ملک میں بڑھتے ٹریفک حادثات

حادثات کا شکار ہم بھی تو ہو سکتے ہیں
تحریر: عدیلہ سلیم
رواں ماہ مئی میں ٹریفک حادثات کی شرح بہت زیادہ اور خطرناک رہی۔ جھنگ،لاڑکانہ ،چینوٹ ، بورے والا اور راولپنڈی میں کچھ بڑے اور ہولناک حاثات پیش آئے۔ اس کے علاوہ بھی ملک کے دیگر شہروں میں ٹریفک حادثات رونما ہوئے۔ ان حادثات کے نتیجے میں 70سے زائد افراد لقمہ اجل بنے جبکہ سینکڑوں افراد زخمی ہوکر اسپتال سدھار گئے۔ حادثات میں ایک ایک گھر کے 7، 10، 3 افراد بھی شامل تھے۔ ایک ٹریفک حادثے میں گھر کے اکلوتے تین بھائی بھی زندگی کی بازی ہار بیٹھے ۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جہاں وقت خوشی کی خبر لاتاہے اس کے ساتھ ساتھ وقت اچانک دکھ بھری داستان کی لہر بھی ابھارتا ہے۔ ہم اپنی زندگی موج مستی کی نظر کرتے ہیں ،کبھی اردگرد نظر دوڑائیں تو اکثر حادثات مختلف گھروں کے چراغ تک بجھا دیتے ہیں۔کیا ہم ان حادثات کی وجہ ہیں؟سفرکے دوران آپ اپنے اردگرد بے شمارٹریفک حادثات دیکھتے ہیں،کیا کبھی آپ نے سوچا کہ اس حادثے کا شکار آپ خود،آپ کا بیٹا،بیٹی یا کوئی بھی رشتہ دار ہو سکتا ہے۔حادثات کیوں جنم لیتے ہیں؟ کیا ان حادثات کے ذمہ دار آپ خود تو نہیں؟

حادثہ کیسے پیش آیا؟ حادثہ کی وجہ کون لوگ ہیں؟ ایسے سوال ہر اک انسان کے ذہن میں ضرور کھٹکتے ہوں گے۔ اس ماہ میں ہونے والے چند حادثات آپ کو احتیاط کرنے پرضرور مجبور کرئے گے۔ہر ماہ،ہر دن حادثے ہوتے ہیں،بہت سے لوگ ان حاد ثات کی وجہ سے خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں یا معذوری ان کا مقدر بن جاتی ہے۔جب کسی انسان کے ساتھ حادثہ پیش آتا ہے تو اس کے ذہن پر چسپاں ہو کر رہ جاتا ہے۔ تب اس کے بعد ہی انسان احتیاط برتتا ہے۔دیکھا جائے تو آج کے دور میں انسان کیوں تکلیف اور چوٹ کھانے کے زمرے میں آنے کے بعد ہی خود کو سلجھاتا ہے۔کہا جاتا کہ انسان وقت کی ٹھوکر لگنے کے بعد ہی خود کی گتی کو سلجھاتا ہے۔ بہتری تو اسی میں ہے کہ انسان وقت اور حادثات کا شکار ہونے کے بجائے احتیاط برتے۔ موت تو کسی بھی وقت آ سکتی ہے انسان کو اگلے سانس کی خبر بھی نہیں تاہم کچھ معلوم نہیں کہ انسان اس دنیا میں ہو یا اس کی روح اس دنیا سے پرواز کر جائے۔

اگر ذرا دیر کو غور کریں تو رونما ہونے والے بیشتر حادثا ت کی وجہ ہم خود ہی ہوتے ہیں۔ تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں جنہیں ٹریفک پولیس کہا جاتا ہے ان کی بھی غفلت کہیں کہیں دیکھائی دیتی ہے۔ بظاہر دیکھا جائے تو قانون ہمیں دو راستے فراہم کرتاہے ایک راستہ جو آپ کو حادثات کا شکار ہونے سے محفوظ رکھتا ہے اور دوسرا جو آپ خود اس قانون کے لائحہ عمل کو توڑ کر حادثات کی وجہ بنتے ہیں۔ٹریفک پولیس کا کام صرف آپ کو آپ کی غلطی پر نظر ثانی کروانا۔دیکھا جائے تو ان حادثات کی اصل وجہ خود عوام ہے۔دیر سے پہنچنے سے بہتر ہے کہ وقت سے پہلے اپنے سفر کی راہ لیں۔

اگر آپ تسلی اور صبرسے کام لیں تو مصیبت سے نجات پا سکتے ہیں۔ ہر روز لوگوں کو سڑک پر مرتے دیکھا ہے۔ ان میں سے اکثر نا تجربہ کار ڈرائیور ہوتے ہیں، منشیات پینے کے بعد تیز رفتار گاڑی چلاتے ہیں اور ڈرائیورز کا پسندیدہ مشغلہ جو دیکھنے میں سامنے آیا ہے وہ یہ کہ مختلف گاڑیوں کے ڈرائیورز آپس میں دیر لگاتے ہیں جس کا نتیجہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔سڑک حادثات میں اکثریت سبب انسانی غلطی کا ہے۔ ریسرچ کے مطابق 80فیصد تمام مہلک حادثات ڈ رائیور غلطی کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔سب سے زیادہ ٹریفک حادثات کئی عوامل کی پیداوار ہوتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ مطالعہ کے محکمہ کے مطابق 2016ء میں ٹریفک حادثات کی مندرجہ ذیل وجوہات یہ ہیں۔

٭18% اردگرد پر توجہ میں ناکامی ٭10% رفتار میں ناکامی کا باعث ٭ 9% لاپرواہ یا جلدی میں ہونے کے ناطے ٭ 8% غلط موڑ یا اچانک راستہ تبدیل کرنا ٭8% گاڑی کو زیادہ رفتار کے باعث کنٹرول نہ کر سکنا ٭25%اچانک بریک ٭30%گاڑی کی حد رفتار سے بڑھانا ہے۔

ان وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ڈرائیونگ کی جائے تو اس قسم کے حادثات سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ ٹریفک کے دوران اوور ٹیک کرتے وقت خیال رکھا جائے۔ اردگرد نظر ثانی کر کے تسلی کر لیں۔ رش کے دوران گاڑی کی رفتار نہ بڑھائیں۔ گاڑیوں کے درمیان فاصلہ لازمی رکھے۔اور خود پر لازم کر لیں کہ آپ قانون کے اصولوں کی کرچیاں نہیں بکھیرے گے۔ احتیاط کیوں لازم ہے؟ قانون کس لیے بنایاگیا؟ یہ سب تدابیر آپ کے سامنے کیوں پیش کی گئی؟ سوچا جائے تو بس ایک ہی جواب آپ کے ذہن پر محیط ہو گا۔ وہ یہ کہ اپنی زندگی سے مت کھیلیں اپنوں کے لئے تکلیف کا باعث نہ بنے۔ کوئی بھی انسان اپنے جگر کے ٹکڑوں کو یوں پاش پاش ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔لہذا اپنوں کا احساس کیجیے۔اور تدابیر پر عمل کیجیے۔
میری آنکھ سے آنسو یو ں ٹپک پڑا
جب لخت جگر کے ٹکڑوں کو سڑک سے اکٹھا کیا
 
Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142377 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.