اپنے حقوق سے بے بہرہ انسان قابل رحم بھی
ہوتا اور مستحق سزا بھی،مغربی ممالک کو آزادی اورحقوق کے تحفظ کے حوالہ سے
امتیازی درجہ حاصل ہے،یہی وجہ ہے کہ مغربی عوام خوشحال ہے،ایک مغربی آدمی
اپنے حقوق پر سمجھوتہ نہیں کرتا، بلکہ اپناحق حاصل کرنے کے لیے حکومت وقت
سے ٹکرانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ مغربی
ممالک کی ان جوانب میں تعریف کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مغربی معاشرہ
ایک مثالی معاشرہ ہے،بلکہ یہ وہ اسلامی روایات ہے جن کو مسلمانوں نے ترک
کردیا،اور غیروں نے انہی پر عمل کرکے دنیا میں اپنا لوہا منوایا،اور اگر
کسی کو مغرب کی اتنی تعریف بھی نہیں بھاتی تو وضاحت کے کے لیے عرض ہے کہ
مغربی ممالک میں حکام کے احتساب،غلطیوں سے سیکھنے اور پلٹنے کے بعدجلد
جھپٹنے کی تعریف حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے بھی کی ہے۔مسئلہ یہ ہے
کہ مغربی معاشرہ اپنے حقوق کے حوالہ سے اقدامات اٹھانے میں انتہائی مستحکم
اور باشعور ہے،اس کے برعکس اسلامی دنیا میں استخرابی قوتوں کے پڑاؤ اور
قبضہ سے ذہنوں پر کم تری ،بے حسی اور لاپرواہی کا جو گند جمع ہوا تھا، وہ
مقبوضہ افواج کے جانے کے بعد بھی صاف نہیں ہوسکا،صرف یہی نہیں ،اس قبیح عمل
میں خود غرضی کا عنصر بھی شامل ہے،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرہ میں
ہر شخص نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا رکھی ہے ،اپنےذاتی نظریات و خیالات
اور مفادات کے حصار میں جب تک ہر شخص کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کو خطرہ نہیں
ہوتا ،اس کو باہر کی زندگی " گندی سیاست" لہو لعب اور بے فائدہ نظر آتی
ہے،جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہر آدمی کو( فطری تقاضوں کے تحت ) اپنے ذاتی اغراض
اور مفادات کا تحفظ کا سب سے آسان طریقہ یہی نظر آتا ہے، کہ اپنی ڈیڑھ اینٹ
کی مسجد میں تنہائی اختیار کرلے۔
اس خود غرضی کی انتہا ایک طرف ،مزید ستم ظریفی یہ کہ اس نظریہ پر عمل کرنے
والے بڑے فخر سے اپنے آپ کو "غیرسیاسی" بھی کہتے ہیں، حالانکہ اس زمانہ میں
غیر سیاسی ہونا جرم ہے،اور یہی سیاست سے دوری ہے جس کی وجہ سے ہمارے اوپر
آج زیادتی پر زیادتی ہوتی ہے،ہمارا مال لوٹا جاتا ہے،ہمارا حق چھینا جاتا
ہے،ہمارے اوپر ظلم ہوتا،اور ہم خود کو عقل کل سمجھ کر یہ کہتے ہیں " جی
ہمارے حکمران اور حالات ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے "۔یقینا ہمارے اعمال کا
نتیجہ ہے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ برے حالات اور بے ایمان حکام پر صرف
صبر سے کام لیا جائے ،کیونکہ اگرمصیبت کا حل صبر ہی ہے ،تو بیماری پر (جو
کہ ایک مصیبت ہےاور یقینا مریض کے اعمال کا نتیجہ ہے)مریض کو علاج کے بجائے
صبر و تحمل سے برداشت کرنا چاہیے!!لیکن ایسا نہیں ہوتا ،کیونکہ مسئلہ
مفادات کا ہے،ظلم کے خلاف بولنے سے مفادات کو نقصان پہنچنے کا خوف ہمیں
زبان کھولنے سے روکدیتا ہے،اور خوف کی غلامی بڑے بڑوں کی عقل کو اندھا
کردیتی ہے۔
دوسرا یہ کہ جن بداعمالیوں کے سبب ہمارے اوپر برے حالات مسلط ہے ان میں
سرفہرست ظالم کو ظلم سے نہ روکنا ہے،اسی کو قران نے بنی اسرائیل کی تباہی
کا سبب بتایا ہے اور رسول اللہّ نے بھی ظالم کو حق کی طرف کھینچ کر نہ لانے
کوعذاب خداوندی کا سبب بتلایا ہے ،لہذا موجودہ حالات کو بداعمالیوں کا
نتیجہ ثابت کر کے ہم ہرگز بری الذمہ نہیں ہوتے ،بلکہ ہمارے اوپر واجب
ہوجاتا ہے کہ ہم ضعیف،مظلوم اور لاچار کے ساتھ کھڑے ہوکروقت کے فرعونوں کو
للکارے، جس طرح حضرت موسی نے فرعون کوللکارا تھا،اورجس طرح آپّ نے اعرابی
کو ابوجہل سے حق دلوایا تھا،اور جس طرح صحابہ کی تربیت ہوئی تھی کہ ایک عام
آدمی کو بھی امیر المؤمنین کے بدن پر دو کپڑے منظور نہیں تھے کیونکہ ہر کسی
کے نصیب میں ایک کپڑا آیا تھا!!یہ ہمارے اسلاف کی غیرت تھی کے ایک کپڑے کی
زیادتی ان کو منظور نہیں تھی،اور ہم اربو ں کھربوں کے ڈاکے انتہائی فراخدلی
سے قبول کرلیتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ اس وقت ہم دنیا پر حکومت کرتے تھے اور آج
دنیا ہمارے اوپر تصرف کرتی ہے!!
آج حقوق کی آواز مفادات اور ذاتی اغراض کے درمیان گھر چکی ہے،مظلوم کو بھی
یقین نہیں آتا کے اس کی آواز میں جان ڈالنے والے واقعی ہمدرد ہے یا وہ
مظلوم کی آواز کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہےہے،اس کی بنیادی وجہ یہ
ہے کہ مظلوم خود نا انصافی کے خلاف کھڑا نہیں ہوتا،اس کو کسی مضبوط ہاتھ کی
ضرورت ہوتی ہے جو مظلوم کو کھڑے ہونے کی ہمت دیں،ایسے صورت میں ظالم مظلوم
کی مدد کے لیے بڑھنے والے ہر ہاتھ کو الزامات کا نشانہ بناتا ہے تاکہ مظلوم
کبھی کھڑے ہونے کے قابل ہی نہیں ہو،اس صورت میں کسی اور کو نہیں خود مظلوم
کو ذمہ دار ٹہرایا جائے گا،جس کے پاس نہ خود آواز اٹھانے کی طاقت ہےنہ اپنے
ہمدرد و دشمن میں فرق کرنے کی عقلی صلاحیت ہے،ایسی نادان کی طرف بڑھنے والا
ہر ہاتھ اس کے لیے رحمت سے کم نہیں،اس کے بعدبھی اگر وہ چوں چراں کریں تو
یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایسے ذہنی خبط میں مبتلا جس کا علاج قدرت متواتر
آفات اور مصیبتوں سے کرتی ہے۔ |