پوری خوہشیں ادھوری محبتیں

تحریر: بیا بٹ
راحیلہ کے بابا جیسے ہی کالج کے گیٹ پر چھوڑ کر گئے ، وہ اندر جانے کی بجائے پچھلی گلی میں مڑ گئی۔ اس کے چہرے سے گھبراہٹ واضح تھی۔ زندگی کا یہ پہلا موقع تھا کہ وہ اکیلی کسی غیر سے ملنے جارہی تھی۔ اسلم اب بھی وقت ہے ہم گھر والوں سے بات کرتے شادی کی اس کی آواز میں پریشانی صاف جھلک رہی تھی۔ تمہیں مجھ پر بھروسہ ہے نا پریشان نہیں ہوں۔ اس نے بائیک اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔ آدھے گھنٹے بعد وہ اسلم کے دوست کے گھر تھے۔ یہ کہاں لے آئے ہو تم۔ آو تو سہی اسلم نے اسے کہا ، وہ ڈرتی ڈرتی اس کے ساتھ اندر گئی گھر بالکل خالی تھا راحیلہ کا دل کسی انجانے خدشے سے ڈوبا جا رہا تھا۔ تم رکو میں ابھی آیا اسلم اسے کرسی پہ بیٹھا کے باہر نکل گیا اس کے ذہن میں خدشات بڑھتے جارہے تھے۔ دل کسی خطرے کی نشاندہی کر رہا تھا دماغ کہہ رہا تھاکچھ نہیں ہوگا محبت کے نام پے ایک اور بیٹی اپنی چادر پاؤں میں روندنے آئی تھی۔ جسے وہ اعتبار کی سبھی لگامیں پکڑا چکی تھی وہیں شخص آج اس کی عزت کا جنازہ نکالنے جا رہا۔ دل کے رشتے انسان کی آنکھوں کو بھی اندھا کردیتے ہیں جس کے بعد ہر کام ٹھیک لگنے لگتا ہے۔ انسان اپنے مفاد کے لیے جائز سمجھنے لگتا راحیلہ کے لاکھ منتیں کرنے پر بھی شکاری محبت کا کھیل کھیلنے سے باز نہیں آیا۔ وہ سب کچھ ہار چکی تھی اپنا دل اپنی عزت اور بوڑھے ماں باپ کا مان اور حتیٰ کہ زندگی بھی۔ اگلے دن ایک عزت دار ماں باپ کی بیٹی نے موت کو زندگی پر ترجیح دی تھی۔ شکاری نے ایک اور شکار کی تلاش شروع کردی تھی۔

یہ ایک چھوٹی سی داستان الم ہے جسے بیان کرنے کے لیے نہ تو الفاظ ہیں اور نہ ہی ہمت و حوصلہ۔ محبت کے نام پر روزانہ ہی ایک کلی کو مسل دیا جاتا ہے۔ روز ہی کوئی جیتے جی اپنی موت کا پروانہ لکھوا کر دہلیز پر لٹکا جاتا ہے۔ محبت کے چند میٹھے بول سے لے کر خود کشی میں لپٹی لاش تک کا سفر ہر شہر ، گا?ں اور محلے دوہرایا جارہا ہے۔ محبتیں اتنی آسان اور سستی ہوگئیں کہ کوئی کہیں بھی کسی بھی موڑ پر انہیں نیلام کردیتا ہے۔ کھنکتی ہوئی چوڑی کی ماند ہوگئیں ہیں کہ جو پہنی جاتی ہیں ، کھنکتی ہیں اور پھر کھنک کے ٹوٹ جاتی ہیں۔ آج کل محبت بھی گھنٹوں اور دنوں کے حساب سے ہوتی ہے۔ ہزار ہا عزتوں کی امین بیٹی کو جدید لفظ گرل فرینڈ کے نام پر بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ بہت زیادہ پڑھے لکھے گھر کی ہر آسائش سے آراستہ دوشیزہ بھی گرل فرینڈ کہلانے میں فخر محسوس کرتی ہے۔ والدین اتارتے ہیں کہ وہ مغربی آزادی سے مزین سوسائٹی کے لوگ ہیں۔ انہیں مشرقی ماحول میں گھٹن ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی اولادوں میں بھی وہیں رنگ دیکھنا پسند کرتے ہیں۔

جسے وہ آزادی سمجھتے ہیں وہاں ہر آزادی موجود ہے مگر فقدان ہے تو صرف عصمتوں کے تحفظ کا۔ وہ آزاد خیال لوگ آج تک عزتوں کی پسماندگی سے باہر نہیں نکل سکے۔ آزادی کے نعرے لگانے والوں کی اپنی بیٹی جب آزادی کا شکار ہوگی تو انہیں تب احساس ہوگا کہ مغرب اور مشرق میں کیا فرق ہے۔ بیٹیوں کا مقام آزادانہ ماحول سے نہیں پیدا کیا جاسکتا بلکہ انہیں آزادانہ سوچ مہیا کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ بیٹی کا مقام بلند ہر ایرے غیرے کو متعارف کروانے سے نہیں ہوتا بلکہ ان کی تعمیر اور ترقی کرنے سے ملتا ہے۔ اس وقت بیٹیوں کا تحفظ سائبر سے لے کر گلی کوچے ہر لحاظ سے بہت ضروری ہوگیا ہے۔

بیٹیوں کو بھی یہ بات اچھی طرح سمجھنی ہوگئی کہیں وہ اپنے والدین کا مان تو نہیں توڑ رہیں۔ ہر روز ایک نئی داستان سے کہیں ایسا نہ ہو ہمارے والدین ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خفا ہوجائیں۔ کس کس پر اعتبار کریں گی اور کب تک کریں۔ یاد رکھیں محبت کا وقت بہت محدود ہے۔ کچھ پل، کچھ گھنٹے، کچھ دن یا پھر کچھ ماہ۔ بہت افسوس ہوتا ہے کہ آے دن اخبارات میں خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کی لاش کسی ویران جگہ پر ملی لڑکا پیسے لے کر فرار ہوگیا۔ بات صرف پیسوں تک ہوتی تو نقصان پورا ہو جاتا مگر انسانوں کے روپ میں چھپے درندے ان کلیوں کو مسل کر پھینک جاتے ہیں زندگی تک چھین لیتے اور اگر غلطی سے زندہ بچ بھی جائیں مردوں سے بدتر زندگی ہوتی ہے۔

حیرت ہے اس صنف نازک پر کہ جو محبت کے دھوکے میں اپنا سب کچھ لٹا دیتی ہیں۔ غیر کے پیچھے بھاگتے بھاگتے خود کو رستے کی دھول بنا لیتی ہیں۔ یہ لڑکیاں بھی کتنی پاگل ہوتی ہیں اپنے ’’آج ‘‘ کی چند جھوٹی خوشیوں کے بدلے اپنے آنے والے ’’کل ‘‘ کی حقیقت کو جھٹلا دیتی ہیں۔ چند وقتی حسین لمحوں کی قید میں عمر بھر کے آنسو اپنی قسمت میں لکھ لیتی ہیں۔ جانے کب تک محبت کہ نام پہ کھیلا جانے والا یہ کھیل بیٹیوں کے سر سے آنچل کھینچتا رہے گا۔ لوگ کیوں اس وقت سے نہیں ڈرتے جب ایک اور بیٹی ان کے ماضی کا بوجھ اپنی ذات کے عوض اتارے گی۔ یہ کھیل ایک بیٹی پر ختم نہیں ہوگا۔ نسل در نسل ہمارے گناہ بھی منتقل ہوں گے۔کیوں ہم انسانیت کے نام پر حیوانیت کو اپنا رہے ہیں ؟ یہ سب تباہی مغرب کے طور طر یقے اپنانے اور مذہب سے دوری کا نتیجہ ہے ہمارا رہن سہن ریت رواج سب مغرب میں رنگے نظر آتی ہیں۔ ہمارا میڈیا جو دکھاتا اسی کی عکس بندی ہمارا نوجوان طبقہ کرتا ہے۔

اے بیٹی یاد رکھ تمہاری محبت کا حقیقی حق دار تمہار حقیقی سائبان ہے۔ جو عزت رلنے کی بجاے فراہم کرتا ہے۔ گرنے کی بجائے بلند کرتا ہے۔ اگر ہم اپنا آج اس بے راہ روی کی نظر کریں گے تو ہمارا کل یقینا ماضی کی غلطیوں کی تصویر ہوگا، ہمارے ماضی کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔ آج دوسروں کی بیٹی کی چادرداغدار کرنے والوں کی کل اپنی عزت اچھالی جائے گی۔ ا حوا کی بیٹی کسی ایک کی عزت نہیں۔ وہ کسی کی ماں ہے کسی کی بہن کسی کی بیٹی ہے وہ آپکی بیٹی بھی ہو سکتی ؟؟؟چادر سر پے رکھنے والے بنے چھیننے والے مت بنیں۔
 
Arif Jatoi
About the Author: Arif Jatoi Read More Articles by Arif Jatoi: 81 Articles with 76174 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.