ریاست کی ذمہ داری؟
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
حافظ صاحب ہمارے ہمسائے ہیں، بزرگ اورشفیق
ہیں، اہم بات یہ کہ ہمارے نگران مالک مکان بھی وہی ہیں۔ کئی روز سے مجھے
یاد فرما رہے تھے، کل صبح صبح ہی میں حاضر ہوگیا، حال احوال کے بعد وہ اصل
حال کی طرف آئے، ’’ایک خاتون ہمارے گھر کام کرتی تھی، ان کے عزیزوں نے اس
کی شادی کا بندوبست کیا ، مگر شادی کی پیچھے سازش تھی، ماحول’ وٹہ سٹہ‘ کا
بن گیا، اُن کی خاتون پر تشدد ہوتا تو بدلہ اِس سے لیا جاتا۔ خواتین پر
تشدد کے نئے قانون کے مطابق خاتون نے پولیس کو بھی اطلاع دی، مگر اپنی
پولیس نئے قوانین کو اتنی جلدی قبول نہیں کرتی، ویسے بھی پرانے قوانین میں
بہت سی خوبیاں ہوتی ہیں، پولیس کے لئے سب سے موثر قانون جیب گرم کرنے کا ہے،
اس قانون کے سامنے تمام قوانین جواب دے جاتے ہیں۔ اِس خاتون کے ساتھ بھی
یہی ہوا، بہرحال معاملہ طلاق پر ختم ہوا۔ اس لڑکی نے میری مرحومہ بیوی کی
بہت زیادہ خدمت کی تھی‘‘۔ یہ بتاتے ہوئے حافظ صاحب کی آواز رندھ گئی۔ اس کا
والد فالج کا مریض ہے ، بھائی ناہنجار ہیں اور والدہ گھروں میں کام کرکے
اتنا نہیں کما سکتیں کہ گھر چلا سکے۔ مدعا یہ تھا کہ میں خاتون کو کہیں
چھوٹا موٹا کام دلوانے میں ان کی مدد کروں۔
میں اپنے دفتر واپس آیا تو بجلی کے بل میرے حوالے کئے گئے، جس میٹر کا بل
ایک دو ہزار آتا تھا، وہ دس ہزار آیا تھا، میں جانتا ہوں کہ بل جو بھی آئے
وہ ادا کرنا ہی پڑتا ہے، اگر ناجائز بھی ہے تو اسے بھرنے کے احکامات ملتے
ہیں، بعد میں درستگی کا وعدہ ہوتا ہے جو کبھی ایفا نہیں ہوا۔ میں سوچ میں
پڑ گیا، کہ ایک دم کئی گنا زیادہ بل کیوں آگیا۔ میں اسی شش وپنج میں بیٹھا
تھا کہ اخبار آگیا۔ پاکستان کے محترم وزیر اعظم میاں نواز شریف ایک مرتبہ
پھر لندن چلے گئے تھے، جہاں انہوں نے اپنے سٹیٹس کے مطابق ڈاکٹروں سے
میڈیکل چیک اپ کروانا ہے، ان سے یہ سرٹیفیکیٹ لینا ہے کہ آیا میں پاکستان
میں اپنی انتخابی مہم جاری رکھوں یا کچھ آرام کروں۔ وہاں ان کی سیاسی
ڈاکٹروں سے ملاقات بھی ہوسکتی ہے۔ چند روز پاکستان کے کشیدہ ماحول سے دور
رہ کر وہ ذہنی آسودگی حاصل کرسکیں گے۔ وہ ایسا کر سکتے ہیں کہ وہ صرف
پاکستان کے وزیراعظم ہی نہیں، لندن میں ان کا گھر ہے، ان کے بچوں کا
کاروبار ہے، گویا لندن ان کا دوسرا گھر ہے۔ وہ جب چاہیں لندن جاسکتے ہیں،
وہ جاتے بھی رہتے ہیں۔ ظاہر ہے اس آنے جانے پر خرچ ہوتا ہے، خصوصی طیارہ
جاتا ہے، چیک اپ پر خرچہ اٹھتا ہے۔ ایک دورے کے لاکھوں روپے کہاں سے آتے
ہیں، ظاہر ہے عوام کے ٹیکسوں سے۔ اور جب کسی کا بجلی کا بل ایک ہزار کی
بجائے دس ہزار آئے گا تو اسے جان لینا چاہیے کہ اس کا باقی نو ہزار میاں
صاحب کے بیرونی خرچے پر استعمال ہو رہا ہے۔ میرے جیسے نہ جانے کتنے صارفین
اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ملاتے اور ثوابِ دارین پاتے ہیں۔ یہ خرچہ آئینی
طریقے سے استعمال ہوتا ہے اس لئے اس پر کسی کے اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں۔
مجھے کچھ دیر کے لئے تو حافظ صاحب کی سنائی ہوئی کہانی بھول گئی، مگر جب
کچھ ہوش آیا تو میں نے سوچا کہ اس خاتون کا قصہ کوئی منفرد نہیں، یا معاشرے
میں دو چار ہی ایسے قصے نہیں، بلکہ یہ معاملہ تو گلی گلی میں موجود ہے،
معاشرے میں لاکھوں بچے یتیمی کی زندگی گزار رہے ہیں، خواتین بیوگی اور
مائیں بے اولادی کے ہاتھوں بے بس ہیں۔ معاشرے کے معذور ، مجبور، یتیم، بے
آسرا لوگوں کا وارث کون ہے؟ کیا ان سب کی کفالت کی ذمہ داری ریاست کی نہیں؟
کیا ریاست کا فرض نہیں کہ وہ لوگوں کی تعلیم، صحت اور دیگر ضروریاتِ زندگی
کی ذمہ داری اٹھائے، ان کی کفالت خود کرے؟ مگر اپنے ہاں تو ایسے مجبور اور
بے سہارا خاندانوں کی تعداد لاکھوں میں ہے،جو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر زندگی گزار
رہے ہیں، جن میں سے بے شمار نوجوان معاشرے کا ناسور بن جاتے ہیں۔ بے شمار
خواتین مجبوریوں کے ہاتھوں خار دار راہوں پر چل نکلتی ہیں، کتنے لوگ ہیں
جونشہ کی لت میں مبتلا ہوکر خود کو تباہ کر بیٹھتے ہیں۔ مگر اپنے حکمران
خواہ وہ کرپشن کے دشمن ہوں، انہوں نے ایک دھیلے کی کرپشن نہ کی ہو، وہ صوبے
اور قوم کے خادم ہی کیوں نہ ہوں، ان کا پروٹوکول اور مراعات ہی اس قدر ہیں
کہ ان کے ملک اور صوبے کے لوگوں کا خون نچوڑ نچوڑ کر ہی حکمرانوں کو
عیاشیاں مہیا کی جاتی ہیں۔ اگر بل زیادہ آئیں گے تو بھی ان کا اضافی حصہ
حکمرانوں کی ضرورتوں کو ہی پورا کرے گا، ایسے میں حاجتمندوں کی داد رسی کے
بارے میں کون سوچ سکتا ہے؟
|
|