائج تھاکہ بوڑھے باپ کو پہاڑسے گرادیاجائے ۔خیر وہ کمبل وغیر لیتاہے اور باپ کو اس میں لپیٹ کر پہاڑ پر لے جانے لگتاہے تو اس کا بیٹابھی بضد ہوتاہے کہ ابو میں بھی چلوں گا۔باپ اپنے بیٹے یعنی بابا جی کے پوتے کو بھی ساتھ لے لیتاہے ۔جب پہاڑ پر پہنچ کر وہ باباجی کو پھینکنے کا ارادہ کرتاہے تو اس آدمی کا بیٹا !اچانک باپ کا ہاتھ پکڑتاہے اور کہتاہے بابا !!ٹھہریں !اس کمبل کو آدھا کاٹ کر سنبھالیں !بچے کی یہ بات سن کر باپ کہتاہے کہ کیوں ؟وہ کہتاہے کہ بابا!!کل جب آ پ بوڑھے ہوں گے تو مجھے بھی تو آپ کو لپیٹ کر پھینکنے کی ضرورت پیش آئی گی تو یہ کمبل کا ٹکڑااس وقت کام آئے گا۔

باپ نے جیسے ہی اپنے ننھے بچے کی بات سنی کانپ گیا!ڈر گیا!اور وہیں سے باپ کو واپس لے آیا!!
محترم قارئین !کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری کم عقلی اور بے ادبی کی وجہ سے کل وہ کمبل ہمارامقدر بن جائے ۔اس وقت سے عافیت و پناہ مانگیے ۔یہ جوانی ڈھل جائے گی ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ پر بھی یہی عمل دہرایاجائے اور آپ بڑھاپے کو سسک سسک کر گزاریں ۔اﷲ عزوجل ہمیں اپنے والدین کی خوب خوب خدمت کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین

DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 381 Articles with 594047 views i am scholar.serve the humainbeing... View More